• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اپنی آخری کتاب میں اے جی نورانی ’’آر ایس ایس‘‘ کے تعلق سے ملک کو آگاہ کرگئے

Updated: September 02, 2024, 4:49 PM IST | Arun Kumar Tripathi | Mumbai

عبدالغفور عبدالمجید نورانی(۲۰۲۴ء-۱۹۳۰ء)نے جاتے جاتے اس ملک کو پیغام دے دیاتھاکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اس ملک کیلئے خطرہ ہے۔ ’’آر ایس ایس : اے مینانس ٹو انڈیا‘‘ان کی آخری اہم تصنیف ہے۔ 

AG Noorani. Photo: INN
اے جی نورانی۔ تصویر : آئی این این

عبدالغفور عبدالمجید نورانی(۲۰۲۴ء-۱۹۳۰ء)نے جاتے جاتے اس ملک کو پیغام دے دیاتھاکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اس ملک کیلئے خطرہ ہے۔ ’’آر ایس ایس : اے مینانس ٹو انڈیا‘‘ان کی آخری اہم تصنیف ہے۔ 
 جمعرات کو۹۳؍ سال کی عمر میں انہوں  نے آخری سانس لی جبکہ اس سے ۴؍ سال قبل جب ان کی عمر ۸۹؍ سال تھی تب ان کی یہ آخری اہم تصنیف لیفٹ ورڈ بُکس نے شائع کی تھی۔ ویسے تو انہوں  نے کافی لکھاہے جس میں  تاریخ اور عصر حاضر میں  ہندوستان کو درپیش آئینی مسائل پر ان کی کم از کم ۱۵؍ اہم کتابیں   موجود ہیں مگر جو کتاب مستقبل کے تعلق سے ہے اور جسے نہ پڑھنا ہندوستانی شہریوں کو مہنگا پڑ سکتاہے وہ یہی یعنی ’’آر ایس ایس : اے مینانس ٹو انڈیا‘‘ ہے۔ کم وبیش ساڑھے ۵؍ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کے علاوہ ان کی دوسری کتابیں  سیکولرازم اور اور ہندوستانی کی مشترکہ وراثت کے موضوع پر مرکوز ہیں لیکن ان موضوعات پر لکھتے ہوئے بھی انہیں  بار بار فرقہ پرستی سے لوہا لینا پڑا۔ اس لئے انہوں   نے نہ فرقہ پرستی کو اپنی تحریروں  میں  نظر انداز کیا نہ ہی ایمرجنسی جیسے اہم موضوع کو فراموش کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:آہ اے جی نورانی!

ان کی اہم تصانیف میں  ’’دی آر ایس ایس اینڈ بی جےپی‘‘، ’’اے ڈیویژن آف لیبر‘‘، ’’ساورکر اینڈ ہندوتوا‘‘، ’’دی بابری مسجد کوئشچن :۲۰۰۳-۱۵۲۸)، ’’اے میٹر آف نیشنل آنر‘‘(دو جلدوں  میں )، ’’اسلام اینڈ جہاد: پریجوڈائس اینڈ ریالیٹی‘‘، ’’ ٹرائل آف بھگت سنگھ: پولیٹکس آف جسٹس‘‘، ’’کانسٹی ٹیوشنل کوویسچنس اینڈ سٹیزنس رائٹس‘‘، ’’انڈین پالیٹکل ٹرایلس ۱۷۷۵-۱۹۴۷‘‘، انڈیا چائنا باؤنڈری پرابلم: ۱۸۴۶-۱۹۴۷‘‘، ’’ہسٹری اینڈ ڈپلومیسی‘‘، ’’جناح اینڈ تلک: کامریڈس ان فریڈم اسٹرگل‘‘، ’’آرٹیکل ۳۷۰: اے کانسٹی ٹیوشنل ہسٹری آف جموں اینڈ کشمیر‘‘، ’’ڈسٹرکشن آف حیدرآباد‘‘، ’’ ڈسٹرکشن آف بابری مسجد: اے نیشنل ڈِس آنر‘‘ اور’’اسلام ساوتھ ایشیا اینڈ کولڈ وار ‘‘جیسی اہم کتابیں  شامل ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمہ کی تنصیب میں ہونے والی بدعنوانی اور اس پر مہاراشٹر حکومت کی لیپاپوتی

اس میں  کوئی شک نہیں  کہ ان کتابوں  میں  بہت سے حقائق اور نظریات کی تکرار موجود ہوگی لیکن ایک بات تو صاف ہے کہ بامبے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک جم کر وکالت کرنےوالے وکیل اے جی نورانی کا اتنا انتھک، دلائل پر مشتمل اور تحقیقی کام اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جمہوریت اور نظریہ ہندوستان سے گہری محبت رکھتے اور وکالت اور تحریر دونوں کے ذریعے ان کے تئیں  اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھانے کی کوشش کی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اتنی طویل عمر پائی اس لئے اتنا لکھ سکے مگر اس کے برعکس اگر مارکیز کو یاد کر لیں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اتنا لکھتے پڑھتے تھے اس لئے اتنی طویل زندگی پائی۔ مارکیزکہتے ہیں کہ ہمارے سپنے اس لئے نہیں  چھوٹ جاتے کہ ہم بوڑھے ہوجاتے ہیں بلکہ ہم بوڑھے اس لئے ہوجاتے ہیں کہ ہم خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ 
 اے جی نورانی کی وکالت اور صحافت دونوں  اعلیٰ درجے کی تھی اس لئے کمرہ عدالت سے لے کر دی انڈین ایکسپریس، فرنٹ لائن، ڈان، دی ہندوستان ٹائمز اور دی اسٹیٹس مین کے صفحات تک کہیں  ان کی آواز گرجتی تھی تو کہیں  ان کی تحریریں   بولتی تھیں۔ آر ایس ایس پرلکھی گئی اپنی کتاب کیلئے انہوں  نے زمینی تحقیق نہیں کی تھی اوراس کا اعتراف انہوں  نے کتاب کی تمہید میں   کیا ہے۔ اس کے باوجود ان کی اس کتاب میں بہت سے دستاویز کا احاطہ کیاگیاہے اور ان کے مبنی بر حقیقت ہونے میں  کوئی دورائے نہیں ہے۔ ۲۵؍ ابواب پر مشتمل اس کتاب کے آخر میں تقریباً ۱۰۰؍صفحات حوالہ جات پر منحصر ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK