• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اے آئی طبی شعبے میں انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ

Updated: January 31, 2025, 7:50 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

ماہرین کو امید ہے کہ اس کی مدد امراض کی تشخیص کے محاذ پرغیر معمولی تبدیلیاں لاسکتی ہے اور بروقت تشخیص کےبعد بیماری کے بہتر علاج کی امید بڑھ جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیٹا کا تجزیہ کرکے بیماریوں کی علامات کا پہلے ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے

With the `Breath Free Bamboo Spine` developed by J.Veer Kochharpani. Photo: INN
جے ویر کوچراپنی تیار کردہ ’بریتھ فری بامبو اسپائن‘ کے ساتھ۔۔ تصویر: آئی این این

سانتاکروز کے آر این پودار انٹرنیشنل اسکول کی طالبہ۱۷؍ سالہ راہی شاہ کی دادی کولہے کی ہڈی کی تبدیلی کے آپریشن کے بعد چل تو لیتی ہیں مگر ڈاکٹروں  کوکھل کر یہ نہیں  بتا پاتی تھیں  کہ آپریشن کےبعد انہیں  کتنا آرام ہے اور کس طرح کی تکلیف ہو رہی ہے۔ یہی بات ان کے ساتھی طالب علم ہردئے بوری والا نے اپنے دادا کے گھٹنوں  کے آپریشن کےبعد محسوس کی۔ نئی نسل ہر مسئلے کا حل جدید تکنیک میں  تلاش کرتی ہے۔ اسی کوشش نے راہی شاہ اور ہردئے بوری والا کو ’واک فِٹ‘ کا موجد بنادیا۔ مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس) کی مدد سے تیا ر کی گئی ’واک فِٹ‘ دیکھنے میں   عام سی چھڑی معلوم ہوتی ہے مگر اس میں  لگے پریشر سنسر ڈاکٹروں کو یہ سمجھے میں  مدد کرتے ہیں کہ اسے استعمال کرنےوالوں کو چلنے میں  جسم کے کس حصے میں  دشواری پیش آرہی ہے۔ یہ حرکات وسکنات، دباؤ اور توازن پر نظر رکھ کر اسے کمپیوٹر اسکرین پر پیش کردیتا ہے جس سے ڈاکٹروں  کیلئے مریض سے بہت زیادہ استفسار کئے بغیر حقیقی صورتحال کو سمجھ لینا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح  جے ویر کوچر نے بھی اپنی دادی اور چاچا کی بیماری کودیکھتے ہوئے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کی مدد سے ’’بریتھ فری بامبو اسپائن‘‘ نام کا ایک ایسا آلہ بنا لیا ہے جو گٹھیا کی ایک مخصوص اور ناقابل علاج قسم کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں  ہی کرلیتی ہے۔ 

 : ہردئے بوری والا اپنے دادا کے ساتھ ’واک  فٹ‘ لے کر چل رہے ہیں۔ تصویر: آئی این این

مصنوعی ذہانت گزشتہ چند برسوں میں مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنی ہے۔ شعبہ طب اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ماہرین کو امید ہے کہ اس کی مدد امراض کی تشخیص کے محاذ پر غیر معمولی تبدیلیاں  لاسکتی ہے  اور بروقت تشخیص کےبعد بیماری کے بہتر علاج کی امید بڑھ جاتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ڈیٹا کا تجزیہ کرکے بیماریوں کی علامات کا پہلے ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ مثال کے طور پر کینسر جیسی مہلک بیماریوں کی تشخیص کیلئے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس پر مبنی سافٹ ویئر استعمال کیا جانے لگا ہے جو ایکسرے، ایم آر آئی، اور سی ٹی اسکین کی تصاویر کا تجزیہ کرکے ابتدائی مرحلے میں ہی بیماری کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ راہی شاہ، ہردئے بوری والا اور جے ویر کوچر کے کارنامے اسی جانب اہم پیش رفت ہیں۔ 
  مشہور کہاوت ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ راہی شاہ اور ہردئے کے ذریعہ تیار کیاگیا ’’واک فٹ‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ اس تک پہنچنے کی تفصیل راہی یوں   بیان کرتی ہیں  کہ ’’ہم دونوں کے دادا دادی چلنے میں  دشواری کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل آپریشن کے عمل سے گزرے تھے۔ میری دادی کی کولہے کی ہڈی بدلی گئی ہے جبکہ ہردئے کے دادا کے گھٹنےکی کٹوری تبدیل ہوئی ہے۔ ‘‘ ہردے اور راہی  نے محسوس کیا کہ معمر افراد اپنی پریشانی کو ٹھیک طرح سے بیان کرنے میں  دشواری محسوس کرتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ تکلّفاً اپنی تکلیف بیان ہی نہیں  کرتے۔ راہی اور ہردئے چونکہ اسکول کے ساتھ ہی ولے پارے کے ایک ادارہ میں خود کو کوڈنگ اور روبوٹکس کے رموز سے بھی واقف کرارہے ہیں اس لئے انہوں نے اپنی دادیوں   کے اس مسئلے کے حل کیلئے تکنالوجی سے رجوع کیا اور خود کچھ کرنے کی ٹھانی۔ وہ اسکول میں  حیاتیات کےپیریڈ میں  یہ پڑھ چکے تھے کہ ہم جب ایک قدم چلتے ہیں توہمارے جسم میں  ہڈیوں  کو آپس میں  جوڑے رکھنےوالے۲۰۰؍ عضلات بیک وقت ہم آہنگی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اسی نے ان کے ذہن میں  کوئی ایسا آلہ بنانےکا خیال پیدا کیا جو چلتے وقت جسم کی ہرکات وسکنات کو مانیٹر کرے۔ 
  واک فٹ بنا لینے کے بعد انہوں  نے ڈاکٹر انوکھی شاہ سے رابطہ کیاجس نے اپنے ۵۰؍ مریضوں پر بھی اس کا تجربہ کیا۔ اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کے تعلق سے وہ بتاتی ہیں  کہ چلتے وقت چھڑی پر کس جانب زیادہ دباؤ پڑ رہاہے، اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کسی شخص کو کہاں  تکلیف ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کوکولہے میں  تکلیف ہوگی تو چلتے وقت وہ آگے کی طرف جھک جائےگا۔ اس لئے اگرچھڑی پر دباؤآگے کی طرف زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ شخص کو پیٹھ کے نچلے حصے میں  تکلیف ہے۔ واک فٹ نے کئی امکانات پیدا کردیئے ہیں۔ ماہرین کی توجہ بھی اس کی جانب مبذول ہورہی ہے۔ آئی آئی ٹی ٹیک فیسٹ اور روبوٹکس اولمپیاڈ ۲۰۲۳ء میں  اس کی نمائش بھی ہوچکی ہے۔ ہردئے اور راہی جو آرٹی فیشیل انٹیلی جنس اور مشین لرننگ سے بخوبی واقف ہیں، اپنی ان صلاحیتوں کا استعمال کرکے اسے اور بھی بہتر بنانے اور اس کیلئے باقاعدایپ بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ 
 ’’بریتھ فری بامبو اسپائن‘‘ کے موجد جے ویر کوچرکی کہانی بھی بہت زیادہ مختلف نہیں  ہے۔ ان کی دادی اور چاچا گٹھیا کی مخصوص قسم ’’اینکی لاجنگ اسپانڈیلائٹس ‘‘سے متاثر ہیں   جو جین میں  کسی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے موروثی بھی ہے۔ اس میں   ریڑھ کی ہڈی اور جوڑوں   میں  سوجن جس کی وجہ سے پیٹھ، پسلیوں  اور گردن میں  اکڑن کے ساتھ شدید درد ہوتا ہے۔ عنفوان شباب کے وقت ہی یعنی ۲۰؍ سال کی عمر کے آس پاس ہی جسم کو متاثر کرنے والی یہ بیماری چونکہ لاعلاج ہےاس لئے اس کا واحد حل یہ ہے کہ اس کی تشخص بروقت ہوجائے۔ خون میں  ایک مخصوص قسم کی جین کی موجودگی کی تصدیق سے اس کی تشخیص ہوتی ہے۔ اول تو یہ جانچ بہت مہنگی ہے دوم ملک کے ہر حصے میں  اس کی سہولت بھی موجود نہیں  ہے۔ جے ویر کوچرکے مطابق اکثر لوگ جانچ سے ڈرتے ہیں  اس لئے علامات کو اس وقت تک نظر انداز کرتے رہتے ہیں جب تک کہ ناگزیر نہ ہوجائے۔

 ۱۱؍ ویں  جماعت کے طالب علم کوچرکو ریاضی میں  خاص دلچسپی ہے اور وہ ۴؍ سال کی عمر سے وہ کوڈِنگ سیکھ رہے ہیں۔ اپنے گھر میں  اس موروثی بیماری نے انہیں  متوجہ کیا اور انہوں   نے بھی پروگرامنگ اور علم ریاضی کی مدد سےکوئی حل نکالنے کی کوشش شروع کردی۔ کوچر کے مطابق اس سے پہلے کہ بیماری پوری طرح حاوی ہوگئی ہے، اس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہے جنہیں  سانس لینے کے پیٹرن میں  آنےوالی تبدیلی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ عضلات اور ہڈیوں  کی بیماری کے ماہر ڈاکٹر امیت جوشی سے جو معلومات ملی اس سے انہیں  پتہ چلا کہ اگر آپ ’’اینکی لاجنگ اسپانڈیلائٹس ‘‘ سے متاثر ہیں  توآپ کا سینہ اُتنا نہیں  پھولتا جتنا اسے پھولنا چاہئے۔ آپ کو سانس لینے میں  دشواری ہوتی ہےیا پھر آپ ریڑھ کی ہڈی میں  سوجن یا جکڑن کی وجہ سے سیدھے بیٹھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ا س معلومات نے کوچر کے دل میں  تکنیک کی مددسے کچھ ایسا تیار کرنے کا داعیہ پیدا کیا جس سے سانس لینے کے پیٹرن میں  تبدیلی پر نظر رکھ کر وقت سے پہلے یا بروقت مرض کی تشخیص کرلی جائے۔ ڈاکٹر جوشی سے مشورہ کرنے پر انہوں  نےیہ کہہ کر ہمت افزائی کی کہ عام طور پر مرض کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہےاگر ہم سانس لینے کےدوران  سینے کے پھولنے کی کیفیت میں  آنےوالی تبدیلیوں  کے تعلق سے پہلے ہی جان جائیں  تو وقت سے پہلے الرٹ ہوکر مرض سے بہتر انداز میں نمٹ سکتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں ’’بریتھ فری بامبو اسپائن‘‘ کا وجود عمل میں  آیا۔ اس میں  ۵؍ سینسر بٹن ہوتے ہیں  جو سینےکے پٹھوں پر، پسلیوں پر، صدری ہڈی اور ریڑھ کی ہڈی  پر چسپاں  کردیئے جاتے ہیں۔ اس سے ہوتا یہ ہے کہ سانس لیتے وقت سینے کے اندرونی حصے میں  آنے والے اُتار چڑھاؤ سے متعلق معلومات کویہ سینسر بٹن کمپیوٹر پر منتقل کردیتے ہیں  اور اس طرح ان کا تجزیہ کرکے ڈاکٹر آسانی سے مرض کے آثار کا پتہ لگا کر پیشگی اقدامات کرسکتے ہیں۔ 
  اس طرح اے آئی نہ صرف مرض کی پیشگی تشخیص میں معاون ثابت ہورہا ہے بلکہ اس کی مدد سے مرض کی فوری اور درست تشخیص کی امید بھی بڑھ گئی ہے۔ اس پس منظر میں  امریکہ کی ’یو سی سین فرانسسکو‘یونیورسٹی دنیا کی اولین یونیورسٹیوں   میں  شامل ہوگئی ہے جس نے میڈیکل اِمیجنگ( ایم آر آئی، سی ٹی اسکین اوراس طرح کی دیگر جانچ)کو آرٹی فیشیل انٹیلی جنسی اور مشین لرننگ سے جوڑ دیا ہے اوراس کیلئے ’’سینٹر فار انٹیلی جنٹ اِمیجنگ‘‘ کے نام سے نیا محکمہ قائم کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے امریکہ میں  پھیپھڑوں  کی بیماریوں  کی پیشگی اور بروقت تشخیص میں  مدد مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایم آر آئی وغیر کی کوالیٹی بھی اے آئی کی مدد سے غیر معمولی طور پر بہتر ہورہی ہے جو دماغ جیسے انتہائی پیچیدہ حصے کے امراض کی تشخیص میں  بطور خاص معاون ثابت ہورہی ہے۔ ایک بڑی اہم پیش رفت امراض قلب کے معاملوں  کی جانچ میں  ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اب تک دل کے بلاک ہونے کا شبہ ہونے پرجانچ کیلئے انجیوگرافی کرنی پڑتی ہے جس کا طریقہ کار ہم سب جانتے ہیں مگر اے آئی کی مدد سے انجیوگرام ویڈیو کے ذریعہ یعنی نس میں  کچھ داخل کئے بغیر اس طرح  کی جانچ کو ممکن بنایا جارہاہے۔ ایسے کئی اہم امراض ہیں  جن کی جانچ ا ور تشخیص آسان ہورہی ہے۔ اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ اے آئی طبی شعبے میں  انقلابی تبدیلیوں  کا پیش خیمہ بنے گی۔ 
(بہ تعاون : شری رام ایّنگر)

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK