• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جذباتی اداکاری میں مینا کماری نے جو نام کمایا، وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا

Updated: June 30, 2024, 1:31 PM IST | Anees Amrohvi | Mumbai

وہ کبھی اسکول نہیں گئی تھیں مگر اُن کو اُردو ہندی اور انگریزی کی خاصی معلومات تھی، اُنہیں مطالعہ کا شوق بچپن ہی سے تھا اور شعرو شاعری بھی کرتی تھیں، یہی شوق کمال امروہی سے انکی قربت کا سبب بنا تھا۔

Meena Kumari, Queen of Emotions. Photo: INN
مینا کماری، جذبات کی ملکہ۔ تصویر : آئی این این

ہر آدمی بذات خود ایک افسانہ ہے جو عمر کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ بالکل اسی قسم کا ایک افسانہ شروع ہوا یکم اگست ۱۹۳۲ء کو ممبئی کے ایک سرکاری اسپتال میں ... اور پھر درمیان میں بہت ساری کہانیوں کے بعد اس افسانے کا آخری باب بھی ممبئی ہی کے ایک اسپتال میں انجام پایا...اور اس آخری باب کا آخری منظر ختم ہوا رحمت آباد، ممبئی کے قبرستان میں۔ یہ افسانہ شروع ہوا مہ جبیں کے نام سے اور درمیان میں یہ نام تبدیل ہوتا رہا۔ ہر منظر میں ایک نیا نام.... اور یہ نام تھے بے بی مینا، مینا کماری، نازؔ اور منجو وغیرہ۔ 
 مہ جبیں کے والد ماسٹر علی بخش مانے ہوئے ہارمونیم اُستاد اور موسیقار تھے۔ اُنہی ماسٹر علی بخش کی بیوی اِقبال بیگم ایک رَقاصہ تھیں۔ اِقبال بیگم نے۱۹۳۲ء میں پریل، ممبئی کے اسپتال میں مہ جبیں کو جنم دیا۔ مہ جبیں جب ماں کے پیٹ میں ہی تھی تو اِقبال بیگم کو یقین تھا کہ اِس بار لڑکا ہی ہوگا۔ اِس سے قبل اِقبال بیگم ایک لڑکی خورشید کو جنم دے چکی تھیں۔ جب مہ جبیں کی پیدائش ہوئی تو ماں کو بڑی کوفت ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کبھی مہ جبیں کو بھرپور پیار نہیں دیا۔ مہ جبیں کے بعد اِقبال بیگم نے پھر ایک لڑکی مدھو کو جنم دیا۔ یہیں سے مہ جبیں میں پیار کی پیاس پنپتی رہی۔ بچپن ہی میں اُس کی توجہ پھولوں اور پودوں کی طرف مبذول ہو گئی اور اُس کا زیادہ وقت اپنے مکان ’اِقبال منزل‘ کے آگے ایک چھوٹے سے باغیچے میں پھولوں اور کیاریوں کی دیکھ بھال کرنے اور کھیلنے کودنے میں گزرنے لگا۔ والدکویہ بات ناگوار گزری لہٰذا ایک دن اُنہوں نے مہ جبیں پر پابندی لگا دی۔ مہ جبیں کو اِس بات پر بہت غصہ آیا اور اُس نے چڑکر اپنے سامنے والے مکان پر پتھر پھینکنے شروع کر دئیے۔ پڑوسی نے علی بخش سے شکایت کی اور مہ جبیں کو سخت سزا دینے کی مانگ کی۔ مہ جبیں کے یہ پڑوسی ہندوستانی فلموں کے موسیقار اعظم نوشاد علی تھے۔ 
 اُن دنوں علی بخش بڑی تنگی میں گزر بسر کر رہے تھے۔ پرکاش پکچرس کی فلم ’لیدر فیس‘ (۱۹۳۹ء) وِجے بھٹ کی ہدایت میں بن رہی تھی۔ وِجے بھٹ کو ایک چھوٹی بچی کی ضرورت تھی۔ ایک دوست کے مشورے پر علی بخش مہ جبیں کو لے کر وِجے بھٹ سے ملے۔ اُس وقت مہ جبیں کی عمر چار سال تھی۔ وِجے بھٹ نے مہ جبیں کو بے بی مینا نام دے کر اِس فلم کیلئے پسند کر لیا۔ فلم کے پہلے ہی شاٹ میں بے بی مینا نے کیمرے کے سامنے بڑی آسانی سے قدرتی انداز میں شاٹ دیا۔ وِجے بھٹ نے خوش ہوکر بے بی مینا کو اِنعام میں پچیس روپے دئیے۔ اِتنے روپے اِنعام میں پاکر علی بخش خوشی خوشی بچی مینا کو گود میں اُٹھائے گھر پہنچے۔ بچی نے سوچا کہ آج ماں سے بھی پیار ملے گا، لیکن جیسے ہی بچی کو باپ کی گود میں دیکھا، ماں اِقبال بیگم غصے سے بپھر گئی۔ کہا ’’نیچے اُتر کمبخت! اِتنی بڑی ہو گئی اور گود میں چڑھی ہوئی ہے۔ ‘‘ بچی کی خوشی کا پھول کمھلا گیا۔ یہ ایک بہت بڑا کلائمکس تھا مہ جبیں کی زندگی کے افسانے کا۔ ’لیدر فیس‘ کے بعد ۱۹۴۰ء میں ’ایک ہی بھول‘، ۱۹۴۱ء میں ’بہن، کسوٹی، نئی روشنی‘، ۱۹۴۲ء میں ’غریب‘، ۱۹۴۳ء میں ’پرتگیہ‘ اور ۱۹۴۴ء میں ’لال حویلی‘ جیسی فلموں میں بے بی مینا نے بطور چائلڈ آرٹسٹ کافی مقبولیت حاصل کر لی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’میں دنیا سے جاؤں تو میرا کام لوگوں کو یاد رہے، میں یہ سوچ کر کام کرتاہوں‘‘

بے بی مینا نے بچپن کی دہلیز چھوڑکر جب جوانی کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا تو ہیروئن کے روپ میں جاگیردار اور الطاف کے ساتھ اُن کی ایک فلم شروع ہوئی ’داداجی‘ مگر ایک حادثے میں اُس فلم کے تمام نگییٹِو جل کر خاک ہو گئے اور اس طرح ان کی بطور ہیروئن پہلی فلم پردے کی زینت بننے سے محروم رہ گئی۔ اِس سے قبل ’بچوں کا کھیل‘ (۱۹۴۶ء)، ’پیا گھر آجا‘ (۱۹۴۷ء)، ’شری گنیش مہیما‘ (۱۹۵۰)، ’ہنومان پاتال وِجئے‘ (۱۹۵۱ء)، ’لکشمی نارائن‘ (۱۹۵۱ء) اور ’الٰہ دین اینڈ دی ونڈر فل لیمپ‘ (۱۹۵۲ء) میں بھی وہ کام کر چکی تھی۔ فلم ’بچوں کا کھیل‘ کے ہیرو تھے مشہور مزاحیہ اداکار آغا اور بے بی مینا اَب میناکماری کے نام سے پہچانی جانے لگی تھی۔ ۱۹۵۲ء میں ہی میناکماری فلم ’مدہوش‘ میں پہلی بار ہیروئن بن کر پردۂ سمیں پر جلوہ گر ہوئیں۔ موہن دیسائی اس فلم کے ہیرو تھے اور جے بی ایچ واڈیا کی ہدایت میں یہ فلم تیار ہوئی تھی۔ فلم ’مدہوش‘ کے فوراً بعد ہی مینا کماری کی فلم’بیجو باورا‘ (۱۹۵۲ء) نمائش کیلئے پیش ہوئی۔ اِس فلم کے ہدایتکار ’لیدر فیس‘ والے وِجے بھٹ ہی تھے اور ہیرو بھارت بھوشن تھے۔ یہ فلم میناکماری کیلئے میل کا پتھر ثابت ہوئی کیونکہ اِس سے قبل وہ کاسٹیوم ڈراموں اورمذہبی قسم کی فلموں میں ہی کام کرتی رہی تھیں۔ فلم ’بیجو باورا‘ نے میناکماری کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اُس میں بہت سی تبدیلیاں آگئی تھیں۔ ۱۹۵۴ء میں جب فلم فیئر ایوارڈ قائم کیا گیا تو اِسی فلم ’بیجو باورا‘ کیلئے میناکماری کو بہترین اداکاری کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس فلم کے موسیقار بھی وہی نوشاد علی تھے جن کے گھر پر بچپن میں میناکماری نے پتھر برسائے تھے۔ 
 میناکماری کبھی اسکول نہیں گئی تھیں مگر اُن کو اُردو ہندی اور انگریزی کی خاصی معلومات تھی۔ اُنہیں مطالعہ کا بڑا شوق تھا اور شعرو شاعری بھی کرتی تھیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مشہور ہدایت کار کمال امروہوی ان کے کافی متاثر تھے۔ اُن دنوں کمال امروہی کی ہدایت میں بنی فلم ’محل‘ کامیاب ہو چکی تھی۔ کمال امروہی بذات خود اچھے ادیب اور شاعر تھے لیکن یہ ضروری نہیں کہ میناکماری، کمال امروہی کی شاعری سے متاثر ہوکر ہی ان کی طرف راغب ہوئی ہوں جیسا کہ اکثر لوگ کہتے ہیں۔ ’محل‘ کی کامیابی کے بعد اشوک کمار اور کمال امروہی میں بڑی قربت ہو گئی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے ’فلم کار‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر لیا تھا۔ اس ادارے کی پہلی فلم ’انارکلی‘ کی کہانی اور اسکرین پلے کمال امروہی تحریر کر رہے تھے۔ ’انارکلی‘ کے مرکزی کردار کیلئے میناکماری کو کہانی سنانے اور اُس کا کردار سمجھانے کیلئے کمال امروہی دوسری بار اُن کے گھر گئے تھے۔ پہلی بار کمال امروہی سہراب مودی کے کہنے پر اُن کے گھر تب گئے تھے، جب وہ سات یا آٹھ برس کی بچی تھیں اور فلم ’جیلر‘ میں ایک چائلڈ رول کیلئے ان کا انتخاب کرنا تھا۔ بقول کمال امروہی:
 ’’میناکماری اُس وقت دادر میں اپنے والد کے مکان کے آگے بنے ہوئے چھوٹے سے باغیچے میں کھیل رہی تھی۔ ماسٹر علی بخش نے جب بے بی مینا کو آواز دی تو وہ کیلا کھاتے ہوئے ایسے ہی میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی تھی۔ اس کے پیر مٹی سے گندے ہو رہے تھے اور منہ پر کیلا کھانے کے نشان لگے ہوئے تھے۔ بعد میں ماسٹر علی بخش کے کہنے پر وہ گھر کے اندر گئی اور چہرہ وغیرہ صاف کرکے آئی۔ اس وقت ۸۔ ۷؍ برس کی مینا کو دیکھ کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ آنے والے وقت کی یہ ایک کامیاب ترین اداکارہ بنے گی۔ حالانکہ ’جیلر‘ میں بے بی مینا کو نہیں لیا گیا مگر میں جب بھی ڈبل ڈیکر بس کی اوپری منزل پر بیٹھ کر ملاڈ سے دادر ہوتا ہوا گزرتا تھا تو میری آنکھیں خود بخود اُس مکان کی پہلی منزل کی طرف اُٹھ جاتی تھیں جہاں مینا رہتی تھی۔ میری یہ بات آنے والے وقت نے ثابت کر دی تھی کیونکہ بعد میں مینا کماری جیسی جذباتی اداکاری کرنے والی کوئی دوسری اداکارہ نہ تھی۔ ‘
 اُن دنوں فلم ’انارکلی‘ کی تیاریاں زورو شور سے شروع ہو چکی تھیں۔ ایک دن میناکماری کسی فلم کی شوٹنگ سے فارغ ہوکر پونے سے بمبئی واپس جارہی تھیں کہ راستے میں کار کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میناکماری اس حادثے میں زخمی ہو گئیں تو ان کو پونے کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اُن کا بایاں ہاتھ بُری طرح کچل گیا تھا، اسلئے ڈاکٹروں نے ان کے بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی اُنگلی کاٹ دی۔ ابھی میناکماری اسپتال ہی میں تھیں کہ ایک دن کمال امروہی دل میں ’انارکلی‘ کا خواب، ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ اور میناکماری کی زندگی کا سب سے بڑا کلائمکس لئے اُن کے کمرے میں داخل ہوئے۔ اُن کی خیریت پوچھی اور ڈھارس بندھائی۔ میناکماری اُس وقت تک کئی اسٹنٹ فلموں میں کام کر چکی تھیں لہٰذا اس حادثے کی وجہ سے وہ بہت مایوس ہو چکی تھیں۔ ایسے میں سوشل فلموں میں ایک بہترین اداکارہ بننے کا خواب کمال امروہی اُن کی آنکھوں میں بسا چکے تھے۔ کمال امروہی کی تسلی سے پہلی بار میناکماری کو اپنے پن کا احساس ملا اور ان کا حوصلہ بحال ہوا۔ کمال امروہی برابر وہاں جاتے رہے اور گھنٹوں میناکماری کے سرہانے بیٹھے رہتے۔ یہیں سے میناکماری اور کمال امروہی ایک دوسرے کے قریب آئے۔ لوگوں کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ کمال امروہوی نے میناکماری سے ان کی شہرت اور دولت دیکھ کر شادی کی تھی بلکہ دیکھا جائے تو اس وقت مینا کماری دیومالائی اور دھارمک قسم کی ماردھاڑ والی فلموں میں کام کیا کرتی تھیں جبکہ کمال امروہی اپنی پہلی ہی فلم ’جیلر‘ اور پھر’پُکار‘ کے ذریعہ ایک کامیاب ادیب کے طور پر اپنے آپ کو انڈسٹری میں منوا چکے تھے اور پھر ایک کامیاب ہدایتکار کے طور پر ان کی فلم ’محل‘ بھی مقبول ہو چکی تھی لہٰذا شہرت اور دولت کے معاملے میں کمال امروہوی کا ہی پلڑا بھاری تھا۔ 
 میناکماری کے حادثے کی خبر جب ممبئی پہنچی تو ان فلمسازوں نے دوسری اداکارائیں تلاش کرنی شروع کر دیں جن کی فلموں میں وہ کام کر رہی تھیں۔ ان کی مقبولیت کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا کیونکہ ’بیجو باورا‘ اور’پرنیتا‘ ابھی ریلیز نہیں ہوئی تھیں۔ ایسے میں کمال امروہوی نے جس ’انارکلی‘ کیلئے انہیں سائن کرایا تھا، اس کے بھی ہاتھ سے نکل جانے کا خطرہ سامنے تھا۔ میناکماری گھبرائی ہوئی اور ذہنی طور پر بہت پریشان تھیں۔ ایسے میں کمال امروہی نے انہیں حوصلہ دیا اور اسپتال کے بستر پر پڑی ہوئی مایوس میناکماری کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔ جیب سے ایک کامیاب ادیب نے قلم نکالا اور میناکماری کی ہتھیلی پر لکھا ’’تم ہی میری انارکلی ہو۔ ‘‘ اس جملے کے نیچے کمال امروہی نے اپنے دستخط کر دئیے۔ یہ ایک چھوٹا سا جملہ میناکماری اور کمال امروہی کی زندگی کی تاریخ بن گیا۔ وہ میناکماری جو آج تک کمال امروہوی کی شاعری سے متاثر تھیں، ان کی عزت کرتی تھیں، اس جملے نے میناکماری کے دل میں کمال امروہی کیلئے اپنے پن کو جنم دیا۔ پیار کی ننھی کونپل کو جنم دیا اور بعد میں یہی اپنا پن اور اسی کونپل نے پیار کے ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لی۔ 

پاکیزہ فلم کی تیاریوں کے دوران مینا کماری بہت بیمار تھیں، شوٹنگ کے دوران کئی بار وہ بیہوش ہوکر بھی گری تھیں مگر انہوں نے اپنے اوراپنے شوہر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر ہی دیا۔
میناکماری اور کمال امروہی میں جب قربت زیادہ بڑھی تو مینا کے والد علی بخش کو اعتراض ہوا اور انہوں نے اس معاشقے کی سخت مخالفت کی۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اس طرح یہ سونے کی چڑیا اُن کے پنجرے سے اُڑ جائے گی۔ مینا چھپ چھپ کر کمال سے ملتی رہیں اور آخرکار ۱۵؍فروری ۱۹۵۲ء کو دونوں سے شادی کر لی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کمال کی پہلی بیوی آل زہرا محمودی اور تین بچے اُن کے آبائی وطن امروہہ میں ہیں، میناکماری نے اپنے ہتھیلی پر کئے گئے کمال امروہی کے وعدے کو نبھا دیا اور انارکلی کے بجائے منجو بن گئیں۔ کمال اِسی نام سے انہیں پکارتے تھے۔ مینا نے شادی کی بات کو راز میں رکھا تھا اور اپنے والد کے گھر ہی رہ رہی تھیں۔ 
 اسی دوران ان کی فلم ’بیجو باورا ‘ ہٹ ہوگئی اور مینا کماری شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ ایسے میں انہیں لگا کہ شادی میں انہوں نے جلد بازی کردی ہے۔ ایسے میں ایک دن مینا کماری نے کمال امروہی کے سامنے طلاق کی خواہش کا اظہار کیا۔ اُس وقت کمال نے ایک کاغذ پر انہیں لکھ کر دے دیا کہ ’’تم جب چاہوگی، قاضی کے سامنے میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ ‘‘ یہ کاغذ کا ٹکڑا مینا کماری نے اپنے پاس رکھ لیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔ اس شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا کہ ۱۴؍ فروری ۱۹۵۳ء کو میناکماری نے کمال امروہی کو فون کیا اور کہا کہ اب طلاق کا خیال انہوں نے دل سے نکال دیا ہے اور وہ پرچی بھی پھاڑ کر پھینک دی ہے۔ 
 فلم ’بیجو باورا‘ کی کامیابی کے ساتھ ہی میناکماری کے گھر میں پیسوں کی برسات ہونے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے والد علی بخش نے عیاشی شروع کر دی۔ کہتے ہیں کہ میناکماری کی ایک ملازمہ فردوس سے اُنہوں نے شادی بھی کر لی تھی۔ میناکماری کیلئے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا لہٰذا اُنہوں نے کمال امروہی کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے بعد دونوں ۱۲؍سال تک ساتھ رہے۔ 
  ۱۹۵۳ء میں کمال نے اپنا ذاتی ادارہ ’محل پکچرس پرائیویٹ لمیٹڈ‘ قائم کیا اور اس ادارے کی پہلی فلم ’دائرہ‘ شروع کی۔ ’دائرہ‘ میں میناکماری نے ایک یادگار کردار ادا کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر بھلے ہی ناکام رہی مگر اس وقت کے فلمی نقادوں نے فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ فلم کمال امروہی نے اپنے وقت سے تیس سال پہلے ہی بنا دی ہے۔ ایک طرح سے ’دائرہ‘ ہندوستانی فلمی تاریخ کی پہلی آرٹ فلم تھی۔ ۱۹۵۴ء میں جب فلم فیئر ایوارڈ شروع کئے گئے تو میناکماری کو بہترین اداکارہ کا پہلا ایوارڈ فلم ’بیجو باورا‘ کیلئے دیا گیا اور اگلے ہی سال فلم ’پرنیتا‘ کیلئے انہیں پھر بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ۱۹۶۲ء میں ریلیز ہوئی فلم ’صاحب، بیوی اور غلام‘ کیلئے پھر مینا کماری کو فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس کے بعد ۱۹۶۷ء کی فلم ’پھول اور پتھر‘ کیلئے بھی میناکماری کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 
 ’دائرہ‘ کی ناکامی کے بعد کمال امروہی نے فلم ’دل اپنا پریت پرائی‘ کی کہانی تحریر کی اور کشور ساہو کو اس فلم کی ہدایت سونپی۔ پروڈیوسر خود کمال امروہی تھے اور ہیروئن مینا کماری تھیں۔ یہ فلم ۱۹۶۰ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی اور کامیاب رہی۔ اس فلم کی کامیابی سے متاثر ہوکر ۱۹۶۰ء میں ہی کمال امروہی نے فلم ’پاکیزہ‘ شروع کی۔ مینا کماری اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ یہ فلم میناکماری اور کمال امروہی کا ایک حسین خواب تھا۔ مینا کماری کو اس فلم سے ایک خاص لگائو تھا مگر اس فلم کے ساتھ کئی حادثے ہوئے۔ ایک بار مدھیہ پردیش میں لوکیشن تلاش کرتے ہوئے میناکماری اور کمال امروہی کو ڈاکوئوں نے پکڑ لیا تھا۔ ڈاکو جب ان دونوں کو اپنے سردار کے پاس لے گئے اور ان کو پتہ چلا کہ وہ ایک مشہور اداکارہ میناکماری کو پکڑ لائے ہیں تو ان کے سردار نے میناکماری اور کمال امروہی کی بہت مہمان نوازی کی اور پھر ان دونوں کو بحفاظت تمام شہر واپس پہنچا دیا۔ ایک بار اسٹوڈیو میں زبردست آگ لگ گئی اور سارا کاسٹیوم جل کر خاک ہو گیا۔ ایک بار ان کا ملازم گھر کی تجوری توڑکر رقم اور زیورات لے کر فرار ہو گیا۔ ایک بار ایک ندی میں شوٹنگ کے دوران ہاتھیوں نے بہت اودھم مچا دیا۔ 
 فلم ’پاکیزہ‘ کے دوران ہی مینا کماری دوسری فلموں میں بھی بہت مصروف تھیں۔ وہ ایک بہت نرم دل اور حساس آرٹسٹ تھیں اور ہر کسی کیلئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ کمال امروہی نے اپنے سیکریٹری باقر علی کو مقرر کیا کہ میناکماری کے میک اپ روم میں کسی کو داخلے کی اجازت نہ دی جائے۔ باقر علی ہر دم ان کی نگرانی رکھنے لگے۔ 
 ایک بار کا ذکر ہے کہ مینا کماری کی کسی فلم کا پریمیئر تھا اور منروا مووی ٹون کے فلمساز وہدایتکار اور اداکار سہراب مودی نے مہاراشٹر کے گورنر سے میناکماری کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فلمی دنیا کی عظیم اور مقبول اداکارہ میناکماری ہیں، اور یہ ان کے شوہر کمال امروہی۔ اس تعارف پر کمال امروہوی کی انا کو بہت ٹھیس پہنچی اور انہوں نے فوراً کہا ’’جی نہیں، میں کمال امروہی ہوں اور یہ میری بیوی مشہور اداکارہ میناکماری ہیں۔ ‘‘ دونوں کی خودداری کے ٹکرائو کا یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا۔ 
 اُنہی دنوں میناکماری کی زندگی کا ایک بڑا کلائمکس نمودار ہوا۔ شاعر، فلمساز وہدایتکار گلزار نئے نئے دہلی سے بمبئی فلمی دنیا میں قسمت آزمائی منتقل ہوئے تھے۔ ہدایتکار بمل رائے کے اسسٹنٹ ہونے کے بعد وہ کسی فلم کیلئے بات کرنے ۴؍ مارچ ۱۹۶۴ء کے دن فلم ’پنجرے کے پنچھی‘ کے سیٹ پر فلمستان اسٹوڈیو پہنچے اور میناکماری کو میک اپ روم میں ہی اپنی شاعری سنانے لگے۔ میناکماری خود بھی شاعری کرتی تھیں اور نازؔ تخلص رکھتی تھیں۔ گلزار کی شاعری سے میناکماری متاثر تھیں اور گلزار کو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کیلئے ایک مضبوط سہارے کی تلاش بھی تھی جو انہیں میناکماری کے روپ میں مل گیا تھا۔ میناکماری کے میک اپ روم میں گلزار کی موجودگی باقر علی کو بہت ناگوار ہوئی۔ انہوں نے میناکماری سے کہا کہ اس شخص کو میک اپ روم سے باہر نکالو، صاحب کا حکم ہے۔ میناکماری نے اس حکم کو اپنی توہین سمجھا اور باقرعلی سے جھگڑا کر بیٹھیں۔ باقرعلی کمال امروہی کے منہ چڑھے سیکریٹری تھے، لہٰذا بات بڑھنے پر میناکماری کو ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ وہ فوراً وہاں سے روتی ہوئی اپنی بہن مدھو اور بہنوئی مزاحیہ اداکار محمود کے گھر چلی گئیں اور پھر کبھی واپس اپنے چندن (کمال امروہی) کے گھر نہ آئیں۔ 
 اُسی رات کمال امروہی محمود کے گھر مینا کماری سے ملاقات کیلئے گئے اور مینا کماری کو سمجھایا کہ ’’منجو، تم گھر چلو، تمہارا مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اگر میں اُسی وقت اسٹوڈیو جاتا اور اس معاملے میں بولتا تو بات اور زیادہ بڑھ جاتی اور قومی پریس میں تمہاری بڑی بدنامی ہوتی اور اس طرح تمہاری امیج خراب ہوتی۔ ‘‘ مگر مینا کماری گھر جانے کو راضی نہیں ہوئیں۔ تب کمال امروہی نے واپس جاتے ہوئے پھر کہا کہ ’’میرے گھر کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ کھلے ہیں، جب تم چاہو، چلی آنا۔ ‘‘کمال چاہتے تھے کہ مینا خود گھر چھوڑ کر گئی ہیں، لہٰذا اُن کو خود ہی واپس آجانا چاہئے جبکہ میناکماری سوچتی تھیں کہ کمال آئیں اور اپنے سکریٹری کی حرکت پر معافی مانگیں، تب وہ ان کے گھر جائیں گی۔ خودداری دونوں کے درمیان دیوار بن گئی اور ’پاکیزہ‘ ڈبوں میں بند ہو گئی۔ میناکماری کا ایک حسین خواب ادھورا رہ گیا۔ کافی عرصہ بعد ایک پارٹی میں جب مینا کماری کی ملاقات کمال امروہی سے ہوئی تو مینا نے پوچھا۔ ’’پاکیزہ کا کیا حال ہے؟‘‘ کمال نے جواب دیا کہ ’’جب تم آئوگی، پاکیزہ بھی مکمل ہو جائے گی۔ ‘‘
 اِسی دوران سنیل دت اور نرگس نے کمال امروہی سے درخواست کی کہ وہ ’پاکیزہ‘ کو ضرور مکمل کرائیں اورپھر ۱۹۷۰ء میں سنیل دت اور نرگس کی ہی کوششوں سے دونوں میں صلح ہوئی اور فلم’پاکیزہ‘ کا کام شروع ہو گیا۔ دو سال کی محنت کے بعدفلم مکمل ہوئی۔ حالانکہ اس وقت ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ مئے نوشی کی کثرت نے ان کے جگر کو خراب کر دیا تھا۔ شوٹنگ کے دوران کئی بار وہ بیہوش ہوکر گری تھیں مگر انہوں نے اپنے اور اپنے شوہر کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کر ہی دیا۔ اس وقت بھی میناکماری ایک فلیٹ کرایہ پر لے کر اکیلی ہی رہ رہی تھیں۔ وہ کمال امروہی کے گھر نہیں آئی تھیں۔ ان سے علاحدگی اور بعد میں مختلف لوگوں کے ساتھ میناکماری کا نام وابستہ ہونے سے وہ فرسٹریشن کا شکار ہو گئی تھیں، اسلئے شراب پینے لگی تھیں، نتیجتاً مختلف بیماریوں نے انہیں جکڑ لیاتھا۔ 
  فلم ریلیز ہوئی تو پہلے ہفتے کچھ خاص نہیں چلیمگر اس کی موسیقی اور گیت لوگوں نے پسند کئے تھے۔ دراصل اس زمانے میں ماردھاڑ اور ایکشن والی فلموں نے فلم شائقین کے مزاج کو یکسر بدل دیا تھاجبکہ ’پاکیزہ‘ ایک صاف ستھری فلم تھی۔ لیکن دوسرے ہفتے میں لوگوں نے اس فلم کو پسند کرنا شروع کر دیا تھا۔ تیسرے ہفتے میں فلم نے رش لینا شروع کر دیا تھا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلم’پاکیزہ‘ میناکماری کی موت کی وجہ سے کامیاب ہوئی، وہ غلطی کرتے ہیں کیونکہ میناکماری کا انتقال ۳۱؍مارچ ۱۹۷۲ء کو ’پاکیزہ‘ کی نمائش کے ٹھیک ۴۶؍ دن بعد ہوا تھا۔ اس وقت یہ فلم ہندوستان میں ہر جگہ ہائوس فل جا رہی تھی۔ فلم کے سبھی گانے ہٹ ہو چکے تھے، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مینا کماری کے انتقال کے بعد فلم کو انٹرنیشنل شہرت ملی اور لوگوں نے اس فلم کو کئی کئی بار دیکھا.... بلاشبہ مینا کماری کی اداکاری کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK