• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اعلیٰ تعلیم کے منصوبوں کی تکمیل میں آنے والی اصل رُکاوٹوں کا جائزہ لینا ضروری

Updated: August 25, 2024, 4:59 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

آج کی تاریخ میں بھی ایسے نوجوان ہیں جو اسمارٹ فون کے غلام نہیں ہیں، دوستوں کی محبت کا شکار نہیں ہوتے اور اپنے ہدف کو یاد رکھتے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہمارے نو جوانوں کو مستقبل کے خواب سجانے میں سب سے بڑی رکاوٹ جو نمایاں طور پر سامنے آرہی ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے والدین کی ایک بڑی اکثریت کے یہاں تعلیم اور حصولِ تعلیم آج بھی کوئی ایشو نہیں ہے، کوئی موضوع نہیں ہے اور اس بناء پر اپنے بچّوں کی حصولِ تعلیم کیلئے وسائل کی کوئی فکر سِرے سے نہیں ہو رہی ہے۔ 
آج ہمارے یہاں تعلیمی وسائل کے ضمن میں بعض والدین کا رویہ یہ ہے :’’کتابیں ایک ٹرسٹ سے ملیں گی، بیاض دوسرے، بستے کے لئے تیسرے ٹرسٹ میں جائیں گے اور فیس کیلئے چوتھے۔ ایک ٹرسٹ تو چھتری بھی دیتا ہے اور دوسرا چپل.....‘‘ جی ہاں ایس ایس سی تک تو تعلیم اس طرح حاصل ہو جائے گی لیکن اُس کے بعد ؟ اعلیٰ تعلیم صرف مہنگی ہی مہنگی ہے۔ اُس کے لئے فکر تو بہر حال کرنی ہی ہے۔ ایس ایس سی تک کی تعلیم ہی کو کوئی منزل سمجھ لینے کی بناء پر اعلیٰ تعلیم کے ضمن میں ہمارے اکثر گھروں میں ذکر و فکر نہیں ہو رہی ہے اور کہیں ہو رہی ہے تو وہ یاسیت و مایوسی سے پُر ہے! 
ہمارے والدین اکثر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر اعلیٰ تعلیم اس قدر مہنگی کیوں ہو گئی ہے؟ ہمارا پہلا سوال اُن سے یہ ہے کہ کیا یہ ظلم صرف مسلمانوں پر ہے۔ مہنگی تعلیم تو سبھوں کے لئے ہے۔ دوسری قو میں اُس کا کیسے مقابلہ کرتی ہیں ؟ ہمیں بھی ویسے ہی کرنا ہے۔ دراصل ہوا یہ کہ جب لگ بھگ سارا ملک سورہا تھا حکومت نے چپکے چپکے یہ پالیسی بنائی:’پے اینڈ لرن‘ یعنی پیسہ بھرو اور پڑھو! حالانکہ اب اس ملک میں جو ۲؍ فیصد تعلیمی ٹیکس ہر شے، ہر سودے اور ہر خرید و فروخت پر عائد ہے اُس سے ملک کے خزانے میں ۷۵؍ ہزار کروڑ روپے سالانہ جمع ہورہے ہیں، اس کے باوجود اعلیٰ تعلیم جو مہنگی ہی مہنگی ہے وہ ’برق صرف بیچارے مسلمانوں ‘پر نہیں گر رہی ہے۔ لہٰذا ہمیں جائزہ لینا ہو گا کہ دوسری قو میں ان معاملات کا کیسے مقابلہ کرتی ہیں۔ 
ہمارے یہاں کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض مائیں ٹرسٹ کے دفتروں میں ہانپتےکا نپتے پہنچ جاتی ہیں اور وہاں کے ذمہ داروں سے کہتی ہیں کہ ’’میرے بیٹے کی ۸۰؍ ہزار روپے کی فیس ادا کرنی ہے۔ کل صبح۱۱؍ بجے تک ادا کرنی ہے ورنہ داخلہ منسوخ ہو جائے گا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ۱۶؍ تا۱۸؍ سال کے آپ کے بیٹا یا بیٹی کی فیس کیلئے آپ صرف ایک دن قبل ہی سنجیدہ ہو گئے؟ آپ کا بچّہ کم از کم آٹھویں /نویں جماعت میں داخل ہوتے ہی آپ کو جاگ جانا چاہئے تھاتا کہ دسویں / بارہویں کے فوراً بعد ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے کی فیس کا انتظام کرنا ہے اُس کا کیا ہوگا ؟

یہ بھی پڑھئے:عزیز طلبہ!کالج کیلئے مثبت سوچ و فکر، ٹھوس منصوبہ بندی اور عزم و ارادے کے ساتھ رخت سفر باندھ لیجئے

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے والدین کی ایک بڑی اکثریت نے دو اصطلاح سُنی ہی نہیں اور وہ ہیں : بجٹ اور بچت۔ جی ہاں، گھروں میں بجٹ کہیں کہیں بنتا بھی ہو گا مگر اُس میں تعلیم کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ بجٹ میں حصولِ تعلیم کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ لڑکیوں کیلئے اگر کہیں بجٹ بنتا ہے تو اُس میں بچپن ہی سے ایک ہی موضوع غالب رہتا ہے کہ اُن کے لئے جہیز کا انتظام کیسے اور کہاں سے کیا جائے گا ؟
بچت کا تو لگ بھگ کوئی تصوّر ہی نہیں ہے ہمارے معاشرے میں ! اس ضمن میں امیری و غریبی کی تعریف ہمارے والدین کو سمجھنی ہوگی۔ اگر کوئی شخص ہر ماہ دس ہزار روپے کما رہا ہے اور وہ پانچ سو روپے بچت کر رہا ہے وہ امیر ہے، اور اگر کوئی شخص پچاس ہزار ماہانہ کمارہا ہے اور ۵۵؍ ہزار خرچ کر رہا ہے وہ غریب ہے۔ لہٰذا ہماری غربت اور کسمپرسی کی بنیادی وجہ شاہ خرچی ہے۔ شادی بیاہ، رسوم و رواج وغیرہ پر فضول خرچ کی بناء پر ہم خوشحالی کی جانب کبھی پیش قدمی نہیں کر پاتے۔ 
اعلیٰ تعلیم دلوانے کے اس عمل میں سب سے کمز ورکڑی پھر سے باپ ہی ثابت ہو رہا ہے۔ ملاحظہ کیجئے:۔ (۱) کچھ والد صاحبان اپنی پوری زندگی میں بس ایک دو سال کیلئے ایک دو بار کسی خلیجی ملک ہو آتے ہیں اور وہاں کمایا ہوا تھوڑے بہت سرمائے کی ایک ایک پائی ختم ہونے تک پھر دوسری کوئی ملازمت کا رُخ نہیں کرتے۔ (۲) کچھ والد صاحبان تو اپنے پُرکھوں کی زمین جائیداد پر ہی گزر بسر کرتے رہتے ہیں۔ اُس جائیداد کے کرائے پر یا پھر اُس کو بیچ کر اپنے اخراجات پورے کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے تو ایسے افراد کو بھی دیکھا ہے جن سے پوچھئے کہ اُنہوں نے زندگی بھر کیا کام کیا؟ وہ ایک ہی جواب دیں گے کہ اُنہوں نے پوری زندگی ایک ہی کام کیا، اُن کے آباء واجداد کی زمین، جائیداد، زیورات، کھیت کھلیان، صندوق، برتن وغیرہ ایک ایک کر بیچ کھائے۔ (۳) ہمارے یہاں کئی بچّوں سے جب خیراتی ادارے وغیرہ میں دریافت کیا جاتا ہے کہ اُن کے والد صاحب کیا کرتے ہیں تو بچّے جواب دیتے ہیں : کچھ نہیں کرتے۔ جی ہاں ۴۰/۴۲؍ سال کے والد بھی کچھ نہیں کرتے۔ یعنی اس عمر میں وہ اپنی ضعیف العمری کا بہانہ کر کے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ (۴) کچھ والد تو۴۵/۵۰؍ سال ہی کی عمر میں جسمانی یا نفسیاتی امراض میں گھر جاتے ہیں اور اپنی بیماری کی فائل سب جگہ لئے پھرتے ہیں کہ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ اپنے بچّوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا پار ہے۔ آخر ہمارے یہاں باپ کے ذہن میں یہ خیال کیوں نہیں آرہا ہے کہ بڑھاپے میں کیا ہو گا جب بیماریوں سے وہ صاحب فراش ہو جائیں گے تب اُن کا اور اُن کے بچّوں کا اور اُن کے مستقبل کا کیا ہو گا، اسلئے عمر کے ۲۵؍تا ۴۰؍ ویں سال تک کا عرصہ نکّڑ، چو پال اور محلوں کی محفلوں کی نذر کر کے زندگی کے آخری پہر نہیں بلکہ دو پہروسہ پہر ہی میں اندھیرا چھا جائے گا !
آج والدین کو یاد یہ رکھنا ہے کہ سماج، سوسائٹی، معاشرہ، حکومت رشتہ دار، پڑوسی اور دوست احباب ان سبھوں سے شکایت و شکوے آخر میں پہلے وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کتنے کھرے ثابت ہو رہے ہیں، ان کا بچہّ صرف ان کا بچہّ نہیں ہے، لہٰذا والدین کو یہ سوچنا ہے کہ ان کی سُستی، کاہلی اور کوتاہی کی بنا پر وہ اپنے بچّوں یعنی سماج وقوم کے سرمائے کا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔ 
اس اندھیارے میں اُن والدین کے سیلوٹ کرنے کو جی کرتا ہے جو بہر صورت زندگی و زمانے کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ والدین صاحبان جو ۸؍ کے بجائے ۱۲۔ ۱۲؍ گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ ٹیکسی، رکشا میں ڈیزل، گیس نہیں، اپنا خون جلا رہے ہیں، خلیجی ممالک جاکر ۴۵۔ ۴۸؍ ڈِگری درجۂ حرارت میں جھلس رہے ہیں، ۴۰۔ ۵۰؍ کلو کپڑے کی گٹھر یاں کندھے پر لادے پھیری والے کا کام کر رہے ہیں تاکہ ان کے بچّے پڑھیں اور ان کی فیس ادا ہو۔ ان ماؤں کو بھی سلام کرنے کو جی چاہتا ہے جو سلائی بُنائی کرتی ہیں حتیٰ کہ کسی گھر میں یا کئی گھروں میں جا جا کر برتن تک مانجھ رہی ہیں تاکہ بچّوں کی کتابوں، بیاضوں کا انتظام ہو سکے۔ 
اس بیدار دنیا میں ایک بڑی تعداد میں ہمارے معاشرے کے نوجوان کریئر کے ضمن میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ وہ ۲۰۔ ۲۵؍سال نہیں اگلے ۵۔ ۶؍سال بعد کہاں ہوں گے اُس کا بھی گمان یا اندازہ نہیں کر سکتےالبتہ واقعی سلام کرنے کو جی کرتا ہے اُن نو جوانوں کو جو (۱) اعلیٰ تعلیم کا اپنا سپنا بہر حال پورا کرنا چاہتے ہیں (۲) جاگ رہے ہیں (۳) چنے پھانک رہے ہیں (۴) بس کی قطار میں کھڑے ہیں اور بس نہ آئے تو پیدل چل پڑتے ہیں۔ (۵) اپنے والدین کی اُمیدوں پر پورا اترتے ہیں (۶) اسمارٹ فون کے غلام نہیں بنے ہیں۔ (۷) دوستوں کی محبت کا شکار نہیں ہوتے۔ (۸) اپنی منزل اپنے ہدف پر ان کی نگاہیں ٹکی رہتی ہیں۔ جی ہاں ایسے نوجوان بھی موجود ہیں اور اسمارٹ فون کے زمانے میں بھی موجود ہیں اور ہر حقیقی کامیابی سے وہ ہمکنار ہو رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK