Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

آسکر ۲۰۲۵ء: فلسطینی فلم ’’نو اَدر لینڈ‘‘ کو بہترین دستاویزی فلم کا ایوارڈ

Updated: March 03, 2025, 2:57 PM IST | Los Angeles

آسکر ۲۰۲۵ء میں فلسطینی فلم ’’نو اَدر لینڈ‘‘ کو بہترین دستاویزی فلم کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس فلم کو امریکہ میں کوئی بھی ڈسٹری بیوٹر نمائش کیلئے پیش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ فلم ایک فلسطینی شخص کی ہے جو اسرائیلی مظالم کا شکار ہے۔ ایوارڈ جیتنے کے بعد فلم کے ہدایتکار اور ان کے اسرائیلی صحافی دوست جذباتی ہوگئے۔

"No Other Land" Directors. Picture: INN
’’نو اَدر لینڈ‘‘ کے ہدایتکار۔ تصویر: آئی این این

’’نو اَدر لینڈ‘‘ (No Other Land) ایک ایسی فلم ہے جسے امریکہ میں ڈسٹری بیوٹرس نہیں مل رہے تھے، کوئی بھی اس دستاویزی فلم کو اسکرین نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اس نے آسکر ۲۰۲۵ء میں ’’بہترین دستاویزی فلم‘‘ کا انعام حاصل کیا ہے۔ اس فلم کے ہدایتکاروں میں سے ایک باسل عدرا نامی نوجوان فلسطینی شخص کی کہانی بیان کرتا ہے، جب وہ اسرائیلی آباد کاروں کے ہاتھوں مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنے آبائی شہر ’’مسافر یتہ‘‘ کی تباہی کو ریکارڈ کرتا ہے۔ یہ فلم عدرا کے خاندان اور ایک اسرائیلی صحافی، یوول ابراہم کے ساتھ اس کی ابھرتی ہوئی دوستی کی تصویر کے طور پر کام کرتی ہے، جو عدرا پر عائد پابندیوں اور امتیازی سلوک کو سمجھتا ہے۔ اعلان کے بعد جب تمام چار ہدایتکار اسٹیج کی طرف بڑھنے لگے تو ہال میں موجود سبھی افراد نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں۔

یہ بھی پڑھئے:آسکر ۲۰۲۵ء: فاتحین کی فہرست، ’’انورا‘‘ اور ’’دی بروٹالسٹ‘‘ کو اہم ایوارڈز

اس فلم نے فروری ۲۰۲۴ء میں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ناظرین کا ایوارڈ اور دستاویزی فلم کا ایوارڈ بھی جیتا تھا، نیز نیویارک فلم کریٹکس سرکل کا بہترین نان فکشن فلم کا ایوارڈ بھی اسے تفویض کیا گیا تھا۔ چونکہ کوئی بھی ڈسٹری بیوٹر اس فلم کی نمائش نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے فلم سازوں نے اسے نومبر میں لنکن سینٹر میں ایک ہفتے تک چلایا تاکہ اسے آسکر کیلئے کوالیفائی کیا جا سکے۔ ایوارڈ قبول کرتے وقت باسل عدرا جذباتی ہوگئے، کہا ’’تقریباً دو ماہ قبل میں باپ بنا ہوں۔ اور میری بیٹی سے میری امید ہے کہ اسے بھی وہی زندگی نہیں گزارنی پڑے جو میں گزار رہا ہوں، مَیں ہمیشہ غیر مقبوضہ آباد کاروں کے تشدد، گھروں کو مسمار کرنے اور زبردستی نقل مکانی سے خوفزدہ رہتا ہوں جسے میری کمیونٹی ’’مسافر یتا‘‘ روز جھیلتی ہے اور ہر روز اسرائیلی قبضے کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ فلم اس تلخ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی جسے ہم کئی دہائیوں سے برداشت کر رہے ہیں۔ ہم دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ناانصافی کو روکنے اور فلسطینی عوام کی نسل کشی کو روکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرے۔‘‘


اس موقع پر یوول ابراہم نے کہا کہ ’’ہم نے یہ فلم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کیلئے بنائی ہے کیونکہ ایک ساتھ ہماری آوازیں مضبوط ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں: غزہ اور اس کے لوگوں کی ظالمانہ تباہی جسے ختم ہونا چاہئے۔ اسرائیلی یرغمالوں کو آزاد کیا جانا چاہئے۔‘‘ انہوں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں وسیع تر خدشات کے باوجود اسرائیل کی امریکہ کی غیر متزلزل حمایت پر مختصر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اس ملک کی خارجہ پالیسی اس راستے کو روکنے میں مدد کر رہی ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھ سکتے کہ ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں کہ اگر باسل کے لوگ واقعی آزاد اور محفوظ ہیں تو کیا میرے لوگ واقعی محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ایک اور طریقہ ہے۔ جیئے اور جینے دیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK