• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مہاراشٹرکا مہا چناؤ

Updated: October 26, 2024, 2:33 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

مہاراشٹر کے کئی خطے ملک کی کئی ریاستوں کے برابر یا اُن سے آبادی یا رقبہ میں وسیع تر ہیں ۔ ودربھ، مراٹھواڑہ، مغربی مہاراشٹر، شمالی مہاراشٹر، کوکن ۔ تھانے اور ممبئی۔ اسے چھ ریاستوں کی ایک ریاست اور اسی بنیاد پر چھ بڑی پارٹیوں کا ایک الیکشن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

  مہاراشٹر کے کئی خطے ملک کی کئی ریاستوں  کے برابر یا اُن سے آبادی یا رقبہ میں  وسیع تر ہیں ۔ ودربھ، مراٹھواڑہ، مغربی مہاراشٹر، شمالی مہاراشٹر، کوکن ۔ تھانے اور ممبئی۔ اسے چھ ریاستوں  کی ایک ریاست اور اسی بنیاد پر چھ بڑی پارٹیوں  کا ایک الیکشن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سیاسی جماعتوں  نے جو اتحاد قائم کئے اُن میں  مہاراشٹر کی مناسبت سے ’’مہا‘‘ کو مہا گٹھ بندھن نے بھی اور مہا یوتی نے بھی ملحوظ رکھا ۔ دونوں  مہا ہیں  یعنی بڑے اتحاد ہیں  جو اس مہا چناؤ میں  ’’مہا کامیابی‘‘ کیلئے تگ و دَو کررہے ہیں  مگر ان کی صفوں  میں  جھانکئے تو مہا مہا کی تکرار کے باوجود مہا اتحاد کی کیفیت مفقود ہے۔ شیو سینا دو حصوں  میں  تقسیم ہونے کے بعد اور این سی پی پھوٹ پڑنے کے بعد ایک دوسرے سے مقابلے کا خاکہ ضرور بنارہے ہیں  مگر زمینی سطح پر پارٹی کارکنان میں  جوش و خروش کے فقدان کے ساتھ ساتھ یہ شکوہ بھی ہے کہ فیصلے تو پارٹی کے لیڈران کرتے ہیں ، بھگتنا کارکنان کو پڑتا ہے۔ ایک شیوسینا کا کارکن دوسری شیو سینا کے کارکن سے اور ایک این سی پی کا کارکن دوسری این سی پی کے کارکن سے کیسے آنکھیں  چار کرے؟ جو کل تک ذاتی زندگی میں  بھی دوست یا عزیز تھے، اب سیاسی طور پر ایک دوسرے کے حریف ہیں ۔ کانگریس اس اعتبار سے خوش قسمت رہی کہ اس کے اکا دکا لیڈران ضرور یہاں  سے وہاں  گئے مگر پارٹی میں  بحیثیت مجموعی شیو سینا اور این سی پی جیسی دراڑ نہیں  پڑی۔ بہرکیف، ریاست میں  پہلی مرتبہ دو شیوسینا، دو این سی پی، ایک کانگریس اور ایک بی جے پی ا س اہتمام کے ساتھ انتخابی میدان میں  ہیں  کہ ایک شیو سینا، بی جے پی کے پاس اور ایک شیوسینا کانگریس کے ساتھ ہے جبکہ ایک این سی پی بی جے پی کے سائے میں  اور دوسری این سی پی کانگریس کی رفاقت میں  ہے۔ انتخابی وسائل پر ضرور گفتگو ہوسکتی ہے کہ مہا اگھاڑی کے پاس اتنے وسائل نہیں  ہیں  جتنے مہایوتی کے پاس ہیں  مگر رائے دہندگان پر مہا اگھاڑی کی جو گرفت ہے وہ مہا یوتی کی نہیں  ہے کیونکہ شرد پوار اور اُدھو ٹھاکرے سیاسی قدوقامت کے اعتبار سے زیادہ وزن رکھتے ہیں ، ایسا وزن مہا یوتی کے ریاستی لیڈروں  کا نہیں  ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: انتخابی سیاست میں پرینکا

 پولنگ کو ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اس کے باوجود سیاسی منظر نامہ ہنوز بکھرا ہوا ہے۔ کوئی ایک موضوع ایسا نہیں  ہے جسے پوری ریاست کے عوام کا مشترکہ موضوع قرار دیا جائے۔ ریزرویشن سے لے کر دیہی بحران تک، مہنگائی اور بے روزگاری سے لے کر مہاراشٹر کی صنعتوں  کے گجرات منتقل کئے جانے تک، شیوسینا اور این سی پی کی عمودی تقسیم (مراٹھی مانوس کے نقطۂ نظر سے ’’غداری‘‘) سے لے کر حکمراں  اتحاد کی جاری کردہ فلاحی اسکیموں  تک الگ الگ خطوں  میں  الگ الگ موضوعات الیکشن کا رُخ طے کرسکتے ہیں ، فی الحال ایسا کوئی اشارہ نہیں  مل رہا ہے جسے اس انتخاب کا غالب موضوع کہا جاسکے۔ اُدھو اور شرد پوار کے ساتھ ہونے والا دھوکہ ریاست کے ہر خطہ میں  کئی دیگر موضوعات میں  سے ایک موضوع یقیناً ہوگا کیونکہ عوام کی بڑی تعداد نے، خواہ وہ کسی علاقہ کے ہوں ، اس کا بُرا مانا ہے کہ آخر یہ کون سی جمہوریت ہے جس میں  منتخب عوامی نمائندوں  کو پارٹی بدلنے پر آمادہ یا مجبور کرکے عوامی رائے (مینڈیٹ) کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے۔ ممکن تھا کہ زیادہ دن گزر جانے کی وجہ سے پارٹیاں  توڑنے کا مسئلہ بھلا دیا جاتا مگر عوام پھر عوام ہیں  بالخصوص مہاراشٹر کے عوام جو وشواس گھات کو نہیں  بھولتے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK