ہر الیکشن ووٹروں کی سوجھ بوجھ کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی تو رائے دہندگان اس امتحان میں اعلیٰ نشانات سے کامیاب ہوتے ہیں مگر کبھی اُنہیں پاسنگ مارکس بھی نہیں ملتے۔ عموماً، رائے دہندگان اُس وقت کوئی غلطی نہیں کرتے جب اُن کے سامنے صاف اور واضح متبادل ہو۔
EPAPER
Updated: November 17, 2024, 2:57 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہر الیکشن ووٹروں کی سوجھ بوجھ کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی تو رائے دہندگان اس امتحان میں اعلیٰ نشانات سے کامیاب ہوتے ہیں مگر کبھی اُنہیں پاسنگ مارکس بھی نہیں ملتے۔ عموماً، رائے دہندگان اُس وقت کوئی غلطی نہیں کرتے جب اُن کے سامنے صاف اور واضح متبادل ہو۔
ہر الیکشن ووٹروں کی سوجھ بوجھ کا امتحان ہوتا ہے۔ کبھی تو رائے دہندگان اس امتحان میں اعلیٰ نشانات سے کامیاب ہوتے ہیں مگر کبھی اُنہیں پاسنگ مارکس بھی نہیں ملتے۔ عموماً، رائے دہندگان اُس وقت کوئی غلطی نہیں کرتے جب اُن کے سامنے صاف اور واضح متبادل ہو۔ اس کے برخلاف، اُن سے غلطی تب سرزد ہوتی ہے جب انتخابی میدان میں اُمیدواروں کا غول کا غول موجود ہو اور متبادل خود ہی کئی متبادلات میں بٹا ہوا ہو۔ ایسے میں ووٹر تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے کہ بقول شکیل بدایونی: ’’مَیں اِدھر جاؤں یا اُدھر جاؤں ، بڑی مشکل میں ہوں اَب کدھر جاؤں ۔‘‘
اِس تذبذب اور کشمکش ہی میں دھوکہ ہے۔ جب اس کا علم ہو اور سابقہ تجربات سے اس علم میں اضافہ ہوا ہو تو دھوکے سےبچنے کی حکمت عملی پہلے سے تیار رہنی چاہئے۔ ووٹر کو طے کرنا چاہئے کہ کہاں اُس کا ووٹ ضائع ہوگا اور کہاں نہیں ہوگا۔ جس اُمیدوار کے تعلق سے محسوس ہو کہ اس کو پسند کرنے والوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے اور اس کے کھاتے میں جاکر ووٹ ضائع نہیں ہوگا بلکہ شاندار کامیابی کی راہ ہموار کرے گا تو اُس کی دل کھول کر تائید و حمایت کرنی چاہئے بشرطیکہ جس اُمیدوار کی تائید و حمایت کا ذہن بنے وہ بحیثیت مجموعی پسندیدہ (عوامی مقبولیت کا حامل) ہو، اپنے افکار و خیالات میں شفاف اور غیر متعصب ہو، کسی فرقے سے کد نہ رکھتا ہو، جیت جانے پر نمائندگی کا حق ادا کرسکتا ہو، مشکل وقت میں کام آئے، انصاف اور حق پسندی جیسی خوبیاں اُس کی شخصیت سے جھلکتی ہوں ، خدمت ِ خلق پر اُس کا پختہ یقین ہو اور جس سے پارٹیاں بدلنے یا ’’خرید لئے جانے‘‘ کا خطرہ نہ ہو۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ،غیر قانونی تارکین وطن اور ٹرمپ
ہمارے خیال میں دو اہم تدابیر ہیں جنہیں اپنا کر رائے دہندگان انتخابی نتائج پر اپنا نقش قائم کرسکتے ہیں ۔ اول: پولنگ اتنی ہو کہ مستقبل میں اس کی مثال دی جائے۔ یہ اس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک ایک ووٹر ووٹ دے۔رضاکاروں کی ٹیم محلے کے ہر مکان پر صبح صبح دستک دے۔ جو کام پر جارہا ہے اُسے منائے۔ جو کسی اور ضرورت کے تحت مگر اس ارادہ سے نکلا ہے کہ جلدی آکر ووٹ دیگا، اُسے سمجھائے کہ پہلے ووٹ دے پھر کہیں بھی جائے اور جو سیاسی بیزاری کا شکار ہو اُسے بیداری کی اہمیت سے واقف کرائے۔ رضاکاروں میں خواتین بھی ہوں جو ایک دن یا دو دِن پہلے گھریلو اور ملازمت پیشہ خواتین کو اول وقت میں ووٹ دینے کیلئے راضی کرلیں ۔ دوپہر ڈھلنے سے پہلے پہلے محلے کے دو تہائی سے زیادہ ووٹر اپنا ووٹ مشینوں میں بند کردیں تو آپ کا حلقہ یا محلہ تاریخ رقم کرنے کے قریب پہنچ جائیگا۔ یاد رہے کہ خواتین کی ووٹنگ کم ہوتی ہے۔ اُسے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش ہو۔
دوئم: رائے دہندگان خوب غوروخوض اور باہمی میٹنگوں کے ذریعہ ذہن بنالیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ پھر سب مل کر اُسی اُمیدوار کو ووٹ دیں بالخصوص اُن حلقوں میں جہاں پارٹیوں نے مقابلے کو تماشا بنادیا ہے اور عوامی رائے بُری طرح منقسم نظر آ رہی ہے۔ کئی حلقوں میں سیکولر اُمیدواروں میں بھی اتنی ٹھنی ہوئی ہے کہ ایسا لگتا ہے سب کسی مخالف اُمیدوار کو کامیابی کا تحفہ دینے کیلئے بے قرار ہیں ۔ ووٹ بٹنے دینا ایسا ہے جیسے کوئی دیوانہ اپنی کسی قیمتی دستاویز کو پرزہ پرزہ کرکے ہوا میں اُچھال دے۔ یاد رہے کہ اگر سیاسی پارٹیوں نے الیکشن کو کثیر جہتی بنادیا ہے تو اس کا مؤثر ترین جواب یک جہتی ہے۔ ایک جہت یعنی کسی ایک اُمیدوار کو متفقہ اُمیدوار کے طور پر ماننا اور اُسے اکثریتی ووٹوں سے نواز دینا۔ یہی دانشمندی ہے۔