بالی ووڈ کے معروف میوزک کمپوزر روشن نے ہر طرح کے گانے کمپوز کیاہے لیکن قوالیوں کو کمپوز کرنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 4:01 PM IST | Agency | Mumbai
بالی ووڈ کے معروف میوزک کمپوزر روشن نے ہر طرح کے گانے کمپوز کیاہے لیکن قوالیوں کو کمپوز کرنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔
بالی ووڈ کے معروف میوزک کمپوزر روشن نے ہر طرح کے گانے کمپوز کیاہے لیکن قوالیوں کو کمپوز کرنے میں انہیں مہارت حاصل تھی۔ ۱۹۶۰ءمیں ریلیز ہونے والی سپرہٹ فلم ’برسات کی رات‘میں یوں تو تمام نغمے مقبول ہوئے لیکن روشن کی میوزک ڈائریکشن میں منا ڈے اور آشا بھوسلے کی آواز میں نے ساحر لدھیانوی کی قوالی ’نہ تو کارواں کی تلاش‘اورمحمد رفیع کی آواز میں ’یہ عشق عشق ہے‘ آج بھی سننے والوں کے دلوں میں انمٹ نقش چھوڑے ہوئے ہیں۔ ۱۹۶۳ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’دل ہی تو ہے‘ میں آشا بھوسلے اور منا ڈے کی ڈوئیٹ آواز میں روشن کی موسیقی پر مبنی قوالی ’نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے‘ آج جب کبھی بھی فضاؤں میں گونجتا ہے تب اسے سننے والے مدہوش ہو جاتے ہیں۔
۱۴؍ جولائی۱۹۱۷ء کو اُس وقت کے مغربی پنجاب کے گجرانوالہ شہر (اب پاکستان میں ) ایک ٹھیکیدار کے گھر میں پیدا ہونے والے روشن کا رجحان بچپن ہی سے اپنے والد کے پیشے کی طرف نہ ہوکر موسیقی کی طرف تھا۔ موسیقی کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے روشن اکثر فلمیں دیکھنے جایا کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے ایک فلم پران بھگت دیکھی۔ فلم ’پران بھگت‘میں پلے بیک سنگر سہگل کی آواز میں ایک بھجن روشن کو کافی پسند آیا۔ اس بھجن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے کئی بار یہ فلم دیکھی۔ ۱۱؍ سال کی عمر تک ان کا رجحان موسیقی کی طرف ہو گیا اوروہ استاد منوہر بروے سے موسیقی کی تعلیم لینے لگے۔
یہ بھی پڑھئے:امول پالیکر کی دھیمے انداز میں مکالموں کی ادائیگی مداحوں کو لبھاتی ہے
منوہر بروے اسٹیج پروگرام بھی کرتے تھے۔ ان کے ساتھ روشن نے ملک بھر کے اسٹیج پروگرام میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اسٹیج پر جا کر منوہر بروے نے جب وہ کہتے کہ اب وہ آپ کے سامنے ملک کے سب سے بڑے گلوکار پیش کرنے جارہے ہیں تو روشن مایوس ہوجاتےکیونکہ انہیں گلوکار کا لفظ پسند نہیں تھا۔ ان دنوں تک روشن یہ فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ گلوکار بننا ہے یا موسیقار۔ کچھ عرصے بعد روشن گھر چھوڑ کر لکھنؤ چلے گئے اور مورس کالج آف میوزک کے پرنسپل رتن جانکر سے موسیقی سیکھنے لگے۔ تقریباً پانچ سال تک موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ میہر آگئے اور استاد علاءالدین خان سے موسیقی کی تعلیم لینا شروع کی۔ ایک دن علاءالدین خان نے روشن سے پوچھا کہ’’تم دن میں کتنے گھنٹے مشق کرتے ہو۔ ‘‘روشن نے بڑے فخر سے کہا کہ ’’دن میں دو گھنٹے اور شام میں دو گھنٹے۔ ‘‘ یہ سن کر علاءالدین خان نے کہا کہ اگر وہ پورے دن میں آٹھ گھنٹے ریاض نہیں کر سکتے تو اپنا بوریا بستر اٹھا کر یہاں سے جا سکتے ہیں۔ روشن کو یہ بات چھو گئی اور اس نے شوق سے ریاض کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی ان کی محنت رنگ لائی اور انہوں نے سر کے اتار چڑھاؤ کی باریکیاں سیکھ لیں۔
روشن نے ان سب کے درمیان بندو خان سے سارنگی کی تعلیم حاصل کی۔ روشن نے ۱۹۴۰ء میں آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بطور موسیقاراپنے کریئر کی شروعات کی۔ بعد میں انہوں نے ریڈیو سے شائع ہونے والے کئی پروگرام میں بطورہاؤس کمپوزر بھی کام کیا۔ ۱۹۴۹ءمیں فلمی موسیقار بننے کا خواب لے کرروشن دہلی سے ممبئی آ گئے۔ اس فلمی دنیا میں ایک سال جدوجہد کرنے کے بعدان کی ملاقات مشہور ڈائریکٹر پروڈیوسرکیدار شرما سے ہوئی۔ روشن کے گانا کمپوز کرنے کے انداز سے متاثر ہوکر کیدار شرمانے انہیں اپنی فلم ’نیکی اور بدی ‘ میں بطورموسیقار کام کرنے کا موقع دیا۔
اپنی پہلی فلم نیکی اور بدی کے ذریعے بھلے ہی روشن کامیاب نہیں ہو پائے لیکن موسیقار کے طور پر انہوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغار ضرور کیا۔ ۱۹۵۰ء میں ایک بار پھر روشن کی فلم ’باورے نین‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم میں مکیش کے گائے گیت ’تیری دنیا میں دل لگتا نہیں ‘ کی کامیابی کے بعدروشن فلمی دنیامیں موسیقارکے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔
روشن کی موسیقی پر مبنی نغمے کو سب سے زیادہ مکیش نے اپنی آواز دی ہے۔ نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کے ساتھ روشن کی جوڑی خوب جمی۔ ان دونوں کی جوڑی کے گانوں نے شائقین کو مسحور کر دیا۔ ان نغموں میں ’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘، ’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات‘، ’لاگا چنری میں داغ‘، ’جو بات تجھ میں ہے‘، ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘اور’دنیا کرے سوال توہم کیا جواب دیں ‘ جیسے سریلے نغمے شامل ہیں۔ روشن کو۱۹۶۳ءمیں ریلیز ہوئی فلم تاج محل کیلئے بہترین موسیقار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ فلمی دنیا کو اپنے بے مثال موسیقی سے شرابور کرنے والے یہ عظیم موسیقار ۱۶؍ نومبر ۱۹۶۷ء کو اس دنیا سے چلا گیا۔