• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سنجےرائے اور اکشے شندے کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوگا؟

Updated: August 25, 2024, 5:44 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

عوام کو امید ہےکہ کولکاتا اور بدلا پور کیس کے ان ملزموں بلکہ مجرموں کو قانون سزا دیگا لیکن مسئلہ یہ ہےکہ اسی قانون سے وہ بچ نکلنے کا راستہ بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔

After the Kolkata tragedy, there was nationwide protest that the Badlapur tragedy took place, while similar incidents also took place in Bihar, UP and Assam. Photo: INN
کولکاتا سانحہ کے بعد ملک سراپا احتجاج ہی تھاکہ بدلا پور سانحہ پیش آگیا، اسی دوران بہار،یوپی اور آسام میں بھی اسی طرح کے واقعات پیش آئے۔ تصویر : آئی این این

کولکاتا کے آرجی کرمیڈیکل کالج اوراسپتال میں زیر تربیت ڈاکٹرجس درندگی کاشکار ہوئی اوربدلاپور کے اسکول میں ۴؍ سالہ دوبچیوں کے ساتھ جو جنسی استحصال کیا گیا، اس پرشرمناک اور افسوسناک جیسے الفاظ بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ شرم اور افسوس جیسے الفاظ اس معاشرے میں تو معنی رکھتےہیں جو حساس اورسیاست سے پاک ہولیکن ایک سیاست زدہ معاشرے میں یہ الفاظ ا پنے معانی ومفہوم کھودیتے ہیں۔ بس عام رد عمل میں یہ الفاظ بول اور سن لئےجاتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی سنگینی کا یہ الفاظ بھی اظہار کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرےکو جھنجھوڑنے کیلئے ایک ہنگامی، عوامی اور انقلابی رد عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کولکاتامیں ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ درندگی کے بعد اوربدلا پور میں بچیوں کے معاملے کے بعدپورے ملک میں اس وقت وہی فضا قائم ہوئی ہےجو ۲۰۱۲ء میں نربھیاسانحہ کے بعد قائم ہوئی تھی۔ خواتین کی حفاظت کے تعلق سے قانون سازی کی باتیں ہوئی تھیں۔ مجرموں کیلئے پھانسی کی سزا کی پُر زور وکالت کی گئی تھی اور اس پر عوام وخواص کا اتفاق تھا۔ اس کیس نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ مجرموں کوگرفتار کرکے جیل میں ڈالا تو گیا لیکن اس سزا سے عوام مطمئن نہیں ہوئے۔ ایک ملزم کی جیل میں ہی موت ہوگئی تھی جسے ممکنہ خودکشی بتایا گیاتھا۔ یہ کیس آج تک موضوع بحث ہے اور افسوس اسی بات کا ہے کہ صرف مو ضوع بحث ہے۔ اس کے بعدسے خواتین کے تحفظ کے تعلق سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مجرموں میں کوئی خوف نہیں ہے، نہ کسی ادار ہ میں، نہ ادارہ کے باہر۔ 
 کولکاتا کیس کے کلیدی ملزم سنجے رائے کو۱۴؍د نوں کی عدالتی تحویل میں بھیجا گیا ہے۔ اس کیس کی تحقیقات سی بی آئی کررہی ہےاور اس ایجنسی کے تعلق سےعوامی رائے کیا ہے اس کا اندازہ گزشتہ دنوں ایک پوسٹ سے ہوا جس میں لکھا تھا کہ کیس سی بی آئی کے پاس گیا یعنی کیس رفع دفع ...یہ اس ایجنسی کی عوامی شبیہ ہے جو ملک کی اہم ترین تحقیقاتی ایجنسی ہے۔ متوفی ٹرینی ڈاکٹر کے والد نے بھی یہی بات کہی کہ’’ معاملہ سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی کے سپر د ہے لیکن اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ‘‘ ایک باپ ان مجرموں کا کیا انجام دیکھنا چاہے گا جنہوں نے اس کی اکیلی اور بے بس بیٹی کوحیوانیت کانشانہ بنایا۔ پھر اس پرقانون اپنا کام کرے، انہیں گرفتار کیا جائے، ان پر مقدمہ چلایاجائے، ان میں کسی کا پالی گراف ٹیسٹ کیا جائے۔ عدالتی اور پولیس تحویل کے نام پر کیس کو بلا وجہ طول دیاجائے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ اب قانون کی اس قسم کی بے نتیجہ پیچیدہ کارروائیوں سے عاجز آ چکا ہے۔ عوام نتیجہ چاہتے ہیں، انجام کے منتظر ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کا اب کیا ہوگا؟

یہی کچھ بدلا پور کے معاملے میں بھی ہوا۔ معاملہ طول پکڑنے اورعوام کے سڑکوں پر اترنے کے بعداکشے شندے نامی ملزم کو گرفتار کیاگیا لیکن احتجاج کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ اس کے ساتھ بھی کچھ نہیں ہوگا۔ حساس دل رکھنے والے اس طرح کے معاملوں میں اس وقت اور بھی مایوس ہوجاتے ہیں جب تحقیقاتی ایجنسیوں کی تحویل میں وہ ملزم یا مجرم کو’ مہمان‘ کے طورپر دیکھتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مجرم کے خلاف کسی ثبوت تک کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب کچھ سامنے ہے، پھربھی اسے مقدمہ میں دفاع کا موقع دیاجارہا ہے، اس کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کی جانچ کیلئےپالی گراف ٹیسٹ کیاجارہا ہے، تو ایسےمیں ان میں قانون کے تئیں برہمی پیدا ہوجاتی ہے جو فطری ہے۔ آج عوام کا ایک بڑا طبقہ برہم ہے۔ 
 جب وہ میڈیا کو دیکھتے ہیں کہ کچھ چینلز بس کیس کے کچھ پہلوؤں کو بار بار سامنے لا رہے ہیں اوراس پر کہیں سے وہ خود کوئی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تب بھی وہ مایوسی میں گھر جاتے ہیں۔ کچھ چینلز ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسطرح کے حساس معاملات میں بھی اپنے فرقہ وارانہ مزاج سے باز نہیں آتے۔ وہ کوئی دوسرا کیس سامنے لاکر دکھائیں گےجہاں ملزم کی مذہبی شناخت کچھ اور ہو اور وہ سنجے رائے یا اکشے شندےنہ ہو۔ یہ سب معاشرے کے سامنے ہورہا ہے۔ ملزم پولیس اور سی بی آئی جیسی ایجنسی کی گرفت میں ہونے کے باوجودخود کو ’آزاد‘ سمجھتے ہیں۔ عوام کواگر قانون سے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ مجرم کو سزا دے گا توسنجے رائے جیسے مجرموں کو ’اعتماد‘ ہوتا ہے کہ اسی قانون سے ان کے بچ نکلنے کا بھی راستہ نکلے گا۔ کولکاتا کیس کی بات کریں توتازہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں اس دردناک رات کواسپتال میں داخل ہوتے ہوئے سنجے رائےکی تصویرقید ہے۔ یعنی یہ نہ مان لیاجائے کہ شواہد سب سامنے ہونے کے باوجوداس کی قانونی پشت پناہی کی جارہی ہے؟ اکشے شندے کے معاملے میں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اسے بچانے کیلئے بھی ہرطرح کے سیاسی دبا ؤ کا استعمال کیاجارہا ہے؟اس سے پہلے تو خود اسکول انتظامیہ اس کے خلاف کیس درج کروانے سے گریز کر رہا تھا اور اسے بچیوں کے ٹوائلٹ تک رسائی حاصل تھی۔ اس سماج میں مجرم کو مجرم سمجھنے ا ور بطور مجرم پیش کرنے پر سیاسی اتفاق کیوں نہیں ہوتا ؟ایسے کسی معاملے میں عوام کے سا تھ ساتھ اگر پولیس فورس کے اہلکار بھی کینڈل مارچ میں شریک ہوجائیں تو اندازہ لگائیے سماج کوکیا پیغام جائے گا اور مجرموں پر کیا دہشت طاری ہوگی۔ خواتین کے مجرموں کے خلاف عوام اور پولیس کوایک ہونا ہوگا، حز ب اقتدار اور حز ب اختلاف کو ایک ہونا ہوگا، معاشرےکو ایک ہونا ہوگا تاکہ اس طرح کے مجرم کہیں پناہ نہ پا سکیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK