اردو زبان و ادب اور فنون لطیفہ کی تاریخ میں شکیلہ بانو بھوپالی واحد خاتون ہیں جو بہ یک وقت اداکارہ ، شاعرہ اورگلوکارہ اور موسیقارہ رہی ہیں۔
EPAPER
Updated: December 16, 2024, 2:23 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
اردو زبان و ادب اور فنون لطیفہ کی تاریخ میں شکیلہ بانو بھوپالی واحد خاتون ہیں جو بہ یک وقت اداکارہ ، شاعرہ اورگلوکارہ اور موسیقارہ رہی ہیں۔
اردو زبان و ادب اور فنون لطیفہ کی تاریخ میں شکیلہ بانو بھوپالی واحد خاتون ہیں جو بہ یک وقت اداکارہ ، شاعرہ اورگلوکارہ اور موسیقارہ رہی ہیں۔ انھوں نےفلمی دنیا سے وابستگی کے بعد اور بالخصوص ہندوستان کی پہلی خاتون قوال کی حیثیت سے بہت شہرت پائی۔ شکیلہ بانو بھوپالی کا سنِ پیدائش ۱۹۴۲ءتھا۔ ان کی زندگی کا سفر ۱۶؍ دسمبر ۲۰۰۲ء تک جاری رہا۔
وہ شاعرہ بھی تھیں، اداکارہ بھی اور موسیقار بھی کہلائیں۔ انھوں نےفلمی موسیقی بھی ترتیب دی جب کہ فلموں کے لیے نغمات بھی تحریر کیے۔ ان کا تذکرہ اکثر ایسی خاتون کےطور پر ہوا ہے جو دولت اور شہرت سمیٹنےکاگُر جانتی تھی اور اسی لیے فلمی دنیا میں راستہ بنانے میں کامیاب رہیں۔انھیں کئی فلموں میں قوالیاں فلمانے کی وجہ سے قوالی کوئین بھی کہاجاتا ہے۔
شکیلہ بانو کے فنِ قوالی کا آغاز اس وقت ہوا جب ۱۹۵۶ءمیں بی آر چوپڑہ اپنی فلم ’نیا دور‘کی شوٹنگ کرنے اپنے یونٹ کے ساتھ بھوپال آئے۔ اس یونٹ میں دلیپ کمار، وجنتی مالا، جانی واکر، اجیت اور جیون بھی شامل تھے۔ ایک خصوصی محفل میں شکیلہ بانو کی قوالی کا اہتمام ہوا اور دلیپ کمار ان کی قوالی سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے شکیلہ بانو کو بمبئی آنے اور فلموں میں مقدر آزمانے کی دعوت دے دی۔
یہ بھی پڑھئے: فواد خان کے بارے میں ۱۰؍غیر معروف اور دلچسپ حقائق
دلیپ کمار جیسے اعلیٰ فن کار کی دعوت کو رد کرناکفرانِ نعمت کے مترادف تھا۔ قدرت نے کامیابی کے امکانات روشن کیے اور بمبئی نے اپنی دیرینہ روایات سے انہیں خوش آمدید کہا۔ بمبئی سے ان کے عروج کا جو دور شروع ہوا وہ عمرکے آخری لمحات تک جاری و ساری رہا۔ قوالی کی محفلوں سے بے تحاشہ دولت بھی ملی اور شہرت بھی۔فلم ساز ان کے مداح ہی نہیں ایک طرح سے معتقد بھی رہے۔ انہیں فلموں میں اداکاری کے مواقع بھی دیے گئے۔فلموں میں ان کی قوالیاں بھی انہی پر فلمائی گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ پس منظر گلوکاری منجھی ہوئی آوازوں میں ریکارڈ ہوئی۔ وہ اداکاری کے شعبے میں جاگیر، ٹارزن، بادشاہ اور راکا جیسی فلموں میں اداکاری کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔انہوں نےبطور موسیقار کچھ فلموں میں موسیقی بھی دی اور نغمے بھی لکھے۔ فلم میں ویمپ کا کردار بھی ادا کیا اور معاون اداکارہ کا بھی۔
چونکہ وہ بھوپال سے تعلق رکھتی تھیں اور بھوپال شہر ۱۹۸۴ء میں ہونے والے گیس سانحہ کیلئے بدنام ہے۔ ایسے میں وہ کیسے اس گیس سانحہ سے محفوظ رہ سکتی تھیں۔ ان کی جان ان کی آواز میں بستی تھی اور گیس سانحہ میں وہ اسی سے محروم ہوگئی تھیں۔ حالانکہ اس کے بعد بھی وہ زندہ رہیں لیکن اس کے بعد وہ لائم لائٹ سے دور رہنے لگی تھیں۔ ۲۰۰۲ء میں انہیں شدید دل کا دورہ پڑا اور انہیں ممبئی کے سینٹ جارج اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں ۱۶؍دسمبر کووہ انتقال کرگئیں۔