مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی ۲۳؍ ویں قسط میں ملاحظہ کریں انلؔ دیشپانڈے کے دلی جذبات کا ترجمان یہ گیت۔
EPAPER
Updated: December 11, 2023, 12:30 PM IST | Pradeep Niphadkar | Mumbai
مراٹھی کے مشہور لوک گیتوں کے اردو ترجمے کی ۲۳؍ ویں قسط میں ملاحظہ کریں انلؔ دیشپانڈے کے دلی جذبات کا ترجمان یہ گیت۔
موت برحق ہے لیکن شعراء نے اس میں بھی خوشی ڈھونڈی ہے۔ موت پر کتنے ہی شاعروں نے مختلف انداز میں لکھا ہے۔ بقول میر تقی میر :
’’مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ =عیسیٰ و خضر کو ہے مزہ کب وفات کا ‘‘، موت کا احترام صرف وہی کرتے ہیں جنہوں نے محبت کی ہے۔ عیسیٰ اور خضر کو موت نہیں ، وہ لافانی ہیں ۔ وہ موت سے کیسے لطف اندوز ہو ں گے؟لیکن اس کے باوجود جب کوئی عزیز ، کوئی قریبی فوت ہو جائے تو اس سانحہ کو برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مراٹھی کے مشہور شاعر آتما رام رائوجی دیشپانڈے جن کا تخلص انلؔ تھا ، کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان کی شریک حیات اس قدر سکون سے اپنے بستر پر سو گئیں کہ انلؔ جی کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ موت کی آغوش میں چلی گئی ہیں ۔ اس وقت جس درد اور غم کا انہیں احساس ہوا تھا انہی جذبات کو انہوں نے اپنے گیت میں تبدیل کردیا جسے ہم آج سنیں گے ۔ انلؔ جی کی اہلیہ کسماوتی اعلیٰ درجہ کی نثر نگار تھیں ۔ انہوں نے مراٹھی میں مختصر کہانیوں کو ایک نئی شکل دی اور ان کہانیوں کے ذریعے اپنے قارئین میں شعور پیدا کیا ۔ ان کی تحریریں اپنے دور میں کافی پسند کی گئیں ۔ ان دونوں کے درمیان محبت کے واقعات مراٹھی ادب میں عام ہیں بلکہ انہیں مراٹھی ادب کا شہ پارہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ دونوں کی محبت اس وقت اور اس دور میں پروان چڑھی جب وہ دونوں پونے شہر کے فرگیوسن کالج میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ یہ ۱۹۲۰ء کے آس پاس کی بات ہے۔ ۱۹؍ ستمبر ۱۹۰۱ء کو پیداہونے والے آتمارام دیشپانڈے عرف انلؔکے ساتھ کسماوتی کی شادی ۱۹۲۹ء میں ہوئی تھی ۔اس کے بعد دونوں ۱۹۶۱ء تک ساتھ رہے۔ کسماوتی کا انتقال ۱۹۶۱ء میں ہوا ہے۔ دونوں کو مراٹھی ساہتیہ سمیلن کا صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ کسی بھی میاں بیوی کو یہ اعزاز ،مراٹھی زبان و ادب میں اب تک ایک ہی مرتبہ ملا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: گادیما کا یہ گیت سیلاب میں بہنے سے بچ گیا تھا
انلؔ جی کے کئی گیتوں کو پدم بھوشن کمار گندھرو نے اپنی آواز سے سجایا ہے۔ کمار گندھرو میں موسیقی کی خداداد صلاحیت تھی ۔ انہوں نے اتنی تیزی سے یہ فن سیکھا کہ محض ۲۰؍ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے میوزک اسکول میں موسیقی کی تعلیم دینا شروع کردیا تھا۔ ان کے ناقدین نے بھی انہیں موسیقی کے میدان کا ابھرتا ہوا ستارہ کہنا شروع کردیا تھا ۔ انہوں نے اس دور میں کئی بہترین دُھنیں تیار کیں جو مراٹھی لوک گیتوں میں شاہکار کہلاتی ہیں ۔ بہترین موسیقار ہونے کے ساتھ ساتھ کمار گندھرو اتنے ہی منجھے ہوئے اور بہترین گلوکار بھی تھے۔ انہوں نے ہی اس گیت کو اپنی موسیقی سے سجایا ہے اور اپنی آواز میں گایا بھی ہے۔ آئیے گیت سنتے ہیں :
اجونی روسون آہے،کھلتا کلی کھلے نا
مٹلے تسیچ اوٹھ ،کی پالکی ہلے نا
(ابھی تک تم روٹھی ہو ، تمہارے لبوں کی کلی کھل نہیں رہی ہے۔ابھی تک تمہارے لب یوں ہی خاموش بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ان کی پنکھڑی تک ہل نہیں رہی ہے ۔)
سمجوت می کراوی ، مہنونیچ تو روساوے
می ہاس سانگتاچ ، رڑتاہی تو ہساوے
تے آج کا نساوے،سماجاونی پٹے نا
دھریلا اسا ابولا ،کی بول بولوینا
(میں تمہیں منائوں گا کیوں کہ تم اسی وجہ سے مجھ سے روٹھی رہتی ہو تاکہ میں تمہیں منائوں ۔ میں نے کہا ہنسو تو تم روتے ہوئے بھی ہنستے تھے۔ روٹھتے روٹھتے مان جانا اور مجھے ایسے ہی ستانا تمہیں خوب آتا تھا ۔ وہ سب آج کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے دل کو بہت سمجھایا لیکن سمجھ نہیں آتا کہ یہ کیا ہوا۔ایسا کیوں ہوا ہے؟ تمہاری مجھ سے بات نہ کرنے کی ضد اتنی شدید ہےکہ اب کوئی بات کرناہی مشکل ہوگیا ہے۔)
کی گڑ کاہی ڈائو ،ورچا نہ ہا ترنگ
گھے نیاس کھول ٹھائو ،بگھ نیاس انترنگ ؟
روسوا اساکسا ہا، جیا آپلے کلے نا
اجونی روسون آہے، کھلتا کلی کھلے نا
(کہیں یہ تمہارا کوئی دائو تو نہیں ہے؟ یہ لہر اوپر والی یا بیرونی نہیں دکھائی دیتی ۔جیسے تم پہلے ، میرے دل کی تہہ میں کیا چھپا ہوا ہے یہ دیکھنے کے لئے روٹھ جاتی تھیں اور پھر میرے منانے پر مان جاتی تھیں ، یہ ویسا نظر نہیں آرہا ہے۔اس میں کچھ اور ہی رنگ ہے جو میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں ۔یہ ایسا کیسا روٹھنا ہے تمہارا جس میں تم اپنوں سے ہی پرائی ہوتی جارہی ہو ۔ابھی تک تم روٹھی ہوئی ہو ، تمہارے لبوں کی پنکھڑی بھی ہل نہیں رہی ہے۔ یہ تم مجھ سے کیسے روٹھی ہو؟ مجھے کچھ اور ہی احساس ہو رہا ہے جسے میں کوئی معنی نہیں دے پا رہا ہوں۔)