• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ کے حالیہ چند فیصلوں نےعدلیہ پر ہی اعتماد نہیں بڑھایا، جمہوریت کو بھی تقویت پہنچائی

Updated: April 07, 2024, 3:19 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ایسے وقت میں جبکہ عالمی سطح پر ہندوستان کو ’’انتخابی آمریت‘‘ کے زمرہ میں شامل کیا جانے لگاہے اور قومی سطح پر مایوسی بڑھ رہی ہے، سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں نے ملک کی مردہ پڑ رہی جمہوریت میں نئی امیدیں جگائی ہیں۔

Dhananjaya Yeshwant Chandrachud. Photo: INN
دھننجایا یشونت چندرچڈ۔ تصویر : آئی این این

ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ہندوستانی جمہوریت کے تعلق سے فکر مندی کااظہار کیا جارہاہے، بین الاقوامی ادارے اسے ’’انتخابی آمریت‘‘ کے زمرہ میں  شامل کرنے لگے ہیں، قومی میڈیا صحافتی ذمہ داری نبھانے کے بجائے حکومت کے درباری کی طرح برتاؤ کررہاہے، وہ سرکاری ادارے جن کا جمہوریت کی بقا کیلئے خود مختار رہنا ضروری ہے، یکے بعددیگرے سرنگوں  ہوتے نظر آرہے ہیں، سپریم کورٹ کے جرأت مندانہ اقدامات اور فیصلوں نے نہ صرف عدلیہ پر عوام کا اعتماد مستحکم کیا ہے بلکہ ملک کی جمہوریت کے تحفظ کے تعلق سے بھی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ 
 الیکٹورل بونڈ کے معاملے میں  ایس بی آئی کے کندھے پر بندوق رکھ کر حکومت نے جب بچنے کی کوششیں شروع کیں تو یہ اندیشہ تھا کہ عدالت نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے وقت دیدے اور اس طرح یہ معاملہ لوک سبھا الیکشن کےبعد تک کیلئے ٹل جائے مگر سپریم کورٹ نے جس سختی کا مظاہرہ کیا اور معاملے کو ٹالنے کیلئے دائیں بائیں سے ہونے والی غیر محسوس کوششوں سے جس طرح نمٹا اس نے یہ ظاہر کردیا کہ اگر سپریم کورٹ اپنے اختیارات کا مظاہرہ کرنے لگے تو حکومتی ایجنسیوں کے پاس سرتسلیم خم کر دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ این سی پی بنام این سی پی مقدمے میں  بھی عدالت نے جس رویہ کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ پہلی نظر میں اجیت پوار کے خیمے کو اصل این سی پی قراردینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ عدالت کا اجیت پوار خیمے کو یہ مشورہ دینا کہ اسے ’گھڑی‘ کا نشان خود ہی استعمال نہیں کرنا چاہئے بہت کچھ بیان کردیتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: پہلےعتیق پھر مختار،عدالتی تحویل میں موت نظامِ عدل پر داغ

کورٹ نے این سی پی کے اس خیمے کو گھڑی کا نشان استعمال کرنے کی اجازت برقرار رکھی بھی تو اس شرط پر کہ وہ جہاں بھی یہ نشان استعمال کرےوہاں  یہ اعلان لگائے کہ اس انتخابی نشان کا معاملہ سپریم کورٹ میں  زیر التواء ہے۔ اس معاملے میں جب حکم عدولی ہوئی تو کورٹ نے سخت نوٹس لیااور اجیت پوار خیمہ کو عدالت میں  یقین دہانی کرانی پڑی کہ وہ اس اعلان کو مزید واضح طور پر اپنے اشتہارات میں  استعمال کریگا۔ 
 حالیہ چند دنوں  میں ایسے فیصلوں اور احکامات کی فہرست طویل ہوئی ہے جن میں  کورٹ نے اپنے اختیارات کو باور کرایا ہے۔ مثال کے طور پر بابارام دیو اوران کی کمپنی بتنجلی کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ہلکے میں  لینا مہنگا پڑا۔ رام دیو کو چونکہ برسراقتدار طبقہ کی حمایت حاصل ہے اس لئےوہ شاید اس خام خیالی میں   مبتلا تھے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت بھی ان کا کیا بگاڑ لے گی مگر جب کورٹ کے تیور سخت ہوئے تو رام دیو اپنے چیلے کے ساتھ سپریم کورٹ  میں  ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوئے نظر آئے۔ عدالت کا ان کی معافی کو تسلیم نہ کرنا ا ور توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا اشارہ دینا عدالتی اختیارات کو دیگر باحیثیت افراد پر واضح کرنے کے مترادف ہے۔ اہم فیصلوں  کی اس فہرست میں ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے معاملے کو سماعت کیلئے قبول کرنا، حکومت کے ذریعہ ’فیکٹ چیک‘یونٹ کے قیام کے نوٹیفکیشن پر روک لگانا، جی این سائی بابا کی رہائی کے فیصلے پر مرکز کی اپیل کو خارج کرنا اور مدرسہ بورٹ سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے کو بھی شامل کیا جاسکتاہے۔ 
 تازہ ترین معاملہ سنجے سنگھ کی ضمانت پر رہائی کا ہے جس میں  سپریم کورٹ کے موقف نے ای ڈی کو ہلا کر رکھ دیا اور اسے ضمانت کی عرضی کی مخالفت کے اپنے موقف کو دوران ِ سماعت ہی تبدیل کرنا پڑا۔ قانونی ماہرین بتاتے ہیں  کہ پی ایم ایل اے قانون میں  مودی حکومت نے کچھ ایسی سخت تبدیلیاں  کردی ہیں کہ اس قانون کے تحت ملزم کو اس وقت تک ضمانت نہیں  مل سکتی جب تک خود جانچ ایجنسی اس کی مخالفت ترک نہ کر دے۔ سنجے سنگھ کو ۶؍ ماہ قید میں رکھنے کے بعد بھی جب ای ڈی نے سپریم کورٹ میں ان کی ضمانت کی عرضی کی مخالف کی تو کورٹ نے آرٹیکل ۴۵؍ میں دیئے گئے خصوصی اختیار کے تحت سماعت کا اشارہ دیا جس کے تحت کورٹ اس وقت کسی ملزم کو ضمانت پر رہا کر سکتا ہے جب اسے یقین ہو کہ وہ بے قصور ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ای ڈی کا پورا کیس ہی ڈھیر ہوجاتا۔ سپریم کورٹ کے شاید اسی موقف کو دیکھتے ہوئے مودی سرکار کئی معاملوں میں اپنے قدم پیچھے لینے پر مجبور ہوگئی۔ ان میں سب سے اہم انکم ٹیکس محکمہ کا کانگریس کو نوٹس دینے کے باوجود پارلیمانی الیکشن سے قبل کوئی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK