ان دنوں پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں میں ارہر کی بوائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔ گاؤں والے اچھے سے اچھا بینگا(بیج) جمع کررہے ہیں۔
EPAPER
Updated: June 02, 2024, 5:02 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
ان دنوں پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں میں ارہر کی بوائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔ گاؤں والے اچھے سے اچھا بینگا(بیج) جمع کررہے ہیں۔
ان دنوں پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں میں ارہر کی بوائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔ گاؤں والے اچھے سے اچھا بینگا(بیج) جمع کررہے ہیں۔ ویسے ارہر کی بوائی ابھی دور ہے، جون کے دوسرے عشرے میں پہلی بارش کے بعد ہی اس کی بوائی کی جائے گی۔ پہلے ایک دو قسم ہی کی ارہر ہوتی تھی، اِس دور میں ارہر کے بہت سے بیج آگئے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے سے بینگا بدل لیتے تھے۔ اب لوگ ارہر کا اچھا بینگا محنت سے تلاش کرتے ہیں اور پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد ہی بوائی کرتےہیں۔
اس کی بوائی کے بعد نرائی اور گڑائی کا عمل ہوتاہے جس میں ارہر کے کھیت سے گھاس صاف کی جاتی ہے اور اس کی زمین کی کھدائی جاتی ہے، پھر کھاد ڈالی جاتی ہے، پھر اگست آتے آتے ارہر کےپودے بڑے ہونے لگتے ہیں، جنوری اور فروری میں اس میں پھول پھل آتے ہیں۔ اس کے بعد اپریل میں سب سے دلچسپ مرحلہ کٹائی کا آتا ہے، کٹائی کی صبح کا ایک منظر دیکھئے۔
اپریل کی صبح تھی، ہلکا ہلکا اندھیرا تھا، ابھی آسمان پر سورج کی لالی بکھری نہیں تھی۔ اس نیم اجالے میں آس پاس کے کھیتوں سے کھٹ کھٹ کی آواز آرہی تھی، یہ ارہرکی فصل کٹنے کی آواز تھی۔ گڑاسے (گنڈاسے) کسان ریٹھا(ارہر کے پودے) کاٹ رہے تھے۔ عام طور پر گڑاسے کے ایک ہی وار سے ارہر کے پودے کٹ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی زیادہ موٹا پودا رہتا ہے تو کئی کئی وار خالی جاتے ہیں، ارہر کا پودا جتنا زیادہ موٹا ہوتا ہے، اس سے اتنا اچھا جھاڑو بنتا ہے۔ اس صبح آس پاس کے کئی کھیتوں میں ارہر کٹ رہی تھی۔ ایک زمانے تک پوروانچل میں اپریل کے ابتدائی دو عشرے ارہر کاٹنے ہی میں گزرتے تھے۔ جس کی ارہر کٹتی تھی، اس کے گھر کے چھوٹے بڑے سورج نکلنے سے پہلے گڑاسا لے کر کھیتوں میں پہنچ جاتے تھے، سورج کے جوان ہونے تک ارہر کے پودوں کو کھیت میں لٹا کر ہی گھر لوٹتے تھے۔ اس زمانے میں گھرگھر سے گڑاساجمع کیا جاتا تھا۔ یہ کام ایک دن پہلے ہی کرلیا جاتا تھا۔ کسی بچے کو محلے اور پڑوس سے گڑاسے جمع کرنے کی ذمہ داری جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: بیل کاپھل کانٹے دار درخت سے توڑنے اور اس کا شربت بنانے کا قصہ
اس دور میں پہلے کے مقابلے میں ایک تو ارہر کی کھیتی کم ہو گئی ہے۔ دوسرے اب ایسے ایسے جدید زرعی آلات آگئے ہیں کہ ارہر کی کٹائی خاموشی سے ہوجاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا، گڑاسا چلانے کی نوبت ہی نہیں آتی ہے، تیز ہسوا(ہنسیا)ہی سے ارہر کے کھیت کے کھیت کٹ جاتے ہیں۔ پوروانچل کے ایک کسان نے بتایا کہ اب لوگ سعودی عرب سے بھی ہسوا منگواتے ہیں، اس کی دھار اتنی تیز ہوتی ہےاور اس کے دانت اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ ارہر کا موٹے سے موٹا پودا بھی ہاتھ کے ہلکے اشارے سے کٹ جاتا ہے، اس طرح اب ارہر کے کھیتوں میں نیم اجالے میں کھٹ کھٹ کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کٹائی بہت آسانی سے ہوجاتی ہے۔ جب گڑاسے سے کٹائی کی جاتی تھی، سورج نکلنے سے پہلے ہی سر سے پاؤں تک پسینہ بہتا تھا۔ گھنٹے دو گھنٹے میں لوگ بے حال ہوجاتے تھے لیکن ہار نہیں مانتے تھے، پورا کھیت کاٹ کر ہی گھر جاتے تھے۔
کٹائی کے بعد بوجھ باندھنے کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے، کیونکہ بوجھ باندھنے میں ذرا سی غفلت سے مشکل ہوتی ہے، ارہر کے گھر یا کھلیان تک پہنچنے میں بہت دشواری ہوتی ہے، اسلئے گاؤں والے پوری محنت اور مہارت سے بوجھ باندھتے ہیں۔ ارہر کاٹنے کے بعد اسے ایک دن کیلئے کھیت میں چھوڑ دیا جاتا ہے، دوسری صبح پھر نیم اجالے میں اوس سے بھیگے پودوں کا بوجھ بنایا جاتا ہے، اس طرح ارہر کے دانے ضائع نہیں ہوتے ہیں۔ بوجھ ارہر کے پودے سے بھی باندھا جاتا ہے، سرپت کی مدد سے بھی۔ بوجھ باندھنے کیلئے سرپت کو مہارت سے لپیٹا جاتا ہے، اسے رسی نما بنایا جاتا ہے۔ یہ رسی نما سرپت ارہر کے بوجھ کے نیچے رکھا جاتا ہے، پھر بوجھ کو پوری طاقت سے دبایا جاتا ہےاور اسے باندھ کر بوجھ ہی میں رسی نما سرپت کےدونوں سرے کو پھنسادیاجاتا ہے۔ بوجھ باندھنے کے ایک دن کے بعد اس کی ڈھوائی شروع ہوتی ہے یعنی اسے ڈھونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ جب وسائل نہیں تھے تو گاؤں والے کھیت سے کھلیان تک ارہر سر پر لاد کر لے جاتے تھے، سر پر کوئی کپڑا رکھا جاتا تھا یا پورے (پوال) کی پگڑی رکھی جاتی تھی۔ دشوار گزار پگڈنڈیوں پر سنبھل سنبھل کر چلتے تھے اور بہت مشکل سےکھلیان پہنچتے تھے، اس طرح ڈھوائی میں آدھا دن اور بعض دفعہ پورا پورا دن ختم ہوجاتا تھا۔ گاؤں والے بیل گاڑی سے بھی ارہر کی ڈھوائی کرتے ہیں۔
آج ارہر کی ڈھوائی کیلئے ٹھیلے یا ٹریکٹر ٹرالی کا استعمال ہونے لگا ہے، اس طرح ڈھوائی آسان ہوگئی ہے۔ اب کھلیان نہیں رہ گئے ہیں، اسلئے بہت سے لوگ ارہر کا بوجھ اپنے آنگن یا گھر کی چھت پر جمع کرتے ہیں۔