مصنوعی ذہانت اتنا نیا موضوع ہے کہ اس پر طنز و مزاح کے پیرائے میں اگر لکھا گیا ہو تب بھی اکا دکا انشائیے ہی منظر عام پر ہوں گے اس سے زیادہ نہیں۔ اس شگفتہ تحریر میں اے آئی کی وجہِ تخلیق سے بحث کی گئی ہے
EPAPER
Updated: February 01, 2025, 11:24 PM IST | Nadir | Mumbai
مصنوعی ذہانت اتنا نیا موضوع ہے کہ اس پر طنز و مزاح کے پیرائے میں اگر لکھا گیا ہو تب بھی اکا دکا انشائیے ہی منظر عام پر ہوں گے اس سے زیادہ نہیں۔ اس شگفتہ تحریر میں اے آئی کی وجہِ تخلیق سے بحث کی گئی ہے
حسب عادت صبح سویرے ہم ناشتے کے ٹیبل ہی سے سوشل میڈیا کی سیر کو نکل گئے۔ پہلا ویڈیو جو سامنے آیا اسی کو دیکھ کر ہمارے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ پڑوس میں رہنے والے ببلو بھائی، بنیان پہنے فٹ پاتھ پر بیٹھے پوری ترنگ میں بھیک مانگ رہے ہیں۔ ہمیں تو دانتوں تلے انگلیاں دبانے کا بھی ہوش نہیں رہا۔ یہ کل تک تو پورے ٹھاٹ سے رہ رہے تھے۔ راتوں رات کہیں جوئے میں مکان اور دکان تو نہیں ہا ر گئے؟ جتنی حیرانی ہمیں ان کے بھیک مانگنے پر تھی اس سے زیادہ ان کے انداز پر تھی۔ وہ لہک لہک کر دلچسپ فقروں کے تیر راہ گیروں پر چھوڑتے جاتے اور ہر گزرنے والا حیرت اور مسرت سے ان کی طرف دیکھتا رہ جاتا۔ ان کایہ سلوگن سن کر ہر کوئی قہقہہ لگانے لگا :’’جو دے اس کا بول بالا جو نہ دے وہ ٹرمپ کا سالا‘‘۔
یہ بھی پڑھئے: ملک کی وہ اہم شخصیات جو امسال ہم سے بچھڑ گئیں
یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ٹرمپ کا نام لینے کا مقصد ’نہ دینے والوں ‘ کو خوار کرنا تھا یا خود ٹرمپ کو لیکن ٹرمپ کا سالا بننے سے بچنے کی غرض سے لوگوں نے ان کے آگے پیسے ڈالنے شروع کئے۔ ان کے آگے نوٹوں اور سکوں کا ڈھیر لگ گیا۔ یہ ویڈیو کسی نے شیئر ہی اس کیپشن کے ساتھ کیا تھا کہ ’’ لوگوں کی تفریح کے بعد پیسہ مانگنے والا بھکاری نہیں، فن کار کہلاتا ہے۔ ‘‘
ویڈیو دیکھنے کے بعد ہم اس مخمصے میں تھے کہ ببلو بھائی کو فون کرکے ان کی دگرگوں حالت پر غمخواری کریں یا ان کی فنکاری کی داد دیں۔ راتوں رات تباہ ہوتے ہوئے تو دنیا نے کئی لوگوں کو دیکھا ہوگا لیکن تباہ ہوتے ہی اتنا عمدہ ذریعۂ معاش ڈھونڈ نکالنا اور اس کے رموز سیکھ کر صبح سویرے اس میں رچ بس جانا کرشمہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم کوئی فیصلہ کرتے دروازے کی گھنٹی بجی۔ ہم نے جاکر دروازہ کھولا تو سامنے ببلو بھائی کھڑے تھے۔ وہ اپنے پرانے ٹھاٹ میں تھے، ہمیں یقین نہیں آیا۔ ان کے ہاتھ میں وہ مہنگا والا فون بھی تھا جسے وہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ لیکن خودہی فون ہماری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا: ’’دیکھا؟‘‘ ہمیں یہ یقین نہیں تھا کہ اپنے اس کارنامے پر داد مانگنے وہ خود ہی چلے آئیں گے۔ ہم نے کہا: ’’ہاں دیکھا، بہت عمدہ اداکاری کی آپ نے، کمائی بھی خوب ہوئی، لیکن ....‘‘ داد کے بعد ہم ہمدردی کی رسم بھی ادا کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں بات کاٹتے ہوئے کہا: ’’یہ میری اداکاری نہیں تمہارے دوست عبدالغفور کی بدمعاشی ہے۔ اسی نے کسی بھکاری کے ویڈیو پر میرا چہرہ لگا کر وائرل کروایا ہے۔ ‘‘شاید آج حیرتوں کا دن تھا۔ ہم نے کہا: ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس میں آپ ہی تو ہیں !‘‘
اس سے قبل کہ وہ جواب دیتے، دروازے پر پھر گھنٹی بجی۔ اب کی بار دروازے پر عبدالغفور اپنا موبائل لئے کھڑےتھے۔ انہوں نے سلام دعا کی رسم کو بالائے طاق رکھا اور ببلو بھائی سے کہا ’’کیوں آگئے بتانے؟ اپنا والا بھی بتایا کہ نہیں ؟‘‘
ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ہم نے پوچھا ’’ارے بھائی کیا معاملہ ہے، کوئی کچھ بتائے گا؟‘‘ عبدالغفور نے ہماری بات کا جواب دینے کے بجائے ببلو بھائی کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا: ’’ اور بکوائو ہم سے کیلے۔ اس وقت بڑا مزہ آرہا تھا؟‘‘ ہماری حیرت کا گراف بڑھتا جا رہا تھا۔ ہم نے پوچھا ’’ تو کیا تم کیلے بیچ چکے ہو؟‘‘ انہوں نے بتایا: ’’پرسوں اس بدمعاش نے کسی بنگالی کیلے والے کے ویڈیو پر ہمارا چہرہ لگاکر اسے وائرل کروایا تھا۔ وہ کم بخت’ کیلا‘ کو ’کوئلہ‘ بول کر بیچ رہا تھا۔ ’دس‘ روپے کو’ دوس‘ روپیہ کہہ رہا تھا۔ لوگ خوب ہنس رہے تھے۔ ‘‘ ہم نے ٹوکا ’’لوگ اس پر ہنس رہے تھے۔ تم تو ویڈیو کے باہر تھے تمہیں کیا؟ ‘‘ کہنے لگے ’’ویڈیو کے اندر اتنے لوگ نہیں ہنس رہے تھے جتنامحلے میں لوگ مجھے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ ‘‘ببلو بھائی جو ہم سے شکایت کرکے عبدالغفور سے وہ ویڈیو سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کروانے آئے تھے، ایک طرف منہ کرکے مجرمانہ ہنسی ہنسنے لگے۔ ہمیں لگ رہا تھا جیسے ہماری آنکھوں کے سامنے کوئی کامیڈی ڈرامہ چل رہا ہو۔ ہم نے پوچھا: ’’ان دونوں ویڈیو میں ہمیں تو یہی لگ رہا ہے کہ یہ آپ ہی لوگ ہیں۔ ویڈیو میں اتنی چھیڑ چھاڑ کیسے کی جا سکتی ہے کہ کسی کی شخصیت ہی بدل جائے؟‘‘ عبدالغفور نے کہا ’مصنوعی ذہانت ‘ کے ذریعے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت جسے انگریزی میں آرٹی فیشیل انٹلی جنس یا اے آئی کہتے ہیں۔ یہ لفظ ہم نے سب سے پہلے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی زبان سے سنا تھا۔ وہ ہمارے گھر نہیں آئے تھے، کسی تقریب کے افتتاح میں انہوں نے تقریر کرتے ہوئے آرٹی فیشل انٹلی جنس عرف اے آئی عرف مصنوعی ذہانت کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے اس سائنسی نعمت کی برکتیں اور وسعتیں بیان کی تھیں۔ اسے کاروبار میں ترقی کا ضامن اور سہولتوں کا سرچشمہ قرار دیا تھا۔ ٹھیک یہی باتیں کسی جگہ ارب پتی ایلون مسک نے بھی کی تھیں۔ جب ایک حاکم اور ایک سرمایہ دار کسی معاملے پر متفق ہوں تو وہ معاملہ مخلصانہ، دردمندانہ یا شاعرانہ نہیں رہ جاتا، آمرانہ یا جابرانہ معلوم ہوتا ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ محمد بن سلمان نے ایک بازار کی سیر کی تھی حالانکہ وہ اس بازار میں گئے نہیں تھے بلکہ جہاں وہ تھے وہیں سے مصنوعی ذہانت کے ذریعے انہیں یہ احساس کروایا گیا تھا کہ وہ اس مخصوص بازار میں ہیں۔ محاورے میں جس سبز باغ کا ذکر ہوتا ہے اسے تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا لیکن اس دن ہمیں علم ہوا کہ مصنوعی ذہانت ہی وہ اوزار ہے جس کے ذریعے سبز باغ دکھانا ممکن ہے۔ تو کیا مصنوعی ذہانت سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے؟
ہمارے اس معصومانہ سوال پر عبدالغفور نے یہ کہہ کر ایک ہی ہتھوڑے سے سارے مٹکے پھوڑ دیئے کہ ’’ ہر وہ کام جو دجال کر سکتا ہے وہ مصنوعی ذہانت بھی کر سکتی ہے۔ ‘‘ مٹکے پھوڑنے کے بعد عبدالغفور نے ہتھوڑا رکھا نہیں بلکہ ہماری طرف بڑھے، کہا: ’’ تم ہو کس دنیا میں ؟ تمہارے شعبے کے لوگوں نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے کہانیاں لکھ کر نام کما لیا۔ انگریز ی، چینی، جاپانی زبانوں سے کہانیوں کا ترجمہ کرکے اپنے نام سے شائع کروالیا۔ گانوں کی دھنیں بنواکر کروڑوں روپے کما لئے اور تم وہیں قلم توڑتے رہ گئے۔ ‘‘
ہمیں یہ بات ڈس رہی تھی کہ جب ساراکام اے آئی نے کیا تو اس میں ان کا کیا کمال ہوا؟ عبدالغفور نے کہا ’’ تم یہی سوچتے رہ جائو دنیا پھر قیامت کی چال چل جائے گی۔ بلکہ چل گئی۔ ‘‘ ببلو بھائی جو عبدالغفور کی شکایت کرنے آئے تھے، انہی کے ساتھ ہو گئے اور عبدالغفور کو لقمہ دیا ’’ انہیں یہ بھی بتائو ناں، کہ کیسے شاہ رخ کے گانے میں محمد رفیع کی آواز استعمال کی گئی تھی جبکہ رفیع صاحب کو گزرے ہوئے ۴۵؍ سال ہو گئے۔‘‘
عبدالغفور نے ہمیں الٹی میٹم دیدیا تھا کہ آئندہ قلمکاروں کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ سرمایہ داروں کو سوچنا ہوگاکہ وہ اے آئی کے ذریعے سوچ لیں گے۔ تصو ر کیجئے کہ اے آئی اگر شاعری کرےتو وہ کیسی ہوگی؟ مصنوعی جذبات، مصنوعی احساسات، مصنوعی تجربات، سب کچھ مصنوعی ہوگا۔اب ہمیں یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے امریکہ میں ایک بہت بڑا احتجاج ہوا تھا جس میں وہاں کے تمام فن کار، قلمکار، تخلیق کار، موسیقار حتیٰ کہ کیمرہ مین اور میک اپ مین بھی شریک ہوئے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ تخلیقی کاموں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال نہ کیا جائے۔ یہ نہ صرف فن سے بے ایمانی ہے بلکہ محنت کشوں کی حق تلفی بھی ہے۔ اس کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائینگے۔ امریکہ کے لوگ صرف ترقی یافتہ نہیں بلکہ تعلیم یافتہ (تعلیم یافتہ کے معنی سمجھنے کی ضرورت ہے) بھی ہیں۔ اسی لئے فوراً بھانپ گئے کہ اے آئی کے ذریعے مختلف صنعتوں کو کون سے سبز باغ دکھائے جا رہے ہیں۔ ہمارے لئے فی الحال یہ کوئی کارنامہ یا کرشمہ ہے اس لئے ہم بڑھ بڑھ کر اس طلسماتی دنیا سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی دولتمندوں کو گداگر بنا کرخوش ہو رہا ہے، کوئی خود کو رابن ہڈ بنا کر پیش کر رہا ہے تو کوئی تصویروں سے گانے گوا رہا ہے۔ امریکیوں کا خیال آتے ہی ہمیں لگا کہ تقریر دراصل عبدالغفور کو نہیں بلکہ ہمیں کرنی چاہئے۔ ہم نے کہنا شروع کیا: ’’تم لوگ ایک اے آئی کے ذریعے ایک دوسرے کے چہرے بگاڑنے اور شبیہ مسخ کرنے کی کوشش میں ہو، ادھر باطل طاقتوں نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے تمہاری زندگیوں کو برباد کرنے کا پروگرام شروع کر دیا ہے۔ ‘‘ ہم نے ان کے چہروں کے تاثرات دیکھے بغیر تقریر کو کچھ اور پرجوش بناتے ہوئے کہا: ’’اپنے بال بچوں کی خاطر رات دن اپنی کمر تڑوانے والے محنت کش طبقے کیلئے یہ ایک لرزہ خیز خبر ہے کہ مصنوعی ذہانت سے وہ سارے کام کروائے جا سکتے ہیں جس کیلئے اب تک انسانوں میں ماہرین کی ضرورت ہوتی تھی جیسے اکائونٹس، ٹائپنگ، ترجمہ، ڈیزائننگ وغیرہ۔ جب سب کچھ ایک مشین بغیر کھانا کھائے، بغیر چائے پئے کر سکتی ہے تو ایسے انسانوں کو دفتر بلانے کی کیا ضرورت ہوگی جو کبھی کھانا کھانے چلے جاتے ہیں تو کبھی واش روم ہو آتے ہیں اور درمیان میں نماز کیلئے بھی وقت نکال لیتے ہیں ؟ سیدھے مصنوعی ذہانت کو کام پر لگائیے اور مسلسل کام لیتے جائیے۔‘‘ امریکی فنکاروں کی کہی ہوئی جتنی باتیں ہمیں یاد آتی گئیں ہم ان دونوں پر انڈیلتے گئے۔ ہم نے کہا: ’’بات یہاں تک نہیں رکتی ہے، بلکہ اب وزن اٹھانے اور مزدوری کرنے کیلئے بھی انسانوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔ کہا تو ایسا ہی جا رہا ہےکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے وہ کام بھی کروائے جا سکتے ہیں جن کیلئے ہاتھ پیر ہلانا ضروری ہے۔ ‘‘جن باتوں سے عبدالغفور ہمیں ڈرا رہے تھے، انہی باتوں سے ہم نے انہیں خوف دلایا۔ اس پر ببلو بھائی نے پوچھا کہ ’’ایسے تو لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے؟ اگر ایسا ہو گیا تو پھر ہم لوگ کیا کرینگے؟‘‘ ہم نےکہا ’’کیلئے بیچیں گے، اور جو لو گ یہ بھی نہ کر سکے وہ بھیک مانگیں گے۔‘‘ یہ بات شاید عبدالغفور کا سینہ چیر گئی۔ انہوں نے تنک کر کہا: ’’اور تم اردو والے آج بھی تبصرے کر رہے ہو اس وقت بھی تبصرے ہی کرتے رہو گے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر جانے لگے تو ہم نے آواز دے کر انہیں تاکید کی ’’ وہ ویڈیو سوشل میڈیا سے ڈیلیٹ کر دو، یہ جو آج تمہارے لئے مذاق ہے وہی سرمایہ داروں کا مستقبل کا منصوبہ ہے۔‘‘