• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بچپن میں کوئی طالب علم اسکول سےغیر حاضررہتا تو اُستاد اُس کے گھرجاکر ناغہ کی وجہ معلوم کرتےتھے

Updated: March 17, 2024, 11:19 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

پائیدھونی کے ۷۸؍ سالہ عبدالرزاق منیار اس عمر میں بھی فعال ہیں، وہ ہر جمعہ کوعلی عمراسٹریٹ کی ۲؍عمارتوں کےدرمیان کھلی جگہ پر رات میں ۸؍ سے ۱۲؍بجے تک مشہوروکیل فرحانہ شاہ کے ساتھ لوگوں کے مسائل حل کرنےمیں ان کے ساتھ تعاون کرتےہیں۔

Abdul Razzaq Muniyar alias Babu Bhai. Photo: INN
عبدالرزاق منیار عرف بابو بھائی۔ تصویر : آئی این این

ممبئی کے مسلمانوں میں پائیدھونیکیمعروف سماجی شخصیت عبدالرزاق منیار عرف بابو بھائی کافی مقبول ہیں۔ ان کی سماجی، سیاسی، معاشی اورملّی خدمات کی فہرست کافی طویل ہے۔ گزشتہ دنوں ایک شناسا نے فو ن کر کے کالم نگار کی توجہ بابوبھائی کی جانب متوجہ کرائی۔ انہوں نےبتایاکہ بابو بھائی کی عمر بھی گوشہ ٔ بزرگاں کے کالم میں شامل ہونے کے برابر پہنچ چکی ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے بابوبھائی کا موبائل نمبر بھی ارسال فرمایا۔ اس موبائل نمبر پررابطہ کرکے ان سے ملاقات کاوقت مقررہوا۔ انہوں نے کہاکہ اتوار۱۰؍مارچ کو عصرکی نماز کھتری مسجد، پائیدھونی میں پڑھیں، وہیں ملاقات ہوجائے گی۔ مقررہ وقت پر مذکورہ مسجد میں نماز ادا کرنےکےبعد ہم دونوں مسجد کےسامنے واقع ایک دکان کےقریب بیٹھ گئے۔ رسمی گفتگو کے بعد اُن سے تقریباً ایک گھنٹہ تک ہونےوالی تفصیلی بات چیت کئی دہائیوں کی یادوں پر مشتمل رہی۔
 باپو کھوٹے اسٹریٹ، پائیدھونی کی آکولہ بلڈنگ میں رہائش پزیر عبدالرزاق عبدالقادر منیار یکم اگست ۱۹۴۵ء کوپیداہوئے۔بھنڈی بازار کے میونسپل اُردو اسکول سے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ بعد ازیں عملی زندگی کاآغاز ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے کیا۔ والد کے انتقال کےبعد ان کےپلاسٹک کے گجرے کے کاروبار کی باگ ڈور انہوں نے سنبھالی۔ معاشی مصروفیت کےساتھ ہی سماجی اورملّی سرگرمیوں میں بھی شروع ہی سے پیش پیش رہنے کاشوق رہا۔ اسی مقصد کے تحت ۱۹۸۶ءمیں پبلک کمپلینٹ سینٹرکی بنیاد ڈالی۔ اس کے ذریعے ازدواجی مسائل حل کرنے کی ایک مہم کا آغاز کیا جو گزشتہ ۳۷؍سال سے جاری ہے۔ پیرانہ سالی میں بھی ہرجمعہ کو علی عمر اسٹریٹ کی ۲؍عمارتوں کےدرمیان کھلے آسمان کے نیچے رات میں ۸؍تا ۱۲؍بجے مشہوروکیل فرحانہ شاہ کی موجودگی میں لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کرتےہیں۔
 معروف سماجی شخصیت علی ایم شمسی نے بابوبھائی کو اسکول میں پڑھایا ہے۔بابوبھائی بچپن میں کافی شریر تھے، اسلئے اکثر اسکول میں بھی غیر حاضر رہتےتھے۔ اس کی وجہ سے ان کے اُستاد علی ایم شمسی اکثر ان کے گھر جاکر اسکول سے غیر حاضررہنےکی وجہ دریافت کرتےتھے۔ ایک مرتبہ ۴۔۳؍ دنوں تک اسکول سے غیر حاضر رہنے پر علی ایم شمسی کے خوف سے بابوبھائی سرپر فرضی پٹی باندھ کر اسکول پہنچے، سرپرپٹی دیکھ کر علی ایم شمسی نے پٹی لگانے کی وجہ دریافت کی۔ چوٹ لگنے کا عذر پیش کر کے بابوبھائی نے خود کو اس دن ماراور ڈانٹ کھانے سے بچالیالیکن اگلے دن بغیر پٹی باندھے اسکول پہنچنے پر انہوں نے ان کی جو خبرلی تھی، وہ انہیں آج بھی یاد ہے۔ بابوبھائی کے مطابق ایسے مشفق اُستاد اس دور میں کہاں ملتے ہیں۔انہیں تاحیات فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’میری گڑیا اور میری سہیلی کے گڈے کی شادی میں محلے والوں نے شرکت کی تھی‘‘

الیکشن کمشنر ٹی این سیشن کےدور میں رائے دہندگان کو شہریت ثابت کرنےکاحکم جاری کیا گیاتھا۔اس کی وجہ سے پورے شہر میں افراتفری کا ماحول تھا۔ مسلما ن مردو خواتین بڑے پریشان تھے۔ پولیس اسٹیشنوں پر شہریت کی جانچ کیلئے کیمپ لگائے گئے تھے۔ پائیدھونی پولیس اسٹیشن پر مسلم باریش مردوں اور برقع پوش خواتین کی بھیڑ جمع ہوتی تھی۔ انہیں دیکھ کر عبدالرزاق منیار نے پائیدھونی پولیس اسٹیشن کے سینئر انسپکٹر سے اپیل کی تھی کہ پولیس اسٹیشن میں جرائم پیشہ افراد آتے ہیں، ایسےماحول میں ہمارے گھروں کی خواتین اور بزرگوں کیلئے بڑا مسئلہ ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیں یہ کیمپ گھانچی جماعت خانے ( بنیان اسٹریٹ ) میں لگانے کی اجازت دی جائے۔پولیس کی اجازت پر گھانچی جماعت خانے میں کیمپ لگانے سے مسلمانوں کو کچھ راحت ملی تھی۔ ساتھ ہی اس معاملے میں عبدالرزاق منیار نے اپنے وکیل بھرت جوشی سے صلاح مشورہ کیاتھا جنہوں نے کہا تھا کہ جنہیں بھی پولیس کی نوٹس آتی ہے وہ صاف کہہ دیں کہ شہریت کی جانچ کا کام وزارت خارجہ کا ہے، پولیس اس میں مداخلت نہ کرے۔اس طرح مسلمانوں میں خوداعتمادی پیدا کی گئی تھی۔
  ۶۰ء کی دہائی میں پاکستان سے ہونےوالی جنگ کےدوران محکمہ سول ڈیفنس نے ممبئی کے گلی محلوں میں سول ڈیفنس کا دفتر قائم کرکے مقامی سماجی رضاکاروں کو علاقے میں امن وامان قائم رکھنے اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ان میں عبدالرزاق منیاربھی شامل تھے۔ پائیدھونی میں سیفی اسکول کے نیچے سول ڈیفنس کا دفتر تھا۔جہاں سے پولیس کی رہنمائی میں سماجی رضاکاروں کو ذمہ داری سونپی جاتی۔اس کے ساتھ ہی پولیس والے انہیں تربیت بھی دیتےتھے۔ عبدالرزاق منیار کو محمدعلی روڈ، بھنڈی بازار اور پائیدھونی وغیرہ کے علاقوں کی ذمہ داری دی گئی تھی۔وہ ہاتھ میں چھڑی اور ٹارچ لے کر رات بھر ڈیوٹی دیاکرتےتھے۔جن گھروں میں روشنی دکھائی دیتی، ان گھروں کے کواڑ پر دستک دے کر بتی بند کرنے کی ہدایت دینے کےعلاوہ حکومت کی طرف سے دی جانےوالی ہدایت پر عمل کرنےکی تلقین کرتےتھے۔
 بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فساد کےدوران امن کے قیام کیلئے پولیس نے ایک پیس کمیٹی قائم کی تھی۔ پائیدھونی کی پیس کمیٹی میں عبدالرزاق منیار شامل تھے۔ انہیں دنوں کرفیو میں ایک دن پائیدھونی پولیس اسٹیشن سے وہ بنیان اسٹریٹ کی طرف جارہےتھے۔اسی دوران ایک نئے پولیس انسپکٹر نے انہیں دیکھ کر یوں ہی چلا کر کہا، گولی مت چلائو، گولی مت چلائو، یہ کہہ کر وہ عبدالرزاق منیار کو ڈرانےکی کوشش کر رہاتھا۔ بعدازیں پولیس انسپکٹر نے قریب آکر کہا کہ کرفیومیں باہر کیوں نکلاہے؟ عبدالرزاق منیار نے اسے کرفیو پاس دکھایا، پھر بھی اس کے لہجے میں بدتمیزی برقرار رہی۔ پولیس افسر کی بداخلاقی سے دلبرداشتہ ہوکر وہ سیفی اسکول ( پائیدھونی ) کےقریب پہنچے ہی تھے کہ مقابل سمت سے آتی ہوئی پولیس وین سے ایک پولیس اہلکار نے عبدالرزاق کی جانب نشانہ تان کر گولی چلادی۔ وہیں اپنے گھر کی کھڑکی کےپاس کھڑے سماجی کارکن ابراہیم طائی، زور زور سے چلانے لگے کہ بابو بھاگ پولیس گولی چلا رہی ہے۔ ان کی آوازپر کسی طرح بھاگ کر بابو بھائی نے گھوگھاری محلہ کی ایک عمارت میں پناہ لی تھی۔ کچھ دنوں بعد پائیدھونی پولیس اسٹیشن میں پیس کمیٹی کی میٹنگ میں اُس وقت کے وزیر داخلہ ولاس رائو دیشمکھ آئے تھے۔ میٹنگ میں عبدالرزاق نے اپنا کرفیو پاس دیشمکھ کی جانب پھینکتےہوئے کہاتھا کہ کیا یہ پاس ہمیں مارنےکیلئے دیا گیاہے۔ ولاس رائو دیشمکھ نے ان سے اس غصے کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے پورا واقعہ بتایا۔ اس کےبعد انہوں نے معاملہ کی تفتیش کایقین دلایاتھا۔
  تقریباً ۶۰؍ سال قبل کی بات ہے۔ان کی عمر تقریباً ۱۶؍سال ہوگئی تھی۔ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ سڑک پر جا رہےتھے۔ اچانک انہیں ۷۔۶؍ سال کی ایک لڑکی روتی ہوئی دکھائی دی۔ بابوبھائی نے اپنے ساتھی سے کہاکہ یہ لڑکی راستہ بھول گئی ہے، اسلئےپریشان ہے۔ چل ہم لوگ اس سے معلوم کرکےاسے پولیس اسٹیشن پہنچا دیتے ہیں۔ ان کے دوست نے کہاکہ میں پولیس کے چکر میں نہیں پڑنے والا۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ بابوبھائی اس لڑکی کو لےکر پائیدھونی پولیس اسٹیشن پہنچے، ڈیوٹی افسر سے لڑکی کی روداد بیان کی، جس پر پولیس افسر نے بابوبھائی کوہی نشانہ بناتےہوئے کہاکہ ٹھیک ہے تم نے لڑکی کویہاں تکپہنچا دیالیکن اس کےہاتھ میں جو سونے کی چوڑی تھی، وہ کہاں ہے؟ یہ سن کر بابو بھائی دنگ رہ گئے۔ انہوں نے افسر سے کہاکہ اس کےہاتھ میں کوئی چوڑی نہیں تھی جس پرپولیس افسرنے انہیں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے ادھر بیٹھ۔ یہ کہہ کر وہ لڑکی سے پوچھ تاچھ کرنے لگا۔ دوران گفتگو لڑکی نے کہاکہ میرے گھر والے نل بازار میں رہتے ہیں اور میرے والد کی پان کی دکان ہے۔ ۲؍ گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں بٹھانے کےبعد پولیس نے بابو بھائی کو جانے کی اجازت دی۔ بابو بھائی کی انسانیت دیکھئے کہ وہ اتنا کچھ سہنےکےباوجود پولیس اسٹیشن سے نکل کر نل بازار لڑکی کے باپ کا پتہ لگانے پہنچ گئے اور معلوم کرتے ہوئے لڑکی کے والد کی پان کی دکان پر تک پہنچ گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK