جدید دَور کی دُنیا میں ہر طرف استحصالی قوتیں موجود ہیں جو زمین تو زمین آسمان یا خلاء کو بھی مسخر کرنے کے درپے ہیں۔ اور یہ کارنامہ انسانیت کی فلاح کیلئے نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: November 23, 2024, 1:22 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
جدید دَور کی دُنیا میں ہر طرف استحصالی قوتیں موجود ہیں جو زمین تو زمین آسمان یا خلاء کو بھی مسخر کرنے کے درپے ہیں۔ اور یہ کارنامہ انسانیت کی فلاح کیلئے نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دُنیا بہت بوڑھی ہوچکی ہے۔ اس سے چلا نہیں جاتا۔ اسے دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے ہاتھوں میں رعشہ ہے۔ اس کی سماعت متاثر ہے۔ اس کے قویٰ مضمحل ہیں ۔ اسے رہ رہ کر کھانسی آتی ہے اور کبھی کبھی کھانستے کھانستے یہ حالت ہوجاتی ہے جیسے اب تب کی ہو۔ کبھی جب پرانی باتوں کو لے کر رونے لگتی ہے تو روتی ہی چلی جاتی ہے۔ جو نہ جانتا ہو وہ آکر دیکھ لے کہ ہچکیوں سے رونا کسے کہتے ہیں ۔ مگر یہ صرف احساس ہے۔ دُنیا فانی ضرور ہے مگر ہر فانی شے کی طرح اسے کب فنا ہونا ہے اس کا علم صرف اُس کو ہے جس نے دُنیا تخلیق کی، اسے پہاڑوں ، صحراؤں ، دریاؤں ، چشموں ، نہروں ، ندیوں اور تالابوں سے سجایا، شجر و حجرعطا کئے، پھل پھول عطا کئے، مہر و ماہ کا تحفہ دیا اور اسے اشرف المخلوقات کے شایان شان بنایا۔ اس طرح زمین آسمان کے نیچے جو کچھ بھی ہے سب حضرت انسان کیلئے اتنا اعلیٰ و ارفع ہے کہ دورِ جدید کے خود کو ذہین تر سمجھنے والے لوگ چاہیں بھی تو کوئی ایک شے اس جیسی نہیں بناسکتے۔ اب ان کے ذہنوں پر نیا خناس سوار ہوا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت اُن کی ایسی تخلیق ہے جس پرموجودہ تو موجودہ، آنے والی نسل بھی فخر کریگی مگر یہ نہیں جانتے کہ مصنوعی کہہ کریہ خود، جو موجد ہیں ، اعتراف کررہے ہیں کہ یہ فطری نہیں ہے، بھلا بُرا نہیں جانتی، اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، اس کی ڈور ہوشمند انسانوں کے ہاتھوں میں رہی تو ٹھیک ہے ورنہ کسی دن اس طرح ہوش اُڑا دے گی کہ دوبارہ ہوش میں آ بھی گئے تو ہوش سنبھالنے کی قوت جواب دے چکی ہوگی۔ ا سلئے، لگتا تو یہی ہے کہ ایک دن ذی شعور انسان مل بیٹھنے اور غوروخوض کرنے پر مجبور ہوں گے کہ مصنوعی کہلانے والی جعلی اور نقلی ذہانت کا کیا کیا جائے۔
دُنیا بھلے ہی بوڑھی نہ ہوئی ہو مگر بوڑھی لگتی ہے کیونکہ استحصالی قوتوں نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا اور حالت خراب کردی۔ یہ اُس ماں کے جیسی ہے جس کے بیٹے بیٹیوں کی تعداد کم نہیں ہے مگر کوئی اُسے اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتا۔ مشہور ایرانی ادیب غلام حسین ساعدی کا افسانہ ’’روضے والی‘‘ یاد آتا ہے۔ یہ ایسی خاتون ہے جس کے بیٹے، بیٹیاں ، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ساتھ رہیں ، ایک ہی چھت کے نیچے رہیں تو ایک بڑے خاندان کی صورت قلب و نگاہ کی آسودگی کا باعث ہو مگر سب الگ الگ رہتے ہیں اور کوئی اُسے اپنے مکان کے کسی گو شے میں قبراتنی جگہ بھی نہیں دینا چاہتا۔ سب چاہتے ہیں کہ جو کچھ بھی اُس کے پاس ہے اُس میں سے اُن کا حصہ مل جائے۔ اتفاق دیکھئے کہ آج ہی غلام حسین ساعدی کا یوم وفات ہے۔
دُنیا کی خرابی میں بڑا ہاتھ اُس ذہنی فتور کا ہے جس کا پہلا اور آخری ہدف عدل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام بڑی طاقتیں عدل کے نام پر عدل قائم نہ ہونے دینے کی قسمیں کھاتے ہوئے کوشش کرتی ہیں کہ کسی قیمت پر وسائل کی مساوی تقسیم نہ ہونے پائے۔ اِن کے نزدیک وسائل پر سب کا نہیں چند کا قبضہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے چند کے قبضے کو یقینی بنانے کیلئے ہر طرح کے حربے آزمائے تاکہ ہل جوتنے والا کسان ہل ہی جوتتا رہے کبھی زمیندار نہ بننے پائے اور مزدور ہمیشہ مزدور ہی رہے، کبھی کارخانہ دار نہ بننے پائے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ غریب کسان کے گھر غریب کسان ہی پیدا ہو، مزدور کے گھر مزدور ہی پیدا ہو اور اگر کسی وجہ سے ان کے تصرف میں اتنے وسائل آگئے کہ چہروں پر طمانیت کے آثار اُمڈنے لگیں تو ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچنا کسی بھی وقت ممکن ہو۔ محسوس کیجئے کہ پیروں کے نیچے سے زمین روزانہ کھنچی جاتی ہے، اتنی مہارت کے ساتھ کھینچی جاتی ہے کہ پتہ نہیں چلتا بالکل ایسے ہی جیسے زمین کا سورج کے گرد گھومنا محسوس نہیں ہوتا۔
زمینداری، جاگیر داری اور سرمایہ داری کا جبر سہہ سہہ کر دُنیا ہانپنے لگی ہے مگر جبر ایک قالب کو چھوڑ کر دوسرے قالب میں ڈھل جاتا ہے، ختم ہونے یا کم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ موجودہ دَور میں اس کی شہرت نئے نام سے ہے، کرونی کیپٹالیزم، جسے باقاعدہ اصطلاح وضع ہونے تک سازبازی سرمایہ داری کہہ سکتے ہیں ۔ سارقی سرمایہ داری بھی کہہ سکتے تھے مگر اس کیلئے ہر خاص و عام کو ’’سارق‘‘ کا معنی سمجھانا پڑیگا۔ سارق ہی نے خلق خدا کو صارف بنادیا ہے۔ اب ایک ایک فرد اپنے نام سے نہیں ، چہرے سے نہیں ، ولدیت سے نہیں ، پتے اور تصویر سے نہیں ، نمبر سے پہچانا جاتا ہے۔ صارف نمبر، کنزیومر نمبر۔ صارف کو پتہ ہی نہیں چلاکہ کب اُس کی ذاتی اور حقیقی شناخت گم کردی گئی۔ جب انسان انسان نہ رہ جائے اور صارف بن جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ جس فلسفہ ٔ مساوات کو پناہ گاہِ انسانیت قرار دیا جاسکتا ہے اُسے دفن کردیا گیاہے، وسائل پر قبضہ کی جنگ جاری ہے اور منافع کو خدا مان لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا تعین ہونا ابھی باقی ہے
تو صاحبو، اب ہم ساز بازی سرمایہ داری کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں جس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں استحصالی قوتیں بھی ایک دوسرے سے دست بہ گریباں ہیں ۔ کبھی ایک شخص دُنیا کا امیر ترین کہلاتا ہے تو کبھی کوئی دوسرا۔ارب پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ طرز ِ استحصال اس لئے عجیب ہے کہ اس میں غریب خالی ہاتھ نہیں ہے، پیسہ اُس کے پاس بھی ہے مگر جتنی محرومی کل پیسہ نہ ہونے کے سبب تھی، آج پیسہ ہونے کے بعد بھی اُتنی ہے۔ اس میں کمی نہیں آئی۔ اسی لئے متوسط طبقے کا آدمی ٹھیک ٹھاک روزگار ہونے کے باوجود روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی گرانی سے خوفزدہ رہتا ہے۔ گرانی اُس کیلئےسرگرانی کا سبب ہے جو بعض اوقات دِن میں تارے دکھاتی ہے۔نئی سرمایہ داری کے استحصال کا طریقہ بھی نیا ہے۔ وہ قدیم سرمایہ داری کی طرح سرمایہ روک کر نہیں رکھتی بلکہ سرمایہ بانٹ کر صارف بناتی ہے تاکہ جتنا دیا ہے اُس سے زیادہ وصول کرلے۔ یہ بازار سجاتی اور اشتہار کے ذریعہ اشتہا بڑھاتی ہے لہٰذا سرمایہ اتنی آسانی سے واپس آتا ہے کہ خرچ کرنے والا سمجھ ہی نہیں پاتا۔ وہ خوش اورمطمئن رہتا ہے کہ آسائشیں خریدنے کیلئے پیسہ ضرور خرچ کرنا پڑتا ہے مگر لطف اندوز ہونے کا بھی تو موقع ملتا ہے۔