یہ نتائج اس بات کا بھی اشاریہ ہیں کہ عالمی چودھراہٹ کےچکر میں امریکی حکومتیں جس طرح خانگی مسائل کو نظر انداز کررہی ہیںعوام اب اسےبرداشت نہیں کریں گے۔
EPAPER
Updated: November 10, 2024, 1:08 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
یہ نتائج اس بات کا بھی اشاریہ ہیں کہ عالمی چودھراہٹ کےچکر میں امریکی حکومتیں جس طرح خانگی مسائل کو نظر انداز کررہی ہیںعوام اب اسےبرداشت نہیں کریں گے۔
ڈونالڈٹرمپ بالآخر جیت گئے۔ وہ شخص جس پر الزام ہے کہ ۲۰۲۰ء میں صدارتی الیکشن ہارنے کے بعد اس نے نتائج کو پلٹنے کی کوشش کی اورا س کیلئے سازش رچی، جس نے اپنے حامیوں کو بغاوت پر اُکسایا، جو اپنی ہار کے بعد بھی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھا، جس کے حامیوں نے کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا اور جس پر ملک کی کئی خفیہ دستاویز اپنے ساتھ لے جانے کا الزام تھا، اب امریکہ کا ۴۷؍ واں صدر منتخب کرلیا گیاہے۔ نیو یارک ٹائمز نے اپنے ایک تجزیہ میں نشاندہی کی ہے کہ یہ امریکہ کی ۲۵۰؍ سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب عوام نے کسی ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ کو مسند صدارت پر بیٹھا دیا ہے۔ عدالت میں ان پر جو الزامات ثابت ہوئے ہیں ان میں ۲۰۱۶ءکے صدارتی الیکشن سے قبل فحش فلموں کی ایک اداکارہ کو زبان بند رکھنے کیلئے ایک لاکھ ۳۰؍ ہزار ڈالر رشوت دینے کا الزام شامل ہے ۔ ا س کے علاوہ کاروباری دھوکہ دھڑی کے معاملے میں نیویارک کی ایک عدالت ان پر ۳۵؍ کروڑ ڈالر کا خطیرجرمانہ عائد کرچکی ہے۔ بھلے ہی دونوں معاملات میں انہوں نے اپیل داخل کررکھی ہے مگر جب تک اپیلوں کا فیصلہ نہیں آجاتا وہ سزا یافتہ کہلائیں گے۔ ان کے خلاف اُن مقدمات کی فہرست طویل ہے جو زیر سماعت ہیں۔ اب جبکہ وہ صدرِ امریکہ منتخب ہوگئے ہیں اور ۲۰؍ جنوری سے ملک کی باگ ڈور سنبھال لیں گے،ان کے خلاف کئی مقدمات کو ختم کرنے پر غوروخوض کیا جانے لگا ہے۔
ہریانہ الیکشن کے نتائج مہاراشٹر میں ’انڈیا‘ کیلئے نوشتہ ٔدیوار ہیں
سوال یہ ہے کہ امریکی عوام نے ایسے شخص کو ملک کی صدارت کی باگ ڈور کیوں سونپی۔ وہ بھی اس وقت جب ۲۰۱۶ء کی فتح کے بعد ۲۰۲۰ء کی ہار میں وہ اس کی ہٹ دھرمی،ملک کے قانون کے تئیں اس کے عدم احترام اور قومی نظام کو نہ ماننے یا انہیں قطعاً نظر انداز کرنے کے اس کے مزاج کو دیکھ چکے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ امریکی میڈیا اس کے ساتھ رہا ہو اور اس نے جھوٹی شبیہ بنا کر عوام کو ہموار کیا ہو۔ اس کیلئے ہمیں ٹرمپ کی انتخابی مہم پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ ہمیں اندازہ ہوگا کہ امریکی عوام کا یہ فیصلہ اپنی حکومتوں سے ان کی جھنجھلاہٹ کا نتیجہ ہے۔جس طرح ہندوستان میں عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سرحد پار سے آنے والے گھس پیٹھیے (یہاں نشانہ پر بنگلہ دیشی کے نام پرمسلمان ہوتے ہیں) ان کے وسائل پر قابض ہورہے ہیں،اسی طرح ٹرمپ نے امیگریشن کو بڑا موضوع بنایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر کے بہترین دماغ اچھے مواقع کیلئے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔وہ وہاں اچھی پوزیشنوں پر فائز ہیں ۔ امریکہ میں مقیم ہمارے ایک عزیز کے مطابق اکثر مقامی امریکی انہیں دیکھ کر اسی طرح کے جذبات کا شکار ہوتے ہیں جس طرح کے جذبات کا شکار مہاراشٹر میں ایک غریب مراٹھی شہری کاروں میں گھومتے ہوئے شمالی ہند کے باشندوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکی شہریوں کی اسی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ انہوں نے امریکی عوام کے اس احساس کو تقویت دی کہ انہیں نظر انداز کیا جارہاہے اوران کے ذریعہ دیئے گئے ٹیکس کی خطیر رقم بیرون ملک امداد اور جنگوں میں اُڑائی جارہی ہے۔ جنگیں بند کروانے ، امیگریشن پر قابو پانے، غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کردینےا ور معاشی محاذ پر ’’امریکہ فرسٹ‘‘ پر عمل کرنے کے ان کے نعرے نے عوام کو اپنی جانب راغب کیا۔ باالفاظ دیگر امریکی عوام اپنے ٹیکس کی رقم کو دوسروں کی جنگ پر سواہا ہوتا ہوانہیں دیکھنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو صرف سفید فام شہریوں کے ووٹ نہیں ملے بلکہ وہ سیاہ فام امریکیوں اور مسلمانوں تک کے ووٹ خاطر خواہ تعداد میں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اس پس منظر میں امریکہ کی خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلیوں کو بعیداز قیاس نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کےمزاج کو سمجھنے کیلئے ان کے سابق نیشنل سیکوریٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی کتاب میں ذکر کیاگیا یہ واقعہ معاون ثابت ہوسکتاہے۔ ان کے مطابق افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کی میٹنگ چل رہی تھی۔سی آئی اے اورپنٹاگن فوری انخلاءکے حق میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بن جائے گا۔اس پر ٹرمپ کاسوال تھا کہ کیا اس سے امریکہ کو ۹/۱۱؍ جیسا خطرہ ہوگا؟ جواب نفی میں ملا تو ٹرمپ نے کہا کہ اگر دہشت گرد دوبارہ سر اٹھاتے ہیں تو افغانستان کے پڑوسی ممالک جانیں اور دہشت گرد جانیں، ہم کیوں امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ لگا تے رہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ وہی کچھ کریں گے جس میں انہیں امریکہ کا مفاد نظر آئے گا۔اس پس منظر میں ان کی پہلی ترجیح امیگریشن پر قابو پانا اورغیرقانونی تارکین وطن کو نکالنا نظر آتی ہے۔ایسے میں امریکہ میں غیرقانونی تارکین وطن کیلئے جینا محال ہو جائے گا۔ معاشی محاذ پر وہ چین کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے۔اس کی درآمدات پر بھاری ٹیکس کا اشارہ وہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ وہ جنگ رُکوانے کی بات کرچکے ہیں اس لئے کہ وہ امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کو جنگ میں برباد کرنے کے حق میں نہیں ہیں مگر فلسطین اور غزہ کے معاملے میں ان سے مثبت امید نہیں باندھی جاسکتی۔ وہ جنگ رکوانے کی کوشش ضرورکریں گے مگر اسرائیل کی شرطوں کو ہی ترجیح دیں گے۔ مجموعی طورپر امریکہ کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی یقینی ہے۔امریکی عوام نے بھی نتائج سے یہی اشارہ دیا ہے کہ وہ عالمی چودھراہٹ کے چکرمیں اپنے عوام کو نظر انداز کرنے کے حکومتوں کے رویے سے خوش نہیں ہیں۔