• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بیل کاپھل کانٹے دار درخت سے توڑنے اور اس کا شربت بنانے کا قصہ

Updated: May 26, 2024, 3:28 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

بہار کے پٹنہ ضلع کے ایک گاؤں میں اپریل کی چلچلاتی دھوپ میں ایک شخص دھوتی پہنے اپنے باغیچے سے بیل توڑ رہا تھا۔

The vine tree is thorny, it is not easy to break the fruit. Photo: INN
بیل کا درخت کانٹے دار ہوتا ہے، اس سے پھل توڑ نا آسان نہیں  ہے۔ تصویر : آئی این این

بہار کے پٹنہ ضلع کے ایک گاؤں میں اپریل کی چلچلاتی دھوپ میں ایک شخص دھوتی پہنے اپنے باغیچے سے بیل توڑ رہا تھا۔ وہ کانٹے دار درخت پر چڑھا تھا، پھر بھی اسے اپنی مہارت پر پورا بھروسہ تھا، وہ درخت پر انتہائی اطمینان سے ساتھ کھڑا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ زمین پر کھڑا ہے،  وہ پوری توجہ سے کانٹوں کے درمیان سے  پکا ہواپھل نکال رہا تھا۔
ایک زمانے میںگاؤں دیہاتوں میں اس طرح کے مناظر عام تھے۔ جابجا بیل کے درخت ہوتے تھے۔ اس کا باضابطہ باغ نہیں لگایا جاتا تھا بلکہ یہ آم یا امردو  وغیرہ کے باغ کا حصہ ہوتا تھا، پگڈنڈیوں پر ہوتا تھا۔ ندیوں اور تالابوں کے قریب بھی ہوتا تھا۔ اس کے چند درخت سے پورا محلہ  بیل کھاتا تھا بلکہ نہال ہوجاتا تھا۔ اس زمانے کے رواج کے مطابق یہ رشتہ داروں کے ہاں بھی بطور تحفہ بھیجا جاتا تھا۔ اب پوروانچل کےگاؤں دیہاتوں میں کہیں کہیں بیل کےدرخت دکھائی دیتے ہیں اور اس کے قریب اس  کے چاہنے والوں کی بھیڑ بھی نظر نہیں آتی ہے۔  ایک زمانے میںدرخت کسی کا بھی ہوتا تھا، ایک دو پکے ہوئے بیل دیکھ کر ان کے قدرداں درخت کے نیچے جمع ہوجاتے تھے اور درخت پر چڑھ کر یا ڈنڈے سے بیل توڑ کر ہی دم لیتے تھے۔ پھر ایک جگہ بیٹھتے تھے، مل بانٹ کر کھاتے تھے۔ زیادہ بیل مل جاتا تھاتو گھر والوں کا بھی حصہ لگاتے تھے، گھر بھی لے جاتے تھے۔  
بیل کا درخت کانٹے دار ہوتا ہے، اس سے پھل توڑ نا آسان نہیں ہوتا ہے، اسلئے عام طور پر کم ہی گاؤں والے اس پر چڑھنے کا خطرہ مول لیتے ہیں، اس کے نیچے کھڑے ہوکر لگی یا لگھی( بانس  کے بڑے ڈنڈے ) سےیہ  پھل توڑتےہیں۔ دیکھا جائے تو بیل توڑنے سے لے کر کھانے تک محنت طلب پھل ہے۔ پہلے کانٹوں  سے بچاکر اسے توڑا جاتا ہے۔ توڑنے کے بعد سب سے پہلا مرحلہ اس کا غلاف توڑنے کا ہوتا ہے، اس کے او پر ایک مضبوط لکڑی ہوتی ہے جسے توڑنے میں احتیاط  اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے دیوار پر مار نہیں سکتے ، زمین پر پٹخ نہیں سکتے کیونکہ ایسی غلطی کرنے پرگودا ( مغز) بکھر جائے گا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: پتنگ بازی کا جنون، مانجھا شناس پتنگ باز اور پتنگ لوٹنے کا قصہ

درخت سے پھل توڑنے والے کی محنت بھی ضائع ہو جائے گی،اسی لئے بیل کو اس طرح مہارت سے پکی زمین  یا اینٹ وغیرہ پر پٹخا جاتا ہے کہ اس میں صرف شگاف پڑ جائے، اس کے بعد ہاتھ، چمچ یا کسی  اور اوزارکے اشارے سے اسے دھیرے دھیرے کھولا جاتا ہے  ۔توڑنے کے بعد اسے برابر تقسیم کرنا آسان نہیں ہوتا ہے کیونکہ یہ کہیں سے بھی ٹوٹ جاتا ہے، اسی لئے  بیل کا جو بھی ٹکڑا جسے مل جا تا  ہے وہ اسے غنیمت سمجھتا ہے اور پھر اسے حسب ضرورت ہا تھ یا چمچ سے کھانے میں جٹ جاتا ہے۔  
 اس پھل کو جلد ی جلدی کھایا بھی نہیں جاسکتا، رک رک کر کھانے ہی میں اس کا لطف ہے ۔ اس کے درمیان کے حصے میں گوند نما ہوتی ہے۔ غلاف والے حصے میں جو بیل لگارہتا ہے، وہ  انتہائی لذیذ ہوتا ہے، اسے چمچ سے کھر چ کھر چ کھاتے ہیں، اس طرح   بیل کھانے میں ہاتھ بھی سن جاتے ہیں، بعض دفعہ یہ منہ میں لگ جاتا ہے، اسی لئے جو لو گ نفاست پسند ہوتےہیں، وہ اس پھل سے دور بھاگتے ہیں۔ آج بھی گاؤں دیہاتوں  میں اس کے ذائقہ اور خوشبو کے  دلدادہ کم نہیں ہیں۔ یہ پھل باغیچے میں کم کم دکھائی دیتا ہے لیکن گاؤں  دیہات کےبازار وں میںآسانی کے ساتھ مل جاتا ہے، وہاں سے گاؤں والے یہ پھل خرید کر لاتے ہیں اور اپنے گرمیوں کی دوپہر کو یادگار بناتے ہیں۔ بڑے بوڑھوں کے سامنے آپ بیل کا ذکر چھیڑ دیجئے،  پھر دیکھئے کہ وہ اس کے ہزاروں طبی فوائد بتائیں گے اور  اس کی شان میں ایسے ایسے قصیدے پڑھیں گے کہ آپ انہیں حیرت سے دیکھتے رہ جائیں گے اور پھر بیل کی تلاش میں نکل جائیں گے۔       
ایک زمانے میں گرمیوں کا خاص پھل بیل  ہی ہوتا تھا۔ بچوں کی دوپہر پہلے  درخت سےبیل توڑنے اور پھر اس کے لکڑی نمامضبوط غلاف کو ہٹا کر اسے کھانے میں گزرتی تھی۔ کم سن بچوں کیلئے یہ پھل کھانا آسان نہیں  ہوتا تھالیکن جب بیل  ٹوٹتا تو اس کی خوشبواُن کی ناک تک بھی پہنچ جاتی تھی، وہ اس کی خوشبو کے پیچھے بھاگے بھاگے آتے تھے اور اپنے ہاتھوں  سے بیل کھانے کی ضد کرتے تھے، بڑے ان کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے تھے، اس طرح یہ بچے اپنے پورے چہرےکو بیل کے گودے سے خراب کرلیتے تھے جسے دیکھ کر گھر والے لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے، اس بہانے کچھ دیر کیلئے ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا۔  
 بڑے بوڑھے اس کا شربت پیتے تھے اور کہتے تھے، ’’مجا آئے گوا ... بیلوا کا شربت پی کے.. پٹوا ٹھنڈا ہو گوا۔ ‘‘( مزہ آگیا، بیل کا شربت پی کر پیٹ ٹھنڈا ہوگیا ۔)  پوروانچل میں گرمیوں میں مہمانوں کی ضیافت بھی اسی  کے شربت سے کی جاتی تھی۔ آج بھی اس کا شربت پینے پلانے کا رواج ہے مگر  اب اس پابندی کے ساتھ نہیں۔  پہلے کی طرح اتنی مقدار میں نہیں ملتا، جتنی آپ کی  خواہش ہوتی ہے۔ اس زمانے میں گھر کا بیل ہوتا تھا، لوگ بیل کا اتنا شربت پیتے تھے کہ طبیعت سیر ہوجاتی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK