ہندوستان نے بنگلہ دیش سے آمدورفت کو اتنا دشوار نہیں رکھا ہے جتنا کہ پاکستان سے آمدورفت کو بنایا ہے۔ بہرحال بنگلہ دیش سے ہمارا رابطہ گہرا ہے
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 1:42 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
ہندوستان نے بنگلہ دیش سے آمدورفت کو اتنا دشوار نہیں رکھا ہے جتنا کہ پاکستان سے آمدورفت کو بنایا ہے۔ بہرحال بنگلہ دیش سے ہمارا رابطہ گہرا ہے
ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے ہندوستانی خارجہ پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے ’’ہندو بنگلہ دیش باہمی تعلقات‘‘ کے باب میں لکھا تھا: ’’ہندوستان اور بنگلہ دیش تاریخی، لسانی، ثقافتی اور دیگر اُمور میں مشترکہ ورثے کے حامل ہیں ۔ خودمختاری، مساوات اور باہمی سوجھ بوجھ کے حوالے سے دونوں ملکوں کی بہترین شراکت داری اُن کے باہمی رابطوں میں صاف دیکھی جاسکتی ہے۔‘‘
فی الحال، ان دو ملکوں کے درمیان تین ٹرینیں چل رہی ہیں ۔ میتری ایکسپریس جو ۲۰۰۸ء میں جاری کی گئی تھی اور کولکاتا اور ڈھاکہ کے درمیان چلتی ہے، دوسری بندھن ایکسپریس جو ۲۰۱۷ء میں شروع کی گئی تھی اور کولکاتا سے کھلنہ تک جاتی ہے اور میتالی ایکسپریس جو ۲۰۲۲ء میں شروع ہوئی تھی اور نیو جلپائی گوڑی سے نکل کر ڈھاکہ تک جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں ، پانچ بس سروسیز ہیں جو کولکاتا، اگرتلہ اور گوہاٹی سے چلتی ہیں اور ڈھاکہ سے ہوکر کھلنہ تک جاتی ہیں ۔ کووڈ کی وباء پھیلنے سے چند ہفتے پہلے مَیں نے کھلنہ جانے کیلئے ٹرین کاسفر کیا اور یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کتنے لوگ ہندوستان سے بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش سے ہندوستان کا سفر کرتے ہیں ۔ ٹرین کا یہ رابطہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد بند کردیا گیا تھا مگر ۲۰۱۷ء میں دوبارہ کھولا گیا۔ قارئین کو یہ جان کر تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ ایشیاء میں بنگلہ دیش، ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ ۲۴۔۲۰۲۳ء میں بنگلہ دیش نے ۲؍ ارب ڈالر کا مال ہندوستان بھیجا جبکہ اس مالی سال کے دوران بنگلہ دیش اور ہندوستان کے درمیان باہمی تجارت ۱۴؍ ارب ڈالر تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تجارتی اعتبار سے ان تجارتی رابطوں میں ہندوستان کا کتنا فائدہ ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کے مذکورہ نوٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوستان، بنگلہ دیش سے بغرض علاج آنے والے ہر مریض کے ساتھ تین بنگلہ دیشیوں کیلئے ویزا جاری کرتا ہے۔ اس اسکیم کو فراخدلانہ نہ کہنا بخل سے کام لینے جیسا ہوگا۔ بنگلہ دیش میں ویزا کی ہماری سرگرمیاں کسی بھی ملک کیلئے جاری ایسی سرگرمی سے کافی زیادہ ہیں ۔ان سرگرمیوں سے مراد ویزا کیلئے موصول ہونے والی عرضیاں اور جاری کئے جانے والے ویزا شامل ہیں ۔ اس سے بھی باہمی رشتوں کی گرمی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے مگر شیخ حسینہ کی حکومت کی بے دخلی کے بعد ہندوستان نے ان سرگرمیو ں کو کافی حد تک تخفیف کردی حتیٰ کہ سفارتی موجودگی بھی کم کردی ہے۔ اس سے ہمارا نقصان ہورہا ہے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کشادہ دلی کے ساتھ جاری رہنے والی ویزا سرگرمیوں سے ہندوستانی تجارت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے بالخصوص طبی سیاحت کو۔ حقیقت یہ ہے کہ بغرض علاج ہندوستان آنے والوں میں نصف تعداد بنگلہ دیش کے شہری ہوتے ہیں (۶؍ لاکھ ۳۵؍ ہزار میں سے ۳؍ لاکھ ۲۵؍ ہزار)۔
دوسری جانب، پاکستانیوں کو ہندوستان آنے کیلئے جن دشواریوں اور پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے اُس کے بارے میں جاننے کیلئے مَیں اپنے چند دوستوں کی بابت بتا سکتا ہوں کہ جو اکتوبر ۲۴ء میں ہندوستان آئے۔ اُن میں سے ایک اٹاری۔ واگھہ بارڈر سے ہندوستان میں داخل ہوا اور امرتسر سے بذریعہ ہوائی جہاز بنگلور پہنچا۔ دوسرے دن اُس نے مقامی پولیس اسٹیشن میں حاضری دی تاکہ اپنی آمد کا اندراج کروا دے جو کہ آمد اور واپسی دونوں موقعوں پر کروانی پڑتی ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ اُنہیں شہر کے نام پر ویزا دیا جاتا ہے یعنی جس شہر میں جانا ہوتا ہے وہاں کیلئے۔ میرا دوست جمعرات کی رات کو بنگلور پہنچا تھا۔ اسے دوسرے دن اور پھر سنیچر کو بھی پولیس اسٹیشن جانا پڑا۔ مجھے اُس سے ہمدردی ہے مگر مَیں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جتنی دشواریوں سے پاکستانیوں کو ہندوستان میں گزرنا پڑتا ہے اُتنی ہی دشواریاں پاکستان میں ہندوستانیوں کو پیش آتی ہیں جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ دونوں ہی ممالک نہیں چاہتے کہ ایک دوسرے کے شہری آتے جاتے رہیں ۔ بہت سوں کو تو ویزا دینے سے انکا رکردیا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے والوں کی تعداد ۲۵؍ لاکھ سالانہ ہے جبکہ پاکستان سے آنے والوں کی تعداد صرف ۴۰؍ ہزار۔ وزارت سیاحت کے اعدادوشمار کے مطابق ۲۰۲۴ء کے اولین چھ مہینوں میں ہندوستان آنے والے بنگلہ دیشی سیاحوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ یہ اس لئے قابل ذکر ہے کہ ۲۰۱۰ءتک ہندوستان کا دورہ کرنے والے بنگلہ دیشی سیاحوں کی تعداد سالانہ ۵؍ لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔ ۲۰۱۴ء میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۰؍ لاکھ تک پہنچی اور پھر اس کا دگنا ہوگئی۔
یہ بھی پڑھئے: سب کی نہیں یہ چند کی دُنیا، کس سے گلہ اور کیسا گلہ؟
ہندوستان آنے والے بنگلہ دیشیوں کی تعداد اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ ایک طرف یہ صورت حال اور یہ اعدادوشمار ہیں اور دوسری طرف حکمراں جماعت ہے جو بنگلہ دیشیوں کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔جن انتخابات کے نتائج گزشتہ روز منظر عام پر آئے اُن میں بھی حکمراں جماعت نے ’’باہری لوگوں ‘‘ کو موضوع بحث بنایا تھا۔جس طرح ہر انتخابی ریلی میں حکمراں جماعت کے لیڈران بنگلہ دیشیوں کو نشانہ بناتے ہیں اُس کو دیکھ کر عام ہندوستانی شہری یہ سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ ہندوستان نے بنگلہ دیشیوں کی آمد تقریباً بند کروا دی ہے مگر صورت حال ویسی نہیں ہے بلکہ دہلی نے آمدورفت کے اُمور کو فراخدلانہ رکھا ہے اور یہ اچھی حکمت عملی ہے جس میں ، تجارتی و اقتصادی نقطۂ نظر سے ہندوستان کا فائدہ ہے۔
بنگلہ دیشیوں کی آمدورفت کا حال جتنا آزادانہ ہے اُتنا ناپال کے ساتھ نہیں ہے حالانکہ اس پڑوسی کے بارے میں بھی ہندوستان کا یہی کہنا ہے کہ ’’نیپال کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات تاریخی ہیں جو دونوں ملکوں کی مشترکہ ثقافت کے سبب زیادہ گہرے ہیں اور دونوں ملکوں کی سرحدیں ایک دوسرے کیلئے کھلی ہیں ۔‘‘ یہی بات بنگلہ دیش کے بارے میں بھی کہی گئی مگر فرق یہ ہے کہ نیپال کے ساتھ ہماری سرحد کھلی ہوئی ہے، آنے جانے کیلئے پاسپورٹ ضروری نہیں ہے جبکہ بنگلہ دیش کے ساتھ زیادہ مضبوط اور فائدہ مند تعلقات کے باوجود سرحد کھلی ہوئی نہیں ہے اور پاسپورٹ ضروری ہے۔اس فرق کو کس خانے میں رکھا جائے یہ اہم سوال ہے۔