۵؍ سال کی عمر میں اپنی والدہ جدن بائی کی فلم ’تلاش حق‘میں پہلی بار انہوں نے کیمرے کا سامنا کیا تھا، اس کے بعدمیڈم فیشن ، موتی کا ہار اور پردہ نشین جیسی فلموںمیں بھی انہوں نے ’بے بی رانی‘ کے نام سے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
EPAPER
Updated: February 15, 2025, 8:51 PM IST | Mumabi
۵؍ سال کی عمر میں اپنی والدہ جدن بائی کی فلم ’تلاش حق‘میں پہلی بار انہوں نے کیمرے کا سامنا کیا تھا، اس کے بعدمیڈم فیشن ، موتی کا ہار اور پردہ نشین جیسی فلموںمیں بھی انہوں نے ’بے بی رانی‘ کے نام سے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
ہندوستانی فلموں کی تاریخ میں ایسے کئی نام ہیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایسے فنکاروں اور اداکاروں کی فہرست میں ایک نام نرگس دت کا بھی ہے، جنہیں گزرے تقریباً ۴۰؍سال کا طویل عرصہ بیت چکا ہے، مگر آج بھی اُن کی شخصیت اور اداکاری کو ایک مخصوص مقام حاصل ہے۔ کلکتہ کے ایک پنجابی مسلم خاندان میں یکم جون ۱۹۲۹ء کو فاطمہ رشید کا جنم ہوا، جنہیں ہم اداکارہ نرگس کے طور پر جانتے ہیں۔ اُن کے والد کا اصل نام موہن چند اُتم چند تیاگی تھا جو راولپنڈی کے ایک ہندو پنجابی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ بعد میں اُنہوںنے اسلام قبول کر لیا اور عبدالرشید کے نام سے مشہور ہوئے۔ نرگس کی والدہ کا نام جدّن بائی تھا اور وہ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کی مشہور گلوکارہ کے ساتھ ہی اداکارہ بھی تھیں۔ ہندوستانی سنیما کے ابتدائی دنوں سے ہی انہوں نے گلوکاری اور اداکاری شروع کر دی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ ٹی وی پر ہر طرح کے کردار نبھا لئے، اب کچھ الگ کرنے کا ارادہ ہے‘‘
فلمی کاروبار سے منسلک ہونے کی وجہ سے جدن بائی کو کلکتہ سے ممبئی منتقل ہونا پڑا۔ یہاں جدن بائی نے بطور فلمساز ایک فلم شروع کی، جس کا نام تھا ’تلاشِ حق‘۔ اِسی فلم میں انہوں نے پہلی بار نرگس کو بے بی رانی کے نام سے بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کے سامنے پیش کیا تھا۔ فلم ’تلاشِ حق‘ کے بعد نرگس نے’میڈم فیشن (۱۹۳۶ء)، موتی کا ہار (۱۹۳۷ء) اور فلم پردہ نشین‘ (۱۹۴۲ء) میں بھی بے بی رانی کے نام سے چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا۔ نرگس کی تعلیم ممبئی کے کوئین میری کانوینٹ اسکول میں ہوئی۔ بچپن ہی سے نرگس کے دل میں ایک ڈاکٹر بننے کی خواہش تھی مگر کاتبِ تقدیر نے اُن کی قسمت میں اداکاری لکھ دیا تھا۔۱۹۴۲ء میں ہدایتکار محبوب خان جب اپنی فلم ’تقدیر‘ کیلئے ہیروئن کی تلاش میں تھے، تو اِتفاق سے اُن کی نظر نرگس پر پڑی اور انہوں نے نرگس کو اسکرین ٹیسٹ کیلئے بلا لیا۔ اِتنے بڑے اور مشہور فلمساز و ہدایت کار کے سامنے وہ انکار تو نہ کر سکیں، لیکن ٹیسٹ میں غلط سلط اور واہیات حرکتیں کرکے چاہا کہ وہ ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہو ں مگر قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ محبوب خان کے فیصلے کو بدل نہ سکیں۔ اس طرح ۱۴؍برس کی عمر میں ۱۹۴۳ء میں محبوب خان کی فلم ’تقدیر‘ میں نرگس کو موتی لال کے ساتھ بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا۔ نرگس کی اس فلم نے باکس آفس پر بہت شہرت حاصل کی اور فلم شائقین نے بھی نرگس کی اداکاری کو خوب پسند کیا۔ فلم ’تقدیر‘ کے بعد ۱۹۴۵ء میں نرگس نے محبوب خان کی ہدایت میں بننے والی ایک تاریخی فلم ’ہمایوں‘ میں بھی کام کیا، جس میں اُن کے ہیرو اشوک کمار تھے۔ واقف مرادآبادی کی لکھی ہوئی کہانی پر بننے والی اس فلم کے دیگر اداکاروں میں وینا، چندر موہن، کے این سنگھ اور شاہنواز نے اہم کردار ادا کئے تھے۔
پردے پر نرگس کو ناظرین کی اِتنی محبت اور شہرت ملی کہ اِس کے بعد اَب اُنہیں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی فرصت نہیں تھی اور اُن کی فلمیں لگاتار ایک کے بعد ایک کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ نرگس نے فلمی پردے پر ہر طرح کے کرداروں کو نبھایا۔ اس کے تیکھے نقش اور جادوئی آنکھوں نے ہر کسی کو متاثر کیا۔ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرتے ہوئے ۱۹۴۸ء میں نرگس کو پہلی بار دلیپ کمار کے ساتھ فلم ’میلہ‘ اور ’انوکھا پیار‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء میں ہدایتکار اور اداکار راج کپور کے ساتھ فلم ’آگ‘ میں بھی نرگس نے کام کیا۔
۱۹۴۹ء میں محبوب خان نے اپنی مشہورِ زمانہ فلم ’انداز‘ میں ایک بار پھر نرگس کو نینا کے کردار میں پیش کیا۔ اِس فلم میں نینا (نرگس) کا شوہر راجن (راج کپور) نینا اور اُس کے دوست دلیپ (دلیپ کمار) کی دوستی پر شک کرتا ہے۔ شروع میں یہ فلم زیادہ کامیاب نہیں ہوئی مگر جب دھیرے دھیرے یہ فلم باکس آفس پر بھیڑ جٹانے میں کامیاب ہو گئی تو ۱۹۴۹ء کی سب سے کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ فلم ’انداز‘ اداکار کے طور پر راج کپور کے فلمی سفر کی پہلی کامیاب فلم رہی اور اس فلم سے نرگس اور دلیپ کمار کو بھی کافی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے بعد راج کپور نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’آگ‘ کی باکس آفس پر ناکامی کے بعد اپنی دوسری فلم ’برسات‘ میں نرگس کو مرکزی کردار کیلئے منتخب کر لیا۔
نرگس نے اپنے زمانے کے تمام چھوٹے بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کیا۔ موتی لال، اشوک کمار، دلیپ کمار، ناصر خان، سپرو، کرن دیوان اور راج کپور وغیرہ کے ساتھ فلمیں کیں، لیکن راج کپور کے ساتھ ان کی جوڑی مثالی بن گئی تھی۔ فلم ’برسات‘ میں نرگس نے گائوں کی ایک ڈانسنگ گرل کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم کو عوام نے خوب سراہا۔ یہ فلم اداکارہ نمّی کی پہلی فلم تھی جو بعد میں ایک کامیاب اداکارہ بنیں۔ فلم ’انداز‘ کی زبردست کامیابی کے بعد فلم ’برسات‘ کو بھی شائقین نے کافی پسند کیا اور یہ فلم ۱۹۴۹ء کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بھی ثابت ہوئی۔
اس کے بعد نرگس نے ۱۹۵۰ء میں دلیپ کمار کے ساتھ دو فلموں میں کام کیا’جوگن‘اور ’بابل‘۔ یہ دونوں ہی فلمیں معاشی لحاظ سے کامیاب رہیں اور خاص طور پر فلم ’بابل‘ میں نرگس کی اداکاری کی عوام و خواص میں بہت شہرت ہوئی۔ فلم ’جوگن‘ کے ہدایتکار کیدار ناتھ شرما تھے اور اسے پروڈیوس کیا تھا چندو لال شاہ نے۔ اس کے علاوہ فلم ’بابل‘ ہدایت کار ایس یو سنی تھے اور فلمساز تھے نوشاد علی۔ فلم ’انداز‘ اور ’برسات‘ کی کامیابی کے بعد نرگس کی منفرد اداکاری اور خوبصورتی سے راج کپور بہت متاثر ہوئے تھے۔ اسلئے راج کپور نے اپنی اگلی فلم ’آوارہ‘ میں بھی نرگس کو بطور ہیروئن لے لیا اور یہ فلم ۱۹۵۱ء میں ریلیز ہوئی۔ حالانکہ اس فلم کی کہانی ایک باپ اور اس کے بچھڑے ہوئے بیٹے کے اِرد گرد گھومتی ہے، پھر بھی نرگس نے فلم میں ایک ایسی وکیل کا کردار ادا کیا جو یہ سچ جانتی ہے کہ رگھوناتھ کا بیٹا راج ہی ہے۔ اُس زمانے کی دیگر اداکارائوں کے ذریعہ ادا کئے گئے کرداروں سے ہٹ کر، نرگس نے اس فلم میں ایک بے خوف وکیل کا کردار ادا کیا تھا جو اُن لوگوں پر تنقید کرتی ہے جو خواتین کو گھریلو کاموں کیلئے بنائی گئی کوئی چیز سمجھتے ہیں۔ فلم ’آوارہ‘ کے ایک منظر میں نرگس کو سوئمنگ سوٹ میں بھی دیکھا گیا، جو اُس زمانے میں ہندوستانی خواتین کیلئے بہت بولڈ پوشاک تھی۔ فلم ’آوارہ‘ ہندوستان کے ساتھ ہی بیرون ملکوں میں بھی مقبول ہوئی۔
۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۴ء کے درمیان نرگس کی فلمیں کچھ خاص کامیاب نہ ہو سکیں۔ ۱۹۵۲ء میں ریلیز نرگس کی فلموں میں ’شیشہ، بے وفا، آشیانہ، انہونی اورامبر‘ میں سے صرف ایک فلم ’انہونی‘ کو ہی مقبولیت اور شہرت مل سکی، جس کی ہدایت خواجہ احمد عباس نے دی تھیں۔ اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں نرگس کی چار فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئی، جن میں ’پہلی شادی، پاپی، دُھن اورآہ‘ کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے صرف ایک فلم ’آہ‘ ہی مقبول ہو سکی۔ ۱۹۵۵ء میں ہدایت کار راج کپور کی فلم’شری -۴۲۰‘ سے نرگس کے فلمی کریئر کو پھر سے زیادہ شہرت ملی اور یہ فلم ۱۹۵۵ء کی ایک بہترین ہٹ فلم ثابت ہوئی۔۱۹۵۷ء میں ہدایت کار محبوب خان کی مقبول ترین فلم ’مدر اِنڈیا‘ میں نرگس نے ایک یادگار کردار ادا کیا تھا، جس کیلئے انہیں فلم فیئر کا بہترین اداکارہ کا ایوارڈ پیش کیا گیا تھا۔ ۱۱؍ مارچ ۱۹۵۸ء کو اداکار سنیل دت سے شادی کرنے کے بعد نرگس نے فلموں میں کام کرنا بہت کم کر دیا تھا اور اپنی پوری توجہ صرف اپنے خاندان کی طرف لگا دی تھی۔اپنی بیشتر فلموں میں نرگس نے ایسی خواتین کے کردار پیش کئے جنہیں مثال بنایا جا سکتا تھا۔ وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں جنہوں نے اپنے کریئر کے عروج میں کئی طرح کے کردار ادا کئے۔ان میں خواہ ’آوارہ‘ اور’چوری چوری‘ کی شہری لڑکی کے کردار ہوں یا پھر ’شری - ۴۲۰‘ کی عام سی لڑکی ہو، یا پھر’مدر انڈیا‘ کی ایک گائوں کی روایتی خاتون۔ ہر کردار کو انہوں نے بہترین طریقے اور سلیقے سے پیش کیا۔ فلم ’برسات‘ کی کامیابی کے بعد، ایک منظر میں جب راج کپور ایک ہاتھ میں وائلن اور دوسرے ہاتھ میں نرگس کو تھامے ہوئے ہیں، اس منظر کو تو راج کپور نے اپنی پروڈکشن کمپنی ’آر کے فلمز‘ کا لوگو ہی بنا لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نرگس نے فلموں میں اپنی و ہ پہچان بنا لی تھی کہ انہیں ذہن میں رکھ کر فلمی کہانیاں لکھی جانے لگی تھیں۔
۲؍مئی ۱۹۸۱ء کو کوما میں چلی گئیں اور ایک دن بعد محض ۵۱؍برس کی عمر میں اُن کا انتقال ہو گیا۔۸؍مئی ۱۹۸۱ء کو ان کے بیٹے سنجے دت کی فلم ’راکی‘ ریلیز ہونے والی تھی۔ نرگس کے انتقال کے باوجود سنیل دت نے فلم کی ریلیز میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور فلم کے پریمیئر میں سنیل دت اور سنجے دت، دونوں ہی شریک ہوئے۔ نرگس کی خواہش تھی کہ یہ فلم خوب دھوم دھام سے ریلیز کی جائے۔پریمیر کے وقت نرگس کے اعزاز میں ایک نشست خالی چھوڑی گئی تھی۔
نرگس کے انتقال کے ایک سال بعد ہی سنیل دت نے نرگس کی یادگار کے طور پر ’نرگس دت میموریل کینسر فائونڈیشن‘ کی شروعات کی تھی۔۲۰۰۰ء میں ہیرو ہونڈا کی جانب سے نرگس کو ’صدی کی بہترین اداکارہ‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ نرگس آج نہیں ہیں لیکن ان کا فن زندہ ہے۔