عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت میں کشور کمار کی آواز کا اہم کردار تھا بلکہ کشور کمار کو راجیش کھنہ کی آواز کہا جاتا تھا۔
EPAPER
Updated: December 24, 2024, 3:22 PM IST | Nadir | Mumbai
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت میں کشور کمار کی آواز کا اہم کردار تھا بلکہ کشور کمار کو راجیش کھنہ کی آواز کہا جاتا تھا۔
عام طور پر یہ بات مشہور ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت میں کشور کمار کی آواز کا اہم کردار تھا بلکہ کشور کمار کو راجیش کھنہ کی آواز کہا جاتا تھا۔ ایسا شاید اسلئے کہا جاتا ہو کہ راجیش کھنہ کیلئےکشور کمار نے سب سے زیادہ گانے گائے ہیں لیکن اگر آپ راجیش کھنہ پر فلمائے گئے نغموں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حیران کن حقیقت آپ کے سامنے آتی ہے کہ راجیش کھنہ کے وہ نغمے جنہیں ’سدا بہار‘ کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے وہ محمد رفیع کے گائے ہوئے ہیں۔ راجیش کھنہ کی شبیہ ایک رومانوی ہیرو کی تھی اور ان کے جتنے رومانوی نغمے ہیں وہ محمد رفیع کی آواز میں ہیں۔ فلم آرادھنا(۱۹۶۹ء) راجیش کھنہ کی پہلی سپرہٹ فلم تھی جس میں کشور کمار کے گائے ہوئے ۲؍ گیت’ میرے سپنوں کی رانی کب آئے گی تو‘ اور ’روپ تیرا مستانہ خوب مقبول ہوئے تھے‘ اور یہیں سے راجیش کھنہ اور کشور کمار (بطور گلوکار) کا کریئر پروان چڑھا تھا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہو گئے ورنہ راجیش کھنہ کی زندگی کا پہلا سپر ہٹ گیت ’’ اکیلے ہیں چلے آئو کہاں ہو‘‘ محمد رفیع کی آواز میں تھا جو آرادھنا سے ایک سال پہلے ریلیز ہو چکی فلم ’ راز ‘ میں فلمایا گیا تھا۔ یہ نغمہ آج بھی مقبولیت اور گلوکاری دونوں ہی معاملوں میں سدا بہار کی حیثیت رکھتا ہے۔
آرادھنا کی مقبولیت کے بعد راجیش کھنہ کی فلموں کی قطار لگ گئی جو ایک کے بعد ایک ہٹ ہوتی چلی گئیں۔ چونکہ راجیش کھنہ مبینہ طور پر فلم سائن کرتے وقت یہ شرط رکھا کرتے تھے کہ ان پر فلمائے جانے والے گانے کشور کمار گائیں گے اس لئے کشور کمار کے نغموں کی بھی قطار لگنا لازمی تھی۔ لیکن اگر آپ غور کریں تو ان سپر ہٹ فلموں میں جو گانے سب سے زیادہ مقبول ہوئے وہ محمد رفیع ہی کے آواز میں تھے۔ آرادھنا کے فوراً بعد فلم آئی تھی ’دو راستے‘ جس میں حالانکہ کشور کمار کا بھی ایک بہت عمدہ گیت تھا ’’میرے نصیب میں اے دوست، تیرا پیار نہیں۔ ‘‘ لیکن اس فلم کا جو سب سے مقبول نغمہ تھا وہ آج بھی محمد رفیع کی گلوکاری کی داد طلب کرتا ہے ’’ یہ ریشمی زلفیں، یہ شربتی آنکھیں ‘ اسی فلم میں لتا منگیشکر کے ساتھ گایا ہوا رفیع صاحب کا گیت ’’ تونے کاجل لگایا دن میں رات ہو گئی ‘‘ بھی بے پنا مقبول ہوا تھا۔ راجیش کھنہ کی ایک مشہور فلم ہے ’دی ٹرین‘ جس کا گیت ’گلابی آنکھیں جو تیری دیکھیں ، شرابی یہ دل ہو گیا‘ خوب مقبول ہوا تھا۔ جب تک دنیا میں رومان، شوخی اور شرارت باقی ہے، یہ نغمہ یاد کیا جاتا رہےگا۔ یہ گانا محمد رفیع کے بہترین نغموں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ اور راجیش کھنہ کے نغموں میں بھی۔
یہ بھی پڑھئے:رفیع صاحب نے جس کو اپنی آواز دی، وہ آواز اس کی پہچان بن گئی
’سدا بہار‘ ان نغموں کو کہا جاتا ہے جو ہر زمانے میں ، ہر طبقے میں اور ہر محفل میں یکساں طور پر مقبول ہوں۔ راجیش کھنہ کی ایک فلم آئی تھی’ سچا جھوٹا ‘ اس کا ایک گانا بے حد مشہور ہے ’ میری پیاری بہنیا بنے گی دلہنیا‘ جو کشور کمار نے گایا تھا۔ اسی کے ساتھ کشور کمار کا ایک اور نغمہ اس فلم کا ہٹ ہوا تھا ’’ دل کو دیکھو چہرہ نہ دیکھو‘ اس فلم میں محمد رفیع کا صرف ایک ہی گانا تھا ’’ یوں ہی تم مجھ سے بات کرتی ہو، یا کوئی پیار کا ارادہ ہے۔ ‘‘ نغموں کے شوقین بلاجھجھک بتائیں گے کہ ان تینوں میں سے سدا بہار نغمہ کسے کہا جائے گا۔ ’ یوں ہی تم مجھ سے بات کرتی ہو‘ رومانی نغموں کی فہرست میں آج بھی سب سے اوپر رہتا ہے۔ یہی حال راجیش کھنہ کی اگلی فلم ’ آن ملو سجنا‘ کا بھی ہے۔ اس میں کشور کمار کی آواز میں ۲؍ نغمے تھے ’’اچھا تو ہم چلتے ہیں ‘ اور ’’جوانی او دیوانی تو زندہ باد‘ جبکہ رفیع صاحب نے بھی اس میں ۲؍ ہی گیت گائے تھے ایک ’’ کوئی نذرانہ لے کر آیا ہوں ‘ اور ’’ آن ملو سجنا، آن ملو‘ اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ ان میں سے کون سے دو گیت سدا بہار کے زمرے میں رکھے جا سکتے ہیں۔
’ ہٹس آف محمد رفیع ‘ کے نام سے جاری ہونے والا شاید ہی کوئی ایسا البم ہوجس میں رفیع صاحب کا گایا ہوا ’ یہ جو چلمن ہے، دشمن ہے ہماری‘ شامل نہ ہو۔ یہ گیت محمد رفیع کے بہترین اور مقبول ترین گیتوں کی فہرست میں ہمیشہ شامل رہا ہے۔ ریڈیو ہو، شادی بیاہ پر بجائے جانےوالے ریکارڈ ہوں یا دوستوں کی محفل میں نغمہ سرائی کا موقع ہو، یہ گیت ضرور گایا یا بجایا جاتا ہے۔ اور پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ راجیش کھنہ کے نغموں میں اس سے زیادہ مقبول اور کوئی نغمہ نہیں ہے۔ یہ گانا ہے فلم ’محبوب کی مہندی‘ کا ہےجس میں دوسرا سب سے مقبول گیت تھا ’’ اتنا تو یاد ہے مجھے کہ تم سے ملاقات ہوئی۔ ‘‘ جسے محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے گایا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:۱۰۰؍ سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا، آج بھی ہے اور کل بھی رہےگا
راجیش کھنہ کی سب سے زیادہ چلنے والی فلموں میں سے ایک ہے ’ہاتھی میرے ساتھی‘ جس نے انہیں اسٹار سے سپر اسٹار بنایا تھا۔ اس فلم میں کشور کمار کے ۲؍ ہٹ گانے ہیں ، ’’ چل چل چل میرے ہاتھی‘ اور ’دنیا میں جینا ہے تو کام کر پیارے‘ جبکہ پوری فلم میں محمد رفیع کا صرف ایک گیت ہے وہ بھی ان سے اس لئے گوایا گیا تھا کہ کشور کمار اس گیت کو ( ہائی پچ ہونے کی وجہ سے) گا نہیں پائے تھے۔ اس گیت نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ’نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر پیار کی دنیا میں خوش رہنا میرے یار‘، یاد رہے کہ راجیش کھنہ کے عروج کا زمانہ ۱۹۶۹ء تا ۱۹۷۲ء سمجھا جاتا ہے۔ اس زمانے میں انہوں نے جتنی فلمیں کی ہیں بیشتر میں محمد رفیع کے نغمے شامل رہے ہیں۔ اور وہی سب سے زیادہ ہٹ رہے ہیں۔ خود آرادھنا فلم میں شامل ’’ گنگنا رہے ہیں بھنورے، کھل رہی ہے کلی کلی‘ ‘ اور ’’ باغوں میں بہار ہے ‘‘ بھلائے نہیں بھولتے۔ عجیب بات ہے کہ راجیش کھنہ کی فلموں سے رفیع صاحب کا نام ۱۹۷۴ء کے بعد سے غائب ہونا شروع ہوتا ہے اور یہیں سے راجیش کھنہ کی چمک کم ہونا شروع ہوتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کشور کمار کی آواز میں راجیش کھنہ کیلئے گایا ہوا کوئی سدا بہار نغمہ نہ ہو، ان کا گایا ہوا ’ او میرے دل کے چین، ‘ آج بھی جواں دلوں کی پہلی پسند ہے۔ اس کے علاوہ ’ وہ شام کچھ عجیب تھی، یہ شام بھی عجیب ہے‘، پھر ’ خزاں کے پھول میں آتی کبھی بہار نہیں، ‘ ساتھ ہی ’زندگی کا سفر، ہے یہ کیسا سفر، ‘ اور ’ میں شاعر برباد‘ جیسے نغمے انہوں نے گائے ہیں لیکن جیسا کہ اوپر کہا گیا کہ راجیش کھنہ کی شبیہ ایک رومانوی ہیرو کی تھی اور کشور کمار کی آواز میں ’ او میرے دل کے چین اور میرے دل میں آج کیا ہے‘ جیسے چنندہ نغموں کو چھوڑ دیا جائے تو بہت کم ایسے گانے ہیں جو راجیش کھنہ کی رومانیت کو یاد دلاتے ہیں۔ کشور کمار کی آواز میں راجیش کھنہ پر فلمائے گئے رومانوی نغموں کے نام پر ہمیں ’ پریم کہانی میں، ایک لڑکا ہوتا ہے۔ ‘’کروٹیں بدلتے رہے، ساری رات ہم، اور’سنو، ہاں، کہو، کچھ ہوا کیا‘ کے علاوہ ’’ یہ شام مستانی، مدہوش کئے جائے، اور پیار دیوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتا ہے جیسے نغمے ملتے ہیں۔ ورنہ زیادہ تر ’وعدہ تیرا وعدہ، زندگی ایک سفر ہے سہانہ، جے جے شیو شنکر کانٹا لگے نہ کنکر جیسے شرارتی گانے سنائی دیتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ راجیش کھنہ کیلئے سب سے زیادہ گانے کشو ر کمارنے گائے ہیں لیکن جب بات ہوگی یادگار اور سد ا بہار نغموں کی، جب تذکرہ ہوگا راجیش کھنہ کی رومانوی ہیرو کی شبیہ کا تو بلاشبہ ان کیلئے گائے ہوئے محمد رفیع کے گیت ہی یاد آئیں گے۔