۲۸؍ مسلمانوں کوڈٹینشن سینٹر بھیج دینا اور ماتیا کے حراستی مرکز میں روہنگیا اورچن پناہ گزینو ں کی بھوک ہڑتال عالمی پلیٹ فارم پر ملک کی پریشان کن شبیہ پیش کرتی ہے۔
EPAPER
Updated: September 16, 2024, 2:28 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
۲۸؍ مسلمانوں کوڈٹینشن سینٹر بھیج دینا اور ماتیا کے حراستی مرکز میں روہنگیا اورچن پناہ گزینو ں کی بھوک ہڑتال عالمی پلیٹ فارم پر ملک کی پریشان کن شبیہ پیش کرتی ہے۔
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی)کا معاملہ آسام میں سب سے پہلے منظر پر آیا جس کا مقصدپڑوسی ریاستوں بنگلہ دیش اورمیانمارسے ریاست میں نقل مکانی کی روک تھام تھا۔ سرحدی ریاست ہونے کے سبب آسام میں پنا ہ گزینوں کی آمد کا مسئلہ تو ہے لیکن اس مسئلہ کا حل نکالنے کیلئےہندوتوا ذہنیت رکھنے والی حکومت نےجو طریقہ ا ختیار کیا ہےوہ کئی طرح کے سوالات کھڑے کرتا ہے۔ این آر سی کے نام پر آسام میں جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ حقوق انسانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں کیونکہ پناہ گزینوں کو ملکوں میں حراست میں یا قیدیوں کی طرح نہیں رکھا جاسکتا۔ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ یواین ایچ سی آر کے قوانین پناہ گزینوں کےتحفظ پر شدید زور دیتے ہیں کیونکہ اول تو وہ اپنے ملک میں درپیش خطرات کے پیش نظر نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں اور دوسرےدیارِغیر میں یہ قطعی غیر یقینی ہوتا ہےکہ مستقبل میں انہیں کس قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے۔ حقوق انسانی کے اعتبار سے دیکھا جائے توپناہ گزیں پناہ کی تلاش میں ہوتے ہیں یعنی ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا، انہیں ایک حکومت سےانسانی سلوک کی توقع ہوتی ہے، ہمدردی کی امید ہوتی ہے اوروہ باز آبادکاری کے طالب ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں آسام میں حراستی مرکز کے تعلق سے دوخبریں سامنے آئیں۔ پہلی خبر بارپیٹا ضلع کے۲۸؍ مسلمانوں کو جبراً ڈٹینشن کیمپ میں منتقل کرنے کے تعلق سے تھی اوردوسری خبرآسام کے ماتیاحراستی مرکز میں ۱۰۰؍ سے زائد روہنگیا اور چن پناہ گزینوں کی بھوک ہڑتال پر بیٹھنے سے متعلق تھی۔ ان خبروں سے آسام میں جہاں تارکین وطن کی چشم کشا صورتحال سامنے آتی ہے وہیں کئی طرح کےسوالات کھڑے کرنے والا یہ معاملہ بھی سرابھارتا ہےکہ وہاں بسنے والےمسلمان بھی محفوظ نہیں ہیں اوراین آر سی یاپناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کی آڑ میں انہیں بھی نشانہ بنایاجانے لگا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:سنجےرائے اور اکشے شندے کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوگا؟
جن ۲۸؍ مسلمانوں کوڈٹینشن سینٹر بھیجا گیا ہے، ان کے تعلق سے ، اس معاملے کی پیروی کرنے والی جمعیۃ علماء ہندکی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ۲۸؍ خاندانوں سے ایک ایک فردکو غیر ملکی قراردےکرانہیں حراستی مرکز بھیجا گیاہےجبکہ بقیہ افراد کے ہندوستانی ہونے کو تسلیم کیاگیا ہے۔ جنہیں ’غیر ملکی‘ قرار دیا گیا ہے، انہیں ٹریبونل میں صفائی پیش کرنے کا بھی موقع نہیں دیا گیا۔ اس سے اس کے سوا کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ اس پوری کارروائی کےپیچھےایک انتہائی متعصبانہ ذہنیت کام کررہی ہے جنہیں ملک میں مسلمانوں کاو جود ہی گوارا نہیں ہے۔
آسام میں این آر سی کے نفاذ کے بعدملک گیر سطح پر سی اے اے نافذ کیاگیاجس میں افغانستان، بنگلہ دیش اورپاکستان کی مبینہ مظلوم اور بے سہارا اقلیتوں کو ہندوستان میں مستقل پناہ دینے یعنی انہیں ہندوستانی شہری بنانے کا التزام ہے۔ سی اے اے۲۰۱۹ء میں منظور کیاگیا تھا جبکہ اس کے اطلاق کے تعلق سے وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفکیشن۲۰۲۴ء کے عام انتخابات سےقبل مارچ میں جاری کیا گیا تھا۔ یہ قانون اب بھی عوام میں موضوع بحث ہے اوراین آر سی بھی۔ مسلمانوں اکثر ان دونوں قوانین کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ کچھ ریاستوں میں اس کے تحت پڑوسی ملک سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم شہریوں کو ملک کی شہریت بھی دی گئی ہے۔ مسلمان شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے تعلق سے ان ریاستوں میں زیادہ پریشان ہیں جہاں بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ اتراکھنڈ، اترپردیش، بہار، گوا، گجرات، ہریانہ، مدھیہ پردیش، ادیشہ اور کچھ دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کے اس طبقے کو ایسے قوانین کی آڑ میں آسانی سے نشانہ بنایا جاسکتا ہےکہ جوکمزور ہیں، کچی آبادیو ں میں رہتے ہیں، کم تعلیم یافتہ ہیں اوراپنے لئے کوئی مضبوط آواز نہیں پاتے۔ مختلف ریاستوں میں مسلم آبادیوں اور بستیوں کے خلاف ’بلڈوزر انصاف ‘بھی اسی کاحصہ ہےکہ انہیں قانون کی جانب سے بھی بچنے کا کوئی بھی مو قع فراہم نہیں کیاگیا۔
آسام کے ۲۸؍ مسلمانوں کو ان کے خاندانوں سے جدا کرکے حراستی مرکز میں ڈال دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے ظاہرہوتا ہےکہ ایسے معاملوں کی سماعت کیلئےجوٹریبونل قائم کیاگیا ہے، وہ بھی حکومت کے اشارے پر کام کرتا ہے۔ یعنی حکومت جنہیں ’غیر ملکی‘ کے طور پرنشان زد کردے، پھر مشکل ہی ہےکہ ٹریبونل سماعت کے دوران ان کے غیر ملکی ہونے پر مہر نہ لگائے۔ ایسے معاملوں میں واضح ثبوت، کاغذات، دستاویزات اور شناختی کارڈز وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتےکیونکہ حکومت انہیں غیر ملکی قراردے چکی۔ اب ان سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہوگا، امن وامان واستحکام کو خطرہ ہوگا، ان سے یہاں کی مقامی آبادی کو خطرہ ہوگا۔ یہ سارے خطرات حکومت کے ذہن میں پہلے سے گھر کئے ہوتے ہیں ۔
پناہ گزینوں کے تعلق سے یہ نکتہ بھی اہم ہےکہ اور سوال بھی اٹھایاجاتا ہےکہ اگران سے خطرات ہی ہیں تو وہ ملک میں داخل کیسے ہوجاتے ہیں ؟اس کا مطلب ہےکہ سرحد پر سیکوریٹی انتظام مضبوط نہیں ہےیا اگر حکومت کا دعویٰ ہےکہ سیکوریٹی نظام مضبوط ہے توپنا ہ گزینوں کو ملک میں داخل کرنے کیلئے کوئی بڑی بدعنوانی خارج ازامکان نہیں ہے۔ ایک ذہنیت وہ ہےجوکنیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈوکی شکل میں سامنے آتی ہے۔ پناہ گزینوں کے تعلق سے جن کا رویہ پُرجوش رہا ہےاور وہ پناہ گزینوں کااپنے ملک میں استقبال کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ یورپی ممالک میں بھی یہ مسئلہ ہے۔ وہاں کچھ ممالک تارکین وطن کو پناہ دینے پرمتفق ہیں جبکہ کچھ کا اختلاف ہے۔ جوممالک تارکین وطن کو پناہ دینے سے اختلاف رکھتے ہیں وہاں بھی پناہ گزینو ں کے انسانی حقوق کاپورا احترام کیاجاتا ہے۔ وہاں یواین ایچ سی آر کے قوانین کو ذہن میں رکھ کر اقدامات کئے جاتے ہیں۔
آسام میں جبراً حراست میں رکھے جانے کے خلاف جن روہنگیا اورچن پنا ہ گزینوں نے بھوک ہڑتال شروع کی ہے، ان کا مطالبہ ہےکہ انہیں دہلی واقع یو این ایچ سی آر کے مشن کے سپر دکیاجائے اوروہاں سے ان کی باز آبادکاری کا انتظام کیاجائے۔ یہی کاررو ائی قانونی طور پردرست ہوگی۔ روہنگیاتو وہ مسلمان ہیں جو میانمار میں نسل کشی کے خوف سے ہندوستان منتقل ہوئے۔ چن برادری وہاں کی لسانی اقلیت ہےجسے بھی تشدد کا سامنا ہے اور وہ ہندوستان میں پناہ کی تلاش میں ہیں۔ اگر یہ ذہن ہو کہ پنا ہ گزینوں کو پناہ فراہم کرنا انسانی خدمت ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہ ہو لیکن انہیں خطرہ سمجھنا اور انہیں ’ٹھکانے لگانے‘ کیلئے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کام کرنابہت بڑا مسئلہ ہے۔ روہنگیا اور چن پناہ گزینوں کی بھوک ہڑتال عالمی توجہ مبذول کراسکتی ہےجو یقیناً ملک کی عالمی رسوائی کا باعث بنےگی لیکن آسام کی ریاستی اور مرکزی حکومتیں اس تعلق سےکچھ غور کرنا نہیں چاہتیں کیونکہ وہ تعصب کی اسیر ہیں۔