• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کالج میں داخلہ، وہاں کا ماحول، چیلنجز اورطلبہ کا پہلا امتحان

Updated: September 04, 2024, 5:46 PM IST | Mubarak Kapdi

ہمارے یہاں بیشترطلبہ اور اُن کے والدین صرف داخلہ کیلنڈر کا خیال رکھتے ہیں۔ امتحان کا نتیجہ جون میں آتا ہے لیکن داخلہ اگست کے آخر تک ہوتا ہے اور ستمبر میں پہلا ششماہی امتحان ہوتا ہے! صرف ۱۵؍دِنوں میں ۶؍پرچوں کی تیاری کا کیا نتیجہ ہوگا، سب جانتے ہیں؟ اکثر بچے کئی کئی پرچوں میں فیل ہوجاتے ہیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ داخلے سے قبل ہی ششماہی امتحان کی تیاری ہوجانی چاہئے۔

In this era of competition, students need to keep an eye on the next exam along with admission. Photo: INN
مسابقت کے اس دور میں طلبہ کو داخلے کے ساتھ ہی اگلے امتحان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تصویر : آئی این این

ہمارے معاشرے کی دوسری (اکثر علاقوں میں پہلی ہی) نسل اعلیٰ تعلیم کی جانب گامزن ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ دوسری قومیں، کون سی تعلیم؟ کیسی تعلیم؟کہاں سے تعلیم؟ تک جب پہنچی تھیں، اُس وقت تک ہم اِسی نقطے پر رُکے ہوئے تھے کہ ’کیوں تعلیم‘۔ خیر اب یہ مرحلہ احسن طریقے سے طے ہوا اور قوم کے نوجوانان اعلیٰ جدید اور نافع تعلیم کی جانب رواں دواں دِکھائی دے رہے ہیں۔ ہم آج اُنہی لاکھوں طلبہ سے مخاطب ہیں :
ہندوستان گائوں میں بستا ہے
فورجی، فائیو جی اور سٹیلائٹ کے دَور میں شہر اور گائوں کا فرق مٹتا جارہا ہے۔ گائوں کے طلبہ کے ہاتھ میں بھی اسمارٹ فون ہے اور روزانہ کا ۲؍جی بی ڈیٹا۔ اس کے باوجود گائوں اور شہر کا ماحول، سوچ و فکر اور زندگی برتنے کے طریقوں میں کافی فرق ہے۔ خصوصاً وہ طلبہ جو گائوں کے ماحول سے نکل کر اپنی امّی ابّا کو چھوڑ کر شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ گائوں کی مٹّی، کھیت کھلیان، جھرنے، پگڈنڈیوں، صبح کے وقت ندی پر پھیلتی چاندی کی چادر، سُرمئی راتوں میں مسکراتا، دمکتااورکبھی تو کھلکھلا تا چاند اور تین چار نسلوں کے گواہ اِملی اور برگد کے درخت اُنھیں یاد آتے ہیں۔ ایک عرصے تک وہ طلبہ اپنے کھوئے ہوئے سرمائے کو یاد کرتے ہیں۔ کچھ اپنے ضعیف ماں باپ کویاد کرکے سنبھل جاتے ہیں، کچھ اندر ہی اندر ٹوٹ جاتے ہیں۔ دل ہی دل میں چیختے اور چلّاتے ہیں : ’’نہیں، یہ میرا گائوں نہیں ہے، یہ میرا اسکول بھی نہیں ہے، اِک عجیب بستی میں آیا ہوں میں۔ یہ نفسا نفسی کی بستی ہے۔ یہ بے اعتنائی، بے مروّتی اور بے وفائی کرنے والوں کی بستی ہے۔ ‘‘ شہر کی دوڑتی بھاگتی بے رحم زندگی کے شور میں اُن کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ 
ہندوستان گائوں میں بستا ہے۔ گائوں کے طلبہ کے احساسات، اُن کو درپیش شہری زندگی کے چیلنجز اور اُن سب کے جملہ اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ طلبہ کم عمری میں اپنا گائوں چھوڑ کر آتے ہیں، اسلئے شہر کے اجنبی ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپاتے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہر چھوٹا بڑا انسان صرف مشین بنا ہوا ہے۔ گائوں سے آئے ہوئے طلبہ کی ایک بڑی اکثریت اسٹوڈنٹس ہوسٹل میں رہتی ہے۔ یہ ہوسٹل اپنے آپ میں ایک کائنات ہوتی ہے۔ مختلف علاقوں سے آئے ہوئے بھانت بھانت کے بچّے، کچھ سنجیدہ رہتے ہیں اور اکثر کالج کی ’ہوا‘ کھانے یا شہر کے سیر سپاٹے کیلئے آتے ہیں اور وہ پڑھاکو اور محنتی طلبہ کو ستاتے ہیں اور کچھ تو اُنھیں بگاڑنے کا پورا بیڑہ اُٹھاتے ہیں۔ اِن حالات میں گائوں سے آئے اُن سنجیدہ اور محنتی طلبہ نے اینٹی ریگنگ قانون کے تحت فوراً شکایت درج کرنی چاہئے جو ایک ہیلپ لائن پر دستیاب ہے اور ذہنی تنائو کا شکار بنانے والے اِن عناصر کو اپنے اوپر ہرگز حاوی ہونے نہیں دینا چاہئے۔ عزیز طلبہ اس کو کالج کی زندگی کا پہلا پریکٹیکل (یا تجربہ) سمجھئے کیونکہ جو طالب علمی کے زمانے میں اسٹوڈنٹس ہوسٹل میں ایڈجسٹ کرتے ہیں، زندگی میں آگے چل کر کسی سے بھی نباہ کرنے میں کوئی دقّت محصوس نہیں کرتے۔ 

یہ بھی پڑھئے:اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کی تکمیل میں آنے والی اصل رُکاوٹوں کا جائزہ لینا ضروری

اسکول کادائرہ، کالج کا سرکل
ہر سال ہمارے لاکھوں طلبہ اُردو اسکولوں سے کالج کی جانب رُخ کرتے ہیں۔ ذریعۂ تعلیم کی تبدیلی ایک مثبت تبدیلی بھی لاسکتی ہے بلکہ اِس سے طالب علم کی شخصیت نِکھربھی سکتی ہے البتہ اگر یاسیت و اضطراب کا شکار ہوں تو میڈیم کی تبدیلی سے طلبہ کی شخصیت بِکھر بھی سکتی ہے۔ اس صورتِ حال کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ اوّل یہ کہ ہمارے اکثر اردو میڈیم اسکولوں میں انگریزی تدریس کا نظم بے حد ناقص ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی زباندانی کا نصاب عموماً بڑا وسیع ہوتا ہے اور اکثر اساتذہ اور اسکولیں نصاب کے اِرد گِرد گھومتے ہیں لہٰذا وہ بول چال کی انگریزی کیلئے کوئی نظم نہیں کرپاتے، اور دوسرا سبب ہے خود طلبہ کے دِلوں میں انگریزی زبان کا بے جاخوف! ہمارے اردو اسکولوں میں انگریزی کا نظم درست کیسے ہو، اس پر بحث پھر کبھی۔ آج بات اس موضوع پر کریں گے کہ اردو میڈیم کے طلبہ کالج میں انگریزی کا مقابلہ کیسے کریں گے؟
(الف) سب سے پہلے اُردو میڈیم کے طلبہ یہ طے کرلیں کہ وہ اپنے اوپر احساسِ کمتری کو آنے نہیں دیں گے۔ زبان چاہے جو بھی ہو وہ صرف ترسیل کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ مانا کہ انگریزی کی افادیت اس سے کچھ بلکہ کہیں زیادہ ہوگئی ہےمگر صرف فرّاٹے سے انگریزی بولنا ذہانت کی دلیل نہیں، نہ ہی وہ کامیابی کی واحد ضمانت ہوسکتی ہے۔ اگر آپ اپنے نصب العین، خود اعتمادی اور لگن میں سنجیدہ ہیں تو انگریزی کے کسی طرح کے خوف کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ 
(ب) انگریزی کا مقابلہ یا اُس میں مہارت، حتّیٰ کہ عبور اس طرح بھی حاصل کرسکتے ہیں کہ آپ بالکل ’درست‘ انگریزی کے بجائے روانی والی انگریزی پر توجہ دیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ زندگی بھر غلط سلط قواعد والی انگریزی بولتے رہیں البتہ آپ زبان تو کھولیں اور غلط یا صحیح انگریزی بولنے کی کوشش تو کیجئے۔ (ج) کسی بھی زبان کو اپنانے کیلئے اُس زبان کے الفاظ کا ذخیرہ آپ کے پاس ہونا ضروری ہے، الفاظ کے ذخیرے کو ڈکشنری کہا جاتا ہے۔ ڈکشنری آپ کی پڑھائی کی میز پر ہونا چاہئے، پہلے ہم اِس کا اصرار کرتے تھے۔ اب تو یہ آپ کے اسمارٹ فون میں ہی موجود ہے۔ تکنیکی سائنس اور کامرس کی اصطلاحات اکثر جوں کے تُوں دی جاتی ہے البتہ الفاظ کے معنی و تعریف بہت حد تک واضح ہوجاتے ہیں۔ ادبی اصطلاحات یا مُحاورے وغیرہ کیلئے گُوگَل پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا، یہاں بہر حال لغت یا ڈکشنری ہی کام آتی ہے۔ (د) سائنس اور کامرس کے شعبے کے طلبہ کیلئے اُن کی اصطلاحات بے حد اہم ہوتی ہیں ، اسلئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ آٹھویں، نویں، دسویں کی کتابوں کوردّی میں نہ بیچیں بلکہ اُن کتابوں کے آخر میں دی گئی اصطلاحات یاد کرلیجئے۔ اساتذہ اِن جماعتوں میں لازمی طور پر اُردو اصطلاحات کا انگریزی ترجمہ قوسین میں لکھ دیں، طلبہ سے یاد کرائیں اور ہفت روزہ ٹیسٹ لیں۔ بظاہر یہ چھوٹی سی خدمت اُردو/انگریزی کی دُوری کو ختم کرے گی۔ اسکول کے دائرے کا کالج میں سرکل اور مربع کا اسکوائر آپ کو گراں نہیں گزرے گا۔ 
پہلا پہلا امتحان، ہائے کیسا یہ سماں ؟
 کئی دہائیوں کا ہمارا مشاہدہ ہے کہ کالج کا پہلا امتحان ہماری قوم کے طلبہ پر گراں گزرتا ہے۔ وجہ؟ سِرے سے کوئی منصوبہ بندی نہ ہونایا ناقص منصوبہ بندی۔ ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ سارے طلبہ اور اُن کے والدین حکومت کے داخلہ کیلنڈر کا انتظار کرتے ہیں اور اُس پر عمل بھی۔ امتحان کا نتیجہ جون مہینے میں ظاہر ہوتا ہے البتہ داخلہ اگست کے آخر تک طے ہوتا ہے اور ستمبر کے پہلے یادوسرے ہفتے میں پہلا ششماہی امتحان! جی ہاں صرف ۱۵؍دِنوں میں ۶؍پرچوں کی تیاری اور پھر نتیجہ؟ تین تا چار مضامین میں بچّے ناکام ہوتے ہیں۔ اس نتیجے کا انجام کیا ہوتا ہے؟
 (الف) رشتہ دار ہنسی مذاق شروع کردیتے ہیں کہ دسویں جماعت میں اس قدر نمایاں کامیابی اور کالج کے پہلے ہی امتحان میں کلین بولڈ؟ نکتہ چیں یہ بھی کہنا شروع کرتے ہیں کہ ایس ایس سی کی نمایاں کامیابی محض اتفاق تھی یا نقل کرکے حاصل کی تھی۔ 
 (ب) وہ طالب علم اب اپنی خوداعتمادی کھونے لگتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ اس تباہ کُن نتیجہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ کالج میں قدم رکھنے کے صرف ۱۵؍دِنوں میں بغیر تیاری کے جو امتحان ہوگا اُس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ 
 (ج)پہلے امتحان میں تین چار مضامین کی ناکامی اُسے کالج کے پورے دَور میں مصیبت بنی رہتی ہے۔ 
دوسری قوموں کے یہاں اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اُن کے یہاں منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ پہلے سمیسٹریا ششماہی امتحان کے سارے مضامین کی تیاری کسی کوچنگ کے ذریعے پوری کرتے ہیں اور پہلے ہی امتحان میں وہ بہترین اور نمایاں ترین کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK