• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اروند کیجریوال نےآتشی سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی کی سیاست پر پانی پھیردیا

Updated: September 22, 2024, 6:08 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اروند کیجریوال ایک زیرک سیاستداں ہیں۔ سپریم کورٹ سے مشروط ضمانت ملنے سے خود کو پابندمحسوس کرتے ہوئے انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور آتشی سنگھ جو سینئریٹی میں سب سے نیچے تھیں، انہیں اپنا جانشین بنا کر سبھوں کو حیران کردیا۔

After Kejriwal went to jail, Atashi took charge of 14 departments and emerged as the most important face of the `AAP` government. Photo: INN
کیجریوال کے جیل جانے کے بعد آتشی نے۱۴؍ محکموں کا چارج سنبھالا اور ’آپ‘ حکومت کا سب سے اہم چہرہ بن کر ابھریں۔ تصویر : آئی این این

ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ اروند کیجریوال ایک زیرک سیاستداں ہیں۔ سپریم کورٹ سے مشروط ضمانت ملنے سے خود کو پابند محسوس کرتے ہوئے انہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور آتشی سنگھ جو سینئریٹی میں سب سے نیچے تھیں، انہیں اپنا جانشین بنا کر سبھوں کو حیران کردیا۔ پارٹی کی امیج کو بحال کرنے کیلئے انہوں نے یہ کارڈ کھیلا ہے۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ ان کا یہ فیصلہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے یا مصیبت لاتا ہے؟
یہ فیصلہ بی جے پی کیلئے بڑا جھٹکا ہے
مراٹھی اخبار’لوک مت‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’آتشی سنگھ دہلی کی نئی وزیر اعلیٰ ہوں گی۔ ممتا بنرجی کے ساتھ وہ ملک کی دوسری خاتون وزیر اعلیٰ جبکہ سشما سوراج اور شیلا دکشت کے بعد دہلی کی تیسری خاتون وزیر اعلیٰ بنیں گی۔ دہلی اسمبلی کے انتخابات اگلے سال فروری میں ہوں گے یعنی انہیں بمشکل پانچ یا ساڑھے ۵؍ ماہ کا عرصہ ملے گا۔ سشما سوراج ۱۹۹۸ء میں صرف تین ماہ کیلئے وزیر اعلیٰ بنی تھیں۔ اس کے بعد بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب شراب پالیسی گھوٹالہ میں کرپشن کے داغ دھونے کیلئے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے کر عوام کی عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب اگر عوام انہیں کلین چٹ دیں گے تبھی وہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کریں گے۔ انہوں نے نومبر میں مہاراشٹر کے ساتھ دہلی کے اسمبلی انتخابات کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے پارٹی میں نمبر تین پوزیشن رکھنے والی آتشی سنگھ کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے ہی آتشی نے کہا کہ دہلی کے عوام اروند کیجریوال پر لگے بدعنوانی کے داغ دھو کر انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنا ئیں گے۔ کیجریوال کی طرح آتشی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ محض ۴۳؍ کی عمر میں انہوں نے پارٹی میں بہت ساری ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ شراب گھوٹالے میں گرفتاری کے بعد بھی اروند کیجریوال نے استعفیٰ نہیں دیا۔ اس معاملے میں بی جے پی نے کئی بار اُن کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے ضمانت ملنے کے بعد استعفیٰ دے کر بی جے پی کو پہلا جھٹکا دیا اور دوسرا جھٹکا آتشی کے انتخاب کا تھا۔ ان جھٹکوں نے بی جے پی کوہلا کر رکھ دیا ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:منی پور کے حالات کی وجہ سے ریاستی حکومت کے ساتھ ہی مرکز کی ناکامی اور نااہلی کھل کر سامنےآگئی ہے

ریموٹ کنٹرول کیجریوال کے پاس ہی رہے گا
 مراٹھی اخبار’پڈھاری‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے عام آدمی پارٹی کے کارکنوں کے ایک کنونشن میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرکے سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔ اگرچہ دہلی اسمبلی کی میعاد فروری میں پوری ہورہی ہے مگر انہوں نے نومبر میں الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ چونکہ دہلی اسمبلی انتخابات سےمتعلق فیصلہ مرکزی الیکشن کمیشن اور مرکزی حکومت کے اختیار میں ہے، اسلئے ان کے مطالبے پر قبل از وقت انتخابات ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پچھلے جمعہ کو سپریم کورٹ نے شراب گھوٹالے معاملے میں انہیں ضمانت ضرور دی تاہم انہیں دہلی سیکریٹریٹ جانے پر پابندی عائد کردی نیز ایل جی کی اجازت کے بغیر کسی بھی فائل پر دستخط کرنے سے منع کردیا۔ ضمانت ملنے کے بعد کیجریوال جموں کشمیر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم میں حصہ لے سکتے ہیں لیکن انہیں حکومتی کاموں میں فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں مل سکا۔ اسلئے انہوں نے سوچا ہوگا کہ وزیر اعلیٰ رہنے کا کیا فائدہ؟ وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے سوربھ بھاردواج، کیلاش گہلوت، راگھو چڈھا اور گوپال رائے کے ساتھ ہی اروند کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کے ناموں کی چرچا تھی لیکن ان سب سے الگ آتشی سنگھ کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ ’آپ‘ کے دوسرے لیڈروں کے مقابلے آتشی، کیجریوال کے تئیں زیادہ وفادار ہیں۔ اسلئے آتشی کے وزیر اعلیٰ بننے کے باوجود ریموٹ کنٹرول کیجریوال کے پاس ہی رہے گا۔ ‘‘
آتشی کیلئے یہ عہدہ کانٹوں بھرا ایک تاج ہے
 ہندی اخبار’ ہمارا مہانگر‘ میں معروف کالم نویس وجے سہگل لکھتے ہیں کہ ’’اپنی اہلیہ اور عام آدمی پارٹی کی قد آور لیڈر سنیتا کو درکنار کر آتشی کو منتخب کرکے اروند کیجریوال نے ایک تیر سے کئی نشانے سادھے ہیں۔ اگر انہوں نے بھی سنیتا کو منتخب کیا ہوتا تو لالو یادو کی طرح ان پر بھی بغیر کسی تجربہ کے اقربا پروری کو فروغ دینے اور پارٹی میں جمہوریت کو تباہ کرنے کا الزام لگ جاتا۔ سنیتا نے جیل کے مشکل دنوں میں اپنے شوہر کی مکمل حمایت کی تھی لیکن آتشی کا انتخاب خالصتاً ان کے انتظامی تجربے، صاف ستھری شبیہ اور کیجریوال کے تئیں ان کی مکمل وفا داری کے سبب ہوا ہے۔ حالانکہ آتشی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی اقتدار کا مزہ لوٹنے کیلئے نہیں ملی بلکہ یہ ایک کانٹوں بھرا تاج ہے۔ آتشی کو ایک اعلیٰ عہدہ ضرور ملا ہے مگر بہت محدود مدت کیلئے۔ اگر عام آدمی پارٹی دہلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو یقیناً کیجریوال ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ آتشی ان کو اپنا سیاسی گرو بھی مانتی ہیں۔ اسلئے وہ کیجریوال کو سلاخوں کے پیچھے سے باہر لانے کیلئے سب سے زیادہ جدوجہد بھی کرتی نظر آئیں۔ عام آدمی پارٹی کے کئی سینئر لیڈر وزیر اعلیٰ کے عہدے کیلئے اہل ہوسکتے تھےلیکن ان کے خلاف مختلف الزامات اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر شاید انہیں اس عہدے کیلئے منتخب نہیں کیا گیا۔ نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیا پارٹی میں دوسرے نمبر کے لیڈر ہیں مگر وہ شراب گھوٹالے میں ملزم ہیں اور گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ دہلی محلہ کلینک کی کامیابی کیلئے مشہور ستیندر جین پر بھی منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ گوپال رائے ایک تجربہ کار اور بااثر لیڈر ہیں لیکن ان کی مقبولیت محدود ہے۔ آتشی کی مضبوط انتظامی صلاحیت اور تعلیم کے میدان میں ان کی شراکت مسلم ہے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج گڈ گورننس کا ہوگا۔ ‘‘
آتشی نے ایک نہیں، کئی بار خود کو ثابت کیا ہے 
 انگریزی اخبار’دی فری پریس جنرل‘ اداریہ لکھتا ہے کہ’’جب چار سال قبل کیجریوال نے حکومت بنائی تھی، تب بہت سے لوگوں نے کابینہ میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے اسے طنزاً’بوائز کلب‘ کہا تھا۔ اسے قسمت کا ایک کھیل ہی کہا جائے گا کہ فروری میں اپنی میعاد پوری کرنے والی دہلی حکومت کی کمان آتشی سنگھ کو سوپنی گئی ہے۔ وہ شیلا دکشت اور سشما سوراج کے بعد اس عہدے پر پہنچنے والی تیسری خاتون ہیں۔ وہ پہلی بار اسمبلی کی رکن ہونے کے ناطے عملی سیاست میں آئیں۔ انہوں نے اپنے کریئر کا آغاز اُس وقت کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیا کے مشیر کے طور پرکیا۔ وہ ایک روپیہ تنخواہ حاصل کرتی تھیں۔ انہوں نے سرکاری اسکولوں کی تعلیم میں جو قابل ذکر تبدیلیاں کیں وہ ’آپ‘کی شناخت بن گئی۔ پہلی بار پرائیویٹ اسکولوں کو چھوڑ کر طلبہ نے سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیا۔ اس کے بعد آتشی سنگھ نے مشیر کا عہدہ چھوڑ دیا۔ اگرچہ وہ کالکا جی سے جیتنے کے فوراً بعد کابینہ میں شامل نہیں ہوئیں لیکن جب منیش سیسودیا کو جیل بھیج دیا گیا تب وہ ان کی جانشین بنیں، کیونکہ وہ ان کا تعلیمی قلمدان سنبھالنے کیلئے سب سے زیادہ قابل تھیں۔ اس کے بعد جب کیجریوال کو جیل بھیج دیا گیا تو آتشی۱۴؍ محکموں کا چارج سنبھالتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی حکومت کا سب سے اہم چہرہ بن کر ابھریں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK