• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کیسے کہیں کہ بھولتے جاتے ہیں ہم تجھے

Updated: November 09, 2024, 1:25 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

علامہ اقبال کے یوم وِلادت پر: حکیم الامت اور شاعر مشرق کو ہم نے یاد رکھا مگر اُن کے پیغام کو بھلا دیا، ممکن ہے جلد ہی اُنہیں بھی بھول جائیں۔ ویسے بھی اقبال فراموشی تو بڑھ ہی رہی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کسی اندیشے کے تحت لوگ کہتے ہیں : ’’خدا نہ کرے کہ وہ دِن آئے....‘‘۔ مَیں  کہتا ہوں  خدا نہ کرے کہ وہ رات آئے۔
 مَیں  رات سے اس لئے ڈرتا ہوں  کہ کوئی رات ایسی نہ آئے جس میں  خواب کا دَر وازہ کھلے اور علامہ اقبال تشریف لائیں ۔ بچپن سے اقبال کو پڑھنے، اُن کی فکر کو سمجھنے، اُن کے پیغام کو حرز جاں  بنانے اور اُن کے نورِ بصیرت سے روشنی کی چند بوندیں  حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش کے باوجود مجھے اب بھی احساسِ محرومی ہے۔ ڈرتا ہوں  کہ خواب میں  اقبال کچھ پوچھ نہ لیں ، مثال کے طور پر یہ سوال ہی نہ کردیں  کہ میری ایک غزل کا مصرعہ ہے ’تری نظر کا نگہباں  ہو صاحب ِ مازاغ‘ تو آپ صاحب ِمازاغ سے کیا سمجھے؟ 
  دشت اقبالیات کی سیاحی میں  برسوں  گزارنے کے بعد مجھ میں  صاحب مازاغ جیسے الفاظ کا معنی بتانے کی اہلیت تو پیدا ہوگئی ہے اور مَیں  بتا سکتا ہوں  کہ اس سے مراد حضور پُرنور ؐ ہیں  اور یہ لفظ (مازاغ) کلام پاک کی سورہ النجم کی ایک آیت سے مستعار ہے مگر اقبال کے سامنے لب کشائی کا حوصلہ کس میں  ہوسکتا ہے؟ کم از کم مجھ میں  تو نہیں  ہے۔ کہاں  اسم بامسمیٰ اقبال اور کہاں  یہ سراپا اِدبار۔ اور پھر یہ ضروری نہیں  کہ علامہ صرف ایک لفظ سے واقفیت کا امتحان لیں ۔ وہ تو ایک دفتر لے کر تشریف لائینگے۔ ممکن ہے دریافت کرلیں  کہ میری شاعری میں  ’’شاہین‘‘ کیا ہے؟ مَیں  پرندہ بھی کہہ سکتا تھا، ’’پرندے کی فریاد‘‘ تو مَیں  نے لکھی ہی ہے (آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ)، عقاب اور زاغ اور ابابیل بھی کہہ سکتا تھا، قمری و فاختہ کا بھی نام لے سکتا تھا، مَیں  نے شاہین پر ہی اصرار کیوں  کیا؟ 
 اس سوال کے جواب میں  مَیں  کسی اسکولی طالب علم کی طرح یہ تو نہیں  کہہ سکتاکہ مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہے مگر اس معاشرہ میں  مَیں  ہی نہیں  ہوں  جو آپ کے شاہین کو سمجھنے کی طرح نہیں  سمجھ پایا، بے شمار لوگ ہیں  جو آپ کے نام لیوا ہیں ، آپ کے کلام کی عظمت کے قائل ہیں ، آپ کو سرآنکھوں  پر بٹھاتے ہیں ، آپ کا نام بڑی عقیدت سے لیتے ہیں  مگر شاہین پر آپ کے اصرار کی وضاحت اُن کے بھی بس کی نہیں  ہے، مَیں  تنہا قصوروار نہیں  ہوں  مگر......مجھ میں  اتنا کہنے کی جرأت کہاں  سے آجائیگی؟ کیا مَیں  کہہ سکتا ہوں  کہ محترم آپ نے اپنا پیغام عام کرنے کیلئے شاہین کا انتخاب اس لئے کیا کہ شاہین بلند پرواز ہے، ا س کے مزاج میں  درویشی ہے، فقر و استغناء ہے، غیرت و خود داری ہے، وہ قصر سلطانی کے گنبد پر نشیمن نہیں  بناتا بلکہ پہاڑوں  میں  رہتا ہے اور اپنا آشیانہ نہیں  بناتا، اس کی فطرت میں  تجسس ہے، اسے محکوم بننا نہیں  آتا، تیز نگاہ ہے اور ہمیشہ محو ِ پرواز یعنی سرگرم عمل رہتا ہے اور آپ ملت ِاسلامیہ کے نوجوانوں  سے توقع کرتے ہیں  کہ اُن میں  یہ تمام خوبیاں ، ایسے تمام اوصاف پیدا ہوجائیں  مگر، جیسا کہ عرض کرچکا ہوں ، مجھ میں  یہ سب کہنے کی جرأت کہاں  سے آئیگی؟ کہاں  اقبال اور کہاں  یہ ناچیز!
 ہوسکتا ہے یہ سوچ کر کہ خواب ہی تو ہے، کچھ کہہ دینا چاہئے تاکہ اِس کم علم کا جواب پاکر علامہ کچھ ایسی باتیں  بتادیں  جو اُن کے فن اور شخصیت کو سمجھنے میں  معاون ہوں ، مثلاً بچپن کا کوئی واقعہ، اُس واقعہ سے ملتا جلتا جو کچھ اس طرح ہے کہ بچپن میں  جب اقبال کلام اللہ کی تلاوت کرتے تھے تو اُن کے والد محترم اُنہیں  دیکھتے رہتے تھے۔ ایک دن وہ اُن کےقریب گئے اور کہا کہ قرآن اتنا ڈوب کر پڑھو جیسے وہ تم پر نازل ہورہا ہو۔ ممکن ہے اقبال کی زبانی ایسا ہی کوئی واقعہ سننے کو مل جائے جو کسی کتاب میں  درج نہیں ، مگر، اقبال کی عظمت کا رعب خواب میں  بھی کچھ کہنے کی اجازت کیسے دے گا؟
 تو کیا علامہ خواب میں  آکر اعزاز بخشیں  اوراُن سے استفادہ نہ کیا جائے؟ یہ تو بڑی بدبختی ہوگی! کیا جرأت کرکے ایک اَور واقعہ کا حوالہ دیا جائے کہ ویسا ہی کوئی واقعہ سنائیے کہ ایک مرتبہ آپ کے ایک مداح نے جاننا چاہا تھا کہ آپ کی پسندیدہ کتاب کون سی ہے تو آپ نے کوئی جواب نہیں  دیا، کمرے سے باہر چلے گئے، پھر تھوڑی دیر بعد تشریف لائے، ایک کتاب آپ نے اپنے سینے سے لگا رکھی تھی، مداح کے قریب آکر آپ نے وہ کتاب یہ کہتے ہوئے اُسے دکھلائی کہ دُنیا میں  اس سے زیادہ عظمت والی کوئی اور کتاب نہیں  ہے۔ وہ قرآن مجید کا نسخہ تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: کیا اہنسا پر مبنی تھی وادی سندھ یا ہڑپا کی تہذیب؟

 مگر اقبال نے واقعہ سنایا تو کوئی سوال بھی کرینگے، سوال کے جواب کا متحمل ہونا تو اِس ناچیز کے اختیار میں  نہیں  ہے، پھر کیا ہوگا؟ اقبال کہیں  گے کیا دورِ حاضر کے مسلم نوجوان  میری شاعری پڑھتے ہیں ، بالخصوص طلبہ ٔ علی گڑھ کے نام، مسلمان اور تعلیم جدید، ایک نوجوان کے نام، خطاب بہ نوجوانانِ اسلام؟ تو مَیں  کیا جواب دوں  گا؟ کیا یہ کہہ پاؤں  گا کہ اب سے پہلے کے مسلم نوجوانوں  کو آپ کے اشعار ازبر ہوتے تھے، شکوہ اور جواب شکوہ تو بہتوں  کو یاد تھیں ، آج کل کے نوجوانوں  کے مشاغل الگ ہیں ، ان میں  سے کسی نے کوئی شعر سنایا بھی تو غلط تلفظ پر سر پیٹنے کا جی چاہتا ہے! کیا علامہ سے یہ سب مَیں  کہہ سکوں  گا؟ خواب میں  ایسی عظیم المرتبت ہستی کا سامنا ہوگا، نگاہیں  ملانے کی بھی جرأت نہ ہوگی، گفتگو کا یارا کیسے ہوگا؟ 
 خواب، خواب ہے حقیقت نہیں  مگر خواب میں  بھی یہ کہنے کی تاب مجھ میں  نہیں  کہ حضرت، نوجوان تو نوجوان، پختہ عمر کے لوگ بھی آپ کے بس نام لیواہیں ، آپ کا پیغام، اُس پر عمل اور اُس سے اپنی زندگی منور کرنے کی خواہش، اگر کہیں  ہے بھی اس کور چشم کو دکھائی نہیں  دیتی، ’’ساقی نامہ‘‘ کا آپ ہی کا مصرعہ بار بار یاد آتا ہے کہ ’’مسلماں  نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے‘‘ ، آپ ہی بتائیے کیا کیا جائے، آپ نے کہا تھا ’جگر خوں  ہو تو چشم دل میں  ہوتی ہے نظر پیدا‘ تو جنابِ والا، جگر کب خون ہوگا اور چشم دل میں  نظر کب پیدا ہوگی؟ آپ نے کہا تھا ’جو ہو ذوقِ یقیں  پیدا تو کٹ جاتی ہیں  زنجیریں ‘ مگر ذوقِ یقین؟ ذوق یقین کہاں  سے آئیگا؟ آسمان سے تو نہیں  آئیگا، مال میں  بھی نہیں   ملتا۔ 
 یقین جانئے، یہی باتیں  سوچ کر مَیں  ’’رات‘‘ سے ڈرتا ہوں ، خواب سے ڈرتا ہوں  اور گستاخی معاف، علامہ سے ڈرتا ہوں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK