• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

منی پور کے حالات کی وجہ سے ریاستی حکومت کے ساتھ ہی مرکز کی ناکامی اور نااہلی کھل کر سامنےآگئی ہے

Updated: September 15, 2024, 4:49 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ایک جانب وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں دوسری جانب منی پور میں جاری خانہ جنگی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔

Manipur has been completely converted into a police cantonment, yet the situation is not under control. Photo: INN
منی پور کو پوری طرح سے پولیس چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا ہے، اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آرہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

ایک جانب وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہیں دوسری جانب منی پور میں جاری خانہ جنگی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ۱۰؍ جون کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے منی پور میں حالات کو مستحکم کرنے کیلئے جنگی سطح کی کوششوں پر زور دیا تھالیکن مغربی بنگال کے حالات پر واویلا مچانے والی بی جے پی منی پور کے تئیں بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں غیر اردو اخبارات نے منی پور میں جاری تشدد کی نئی لہر پر کیا کچھ لکھا ہے۔ 
ان حالات میں بھی بیرن سنگھ کرسی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں 
 مراٹھی اخبار’سکال‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’منی پور کے حالات دو بارہ بے قابو ہونے سے ریاستی حکومت کی ناکامی اور نا اہلی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخابات کے دوران بی جے پی نے اپنے منشور میں شمال مشرقی خطہ کی ترقی کا خصوصی طور پر ذکر کیا تھا۔ حکومت نے اس علاقے کی ترقی کیلئے کچھ منصوبوں کا اعلان بھی کیا تھالیکن منی پور کے حالات نے بی جے پی کے گڈ گورننس کے دعوے کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ یہاں نسلی تصادم کے پھوٹ پڑنے پر ایک خاتون کو برہنہ گھمانے کے ویڈیو نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس واقعہ کو ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی حالات قابو میں آنا تو دور، روزانہ تشدد کی وارداتیں رونما ہورہی ہیں۔ ایسی پیچیدہ صورتحال میں امن وامان بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر بھی کوشش ہونی چاہئے مگر زمینی سطح پر اس کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ بی جے پی لیڈران نے مختلف ریاستوں میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے’ڈبل انجن کی سرکار‘ کی نعرہ بلند کیا تھا۔ اس کے پیچھے منشاء یہ تھا کہ مرکز اور ریاست میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتو ترقی کا عمل آسان ہوجاتا ہےلیکن منی پور میں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکار ہونے کے باوجود یہاں تشدد کی کارروائیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اس کے بر عکس حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ حالات بے قابو ہونے کے باوجود وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کرسی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:کولکاتا سے بدلا پور تک جنسی زیادتی کی وارداتیں، یہ شرمناک سلسلہ کب تھمے گا؟

منی پور میں امن کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں 
 مراٹھی اخبار `لوک مت ` نے لکھا ہے کہ’’ منی پور جو پچھلے۱۶؍ مہینوں سے فرقہ وارانہ تشدد اور خونریزی کا سامنا کررہا ہے، وہاں امن کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کے برعکس تشدد کا نشانہ بننے والوں کے زخم مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ منی پور میں آگ کیوں لگی اور اسے بجھانے کی کوششیں کیوں ناکام ہوئیں ؟اس بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے۔ گزشتہ سال مئی میں میتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان ریزرویشن کیلئے تنازع شروع ہوا تھا۔ ہائی کورٹ کی جانب سے ترقی یافتہ میتئی برادری کو درج فہرست ذات کے زمرے میں شامل کرنے کے حکم کے بعد کوکی قبائل مشتعل ہوگئے تھے۔ جس کی وجہ سے کئی مہینوں تک میتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان خونریزی جاری رہی۔ میتئی برادری پر حکمراں بی جے پی کا اثر و رسوخ ہونے سے ریاستی پولیس نے جانبداری کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ، جن کا تعلق میتئی سماج سے ہے، انہیں دہلی سے تحفظ فراہم کیا گیاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دیگر قبائلیوں نے مرکزی حکومت پر متعصب ہونے کا الزام عائد کیا۔ کچھ مہینے منی پور کا ماحول پر امن رہا لیکن ستمبر کے آغاز میں دوبارہ تشدد بھڑک اٹھا جس میں ۱۲؍ افراد کی جانیں چلی گئیں۔ ‘‘
روس اور یوکرین میں دلچسپی ہے، منی پور میں نہیں 
 ہندی اخبار’ دو بجےدوپہر‘ نے ۱۱؍ ستمبر کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’ایک سال سے منی پور میں جاری تشدد کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔ ریاستی حکومت کے مسلسل دعوؤں کےباوجود تشدد کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔ ریاستی حکومت شہریوں کے درمیان تشدد اور نقل مکانی کو روکنے میں پوری طرح سے ناکام ہے۔ یہ صورتحال ڈبل انجن والی حکومت کی منطق کو پوری طرح سے رد کرتی ہے۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر دونوں برادریوں کے درمیان تنازعات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اب جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال ہورہا ہے۔ صورتحال پر حکومت کی کمزور گرفت کی وجہ سے میانمار کی سرحد پار سے آگے بڑھنے والی انتہا پسند تنظیموں کو منی پور میں اپنی بنیاد مضبوط کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ در حقیقت ان علاقوں میں جہاں زیادہ تشدد ہورہا ہے وہاں مرکزی سیکوریٹی فورسیز کی موجودگی کو بڑھانا چاہئے تھا۔ یہ انتہائی تشویشناک ہے کی شدت پسند عناصر ڈرون اور راکٹ سے حملے کررہے ہیں۔ منی پور کی ہنگامی صورتحال سے مرکزی حکومت کے اقدامات پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ سوال پوچھا جارہا ہے کہ جب موجودہ وزیر اعلیٰ تشدد شروع ہونے کے ایک چوتھائی سال بعد بھی حالات پر قابو نہیں پا سکے ہیں تو پھر مرکز نے ان کی جگہ کسی قابل شخص کو موقع کیوں نہیں دیا؟ جبکہ بی جے پی نے سیاسی مقاصد کیلئے کئی ریاستوں میں قیادت میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اپوزیشن وزیراعظم مودی پر مسلسل حملہ کررہی ہے۔ سڑکوں سے لے کر پارلیمنٹ تک وزیر اعظم کے منی پور کا دورہ نہ کرنے پر سوالات اٹھائے گئے۔ کہا گیا کہ وزیراعظم روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اپنے ہی ملک میں منی پور کے مسئلے کے حل کے حوالے سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ ‘‘
منی پور میں ڈبل انجن کی سرکار فیل ہوگئی ہے
 انگریزی اخبار `لوک مت ٹائمز ` اداریہ لکھتا ہے کہ ’’منی پور میں پچھلے دس دنوں سے جاری تشدد کے دوران ۶؍افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ میتئی اور کوکی برادریوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے کیلئے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ تازہ تشدد کی واردات نے ایک بار پھر ریاستی حکومت کی ناکامی کو اجاگر کیا ہے۔ ڈرون سمیت جدید ترین ہتھیاروں کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیکوریٹی فورسیز اور حکومت سے چھینے گئے ہتھیاروں کی بازیابی کی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ ۱۰؍ میں سے۶؍ ہلاک ہونے والوں کا تعلق جیری بام ضلع سے ہے۔ یہ ضلع میتئی، کوکی، بنگالی نیپالی اور دیگر برادریوں کا اہم مرکز رہا ہے۔ ریاست میں پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری تشدد کے باوجود یہ ضلع پر امن رہا تھا۔ 
  یہ حقیقت ہے کہ نسلی تعصب اور اس سے پیدا ہونے والے تشدد کو ۱۶؍ مہینوں میں ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ میتئی اور کوکی قبائلیوں کے تنازع نے پوری ریاست کو اپنے نرغے میں لے لیا ہے۔ منی پور ڈبل انجن والی سرکار کیلئے ایک بد ترین مثال بن کر ابھرا ہے یہاں بائیں ہاتھ کو معلوم نہیں ہوتا کہ دایاں ہاتھ کیا کررہا ہے۔ تشدد کی تازہ لہروں کے بعد وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے مرکز سے اپیل کی ہے کہ وہ ریاست کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے ٹھوس اقدامات کرے علاوہ ازیں مرکزی مسلح پولیس فورسیز سمیت یونیفائیڈ کمانڈو کاچارج ریاستی حکومت کے حوالے کیا جائے۔ یہاں تعجب کی بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کی ناقص کارکردگی کے باوجود بی جے پی ان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا انتخابات میں منی پور کی دونوں سیٹوں پر کانگریس کو کامیابی ملی تھی۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK