• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پہلےعتیق پھر مختار،عدالتی تحویل میں موت نظامِ عدل پر داغ

Updated: April 02, 2024, 3:24 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

گجرات سے یوپی کی جیل منتقل کرنے پر عتیق نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا جبکہ جیل میں زہر خورانی کا مختار انصاری اوران کے اہل خانہ کا الزام بھی ایسا نہیں کہ یوں ہی مسترد کردیا جائے، ۱۹؍ مارچ کے کھانے میں زہردینے کی ان کی تحریری شکایت اور ۱۰؍ دنوں میں موت اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہے۔

The custodial death of former MLA Mukhtar Ansari has once again questioned the rule of law in UP. Photo: INN
سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کی حراستی موت نے ایک بار پھر یوپی میں قانون کی حکمرانی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ تصویر : آئی این این

 گجرات کی سابرمتی جیل سے عتیق احمد اور پنجاب کی جیل سے مختار انصاری کو اتر پردیش کی جیلوں میں منتقل کرنے کیلئے یوگی سرکار نے ایڑی چوٹی کا کیسا زور لگا دیا تھا وہ کسے یاد نہیں۔ عتیق احمد ہوں کہ مختار دونوں نے اس منتقلی کو روکنے کی پوری کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ دونوں  نے اتر پردیش میں اپنی جان کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا، عدالتوں کو ایک سے زائد بار اس جانب نہ صرف متوجہ کیا بلکہ شکایتیں کیں مگر کچھ نہیں ہوا۔ بالآخر عتیق احمد اوران کے بھائی اشرف کو پولیس کی تحویل میں سرعام انتہائی بے دردی سے گولی مار دی گئی۔ ایسا لگاجیسے پولیس انہیں ہتھکڑی پہنا کر لے ہی اس لئے گئی تھی کہ حملہ آور انہیں  آسانی سے نشانہ بناسکیں۔ اُس وقت جو سوال اٹھے تھے وہ آج تک تشنہ ٔ جواب ہیں۔ اب مختار انصاری کی مشتبہ موت نے سوالات کا ایک نیا دفتر کھول دیا ہے جن کے جواب ملنے کی امید بھی کم ہی ہے۔ 
زیر سماعت ملزم عدالتی تحویل میں  ہوتے ہیں، اس لئے ان کے تحفظ کو یقینی بنانا عدلیہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ عدالتی تحویل میں  ملزمین کی ایسی اموات ملک کے نظام عدل پر بدنما داغ ہیں۔ عدالتوں کو یوپی کی جیلوں میں قیدیوں کے تحفظ کے تعلق سے اُسی وقت الرٹ ہوجانا چاہئے تھا جب عتیق احمد کا اندیشہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا اور انہیں پولیس سیکوریٹی میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے ’’لائیو‘‘ گولی مار دی گئی مگر ایسا نہیں ہوا اور اب باندہ جیل میں  مختار انصاری کی موت نے عتیق اور اشرف کے قتل کی یاد بھی تازہ کردی ہے۔ یہ بھی اتفاق ہی ہے یا کچھ اور کہ عتیق اور ان کے بھائی کو بھی ایک سال قبل رمضان میں ہی قتل کیا گیا تھا اور مختار انصاری کی موت بھی رمضان کے مہینے میں ہوئی۔ 

یہ بھی پڑھئے: الیکٹورل بونڈ کےچشم کشا انکشافات ملک کے ہر شہری کیلئے باعث تشویش ہونے چاہئیں

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں  کرسکتا کہ مختار انصاری کی امیج ایک ڈان کی تھی، انہیں کئی معاملات میں سزا ہوچکی تھی اور کئی معاملوں میں فیصلہ آنا باقی تھامگر قانون کی حکمرانی اور جنگل راج کا بنیادی فرق ہی یہ ہےکہ قانون کی حکمرانی میں  سزا قانون دیتا ہے۔ وہ زیر سماعت ملزم ہی نہیں بلکہ سزا یافتہ مجرم کے جینے کے حق کو بھی وہی اہمیت دیتا ہے جو اہمیت ایک عام شہری کی جان کو دی جاتی ہے۔ یوپی سرکار میں  قانون کی حکمرانی کا کیا عالم ہے اس کا اندازہ یہاں  ہونے والے بے تحاشہ انکاؤنٹرس کے ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ گزشتہ ۷؍ برسوں میں پولیس تحویل میں ۱۰؍ گینگسٹرس کی موت ہوچکی ہے۔ ۷؍ کو اس وقت قتل کیاگیا جب وہ مقدمے کی سماعت کیلئے عدالت یا پھر طبی جانچ کیلئے اسپتال لے جائے جارہے تھے، بقیہ ۳؍ کی موت بیماری سے ہوئی۔ مختار انصاری کے معاملے کو ہی دیکھیں  تو کئی پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں   اور اہل خانہ اور خود مختار انصاری کی شکایتوں  کی منصفانہ جانچ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مختار انصاری پر سب سے بڑا کیس کرشنا نند رائے کے قتل کاتھا۔ گواہوں  کے مکر جانے کی وجہ سے دہلی کی عدالت نے مختار انصاری اور ان کے ساتھی ملزمین کو جولائی ۲۰۱۹ء میں   بری کر دیاتھا مگر بری ہونے والے ۷؍ ملزمین میں  سے ۴؍ کی موت ہو چکی ہے۔ منا بجرنگی کو ۲۰۱۸ء میں  باغپت جیل میں  قتل کردیاگیا، راکیش پانڈے عرف ہنومان کا ۲۰۲۰ء میں  انکاؤنٹر ہوگیا، سنجیو جیون نامی ملزم کو لکھنؤ کی بھری عدالت میں ۲۰۲۳ء میں  گو لی مار دی گئی اور اب مختار انصاری نے عدالتی تحویل میں   جمعرات کو آخری سانس لی۔ بادی النظر میں   یہ ’’ماورائے عدالت انصاف‘‘ کی کوشش نظر آتی ہے۔ 
  اس پس منظر میں  مختار انصاری کا وہ خط اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے جو انہوں نے ۲۱؍ مارچ کو عدالت کو لکھاتھا۔ اس خط میں  انہوں  نے یوپی کی جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں  کے قتل کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے بطور خاص منا بجرنگی کے قتل کا ذکر کیا اور اندیشہ ظاہر کیا کہ انہیں  بھی مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کورٹ کو آگاہ کیا کہ ۱۹؍ مارچ کو کھانا کھانے کے بعد اچانک ان کی طبیعت بگڑ گئی، انہیں الٹی ہوئی اور جسم کی تمام نسوں میں کھنچاؤ اور درد شروع ہوگیا۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ انہیں  کھانے میں زہر دیا گیاہے۔ انہوں نے اپنےخط میں لکھاتھا کہ ’’کھانا کھاتے ہی میرے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے اور ایسا لگا کہ میں مرنے والا ہوں، مجھے شدید بے چینی محسوس ہورہی تھی، اس (کھانا کھانے) سے پہلے میری صحت پوری طرح ٹھیک تھی۔ ‘‘ انہوں نے اس خط میں یہ الزام بھی لگایاتھا کہ اس سے پہلے بھی ۴۰؍ دنوں میں انہیں ۲؍ مرتبہ زہر دینے کی کوشش کی گئی۔ ’سلو پوائزن‘ کے ثبوت کے طور پر انہوں نے کورٹ کو اپنے مکتوب میں یہ بھی بتایا تھا کہ مذکورہ زہر خورانی کی وجہ سے وہ شخص بھی بیمار ہوا اور اسے علاج کی ضرورت پیش آئی جو جیل مینوئل کے تحت انہیں دیا جانے والا کھانا اُن سے پہلے چکھتا ہے۔ انہوں  نے عدالت سے معاملے کی جانچ کے ساتھ ہی اپنے علاج کیلئے میڈیکل بورڈ بنانے کی مانگ کی تھی۔ مختار انصاری کے مذکورہ خط کو پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ انہیں یقین تھا کہ جیل میں انہیں  مار دیا جائےگا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’جیل میں میری جان کو خطرہ بڑھ گیاہے، میرے ساتھ کبھی بھی کوئی انہونی ہوسکتی ہے۔ ‘‘ اس مکتوب کا نوٹس لیتے ہوئے کورٹ نے جیل سپرنٹنڈنٹ سے مختار انصاری کی صحت کی تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی اور ان کے علاج کا مناسب بندوبست کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ اس سے ایک سال قبل مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری اپنی اس التجا کے ساتھ سپریم کورٹ تک پہنچے تھے کہ ان کے والد کو جیل میں قتل کرنے کی سازش رچی جارہی ہے۔ انہوں نے براہ راست ریاستی حکومت پر اس کا الزام عائد کیاتھا۔ 
خبروں سے جو تاثر مل رہا ہے وہ یہ ہے کہ ۱۹؍ مارچ کے واقعہ کے بعد سے مختار انصاری کی صحت تیزی سے رو بہ زوال رہی۔ موت سے دو روز قبل پیٹ درد کی وجہ سے انہیں اسپتال داخل کیاگیا مگر ۱۲؍ گھنٹوں میں ہی دوبارہ جیل بھیج دیاگیا۔ اس دوران ایک طرف جہاں ان کے بیٹے تک کو ان سے ملنے نہیں دیاگیا وہیں دوسری طرف ان کے علاج کیلئے تشکیل دی گئی ڈاکٹروں کی ٹیم پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس کی قیادت ایک سرجن کو دی گئی تھی جبکہ یہ سرجری کا معاملہ نہیں تھا۔ اسی طرح جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے انہیں  قبض اور دیگر شکایتیں ہو گئی تھیں جبکہ ان کے بیٹے سے ہونے والی ان کی آخری بات چیت میں سنا جاسکتاہے کہ ان کی حالت اتنی خراب ہوگئی تھی کہ وہ کئی دنوں سے روزہ نہیں رکھ پارہے تھے، ان سے چلا نہیں  جاپارہاتھا، اسی لئے وہ مقدمہ کی شنوائی کیلئے جیل میں ہی واقع ویڈیو کانفرنسنگ روم تک نہیں جاسکے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو نہ صرف جیل حکام اور یوگی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں بلکہ ملک کے نظام عدل پر بھی بدنما داغ ہیں۔ یہ داغ اسی وقت دھل سکتاہے جب شکوک وشبہات کو دور کیا جائے۔ مختار انصاری کے اہل خانہ نے اگر پوسٹ مارٹم ایمس سے کروانے کی مانگ کی تھی تواسے تسلیم کیا جانا چاہئے تھا۔ الہ آباد میڈیکل کالج کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں حالانکہ تصدیق کردی گئی ہے کہ موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہے مگر موت سے قبل کے واقعات اور جیل حکام کا رویہ ان سوالات کو تقویت دیتا ہے جو اٹھائے جارہے ہیں اور ایسے میں یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ کیا عدالتی تحویل میں بھی ملزم محفوظ نہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK