• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بدلاپور انکاؤنٹر کے ملزم اکشے شندے کا انکاؤنٹر سوالوں کے گھیرے میں

Updated: September 29, 2024, 5:03 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

بدلاپور انکاؤنٹر کے ملزم اکشے شندے کا انکاؤنٹر سوالوں کے گھیرے میں، بات انصاف کرنے کی نہیں، انصاف کا راستہ روکنے کی کوشش ہے۔

After Akshay Shinde`s encounter, Chief Minister Eknath Shinde`s supporters celebrated. Photo: INN
اکشے شندے کے انکاؤنٹر کے بعد وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے کے حامیوں نے جشن منایا۔ تصویر : آئی این این

کسی مسالہ فلم خصوصاً جنوبی ہند کی ایکشن فلموں میں جب ہیرو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر ویلن کا قلع قمع کرتا ہے تو سینما ہال شائقین کی تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ کچھ ایسا ہی رد عمل بدلا پور جنسی زیادتی کے کلیدی ملزم اکشے شندے کے انکاونٹر میں مارے جانے کے بعد نظر آیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی، لیکن واقعات پر نظر ڈالیں تو اس دعوے پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں جن کا جواب پولیس اور سرکار سے ملنا چا ہئے۔ الزام ہے کہ سرکار نے اسکول انتظامیہ کو بچانے کیلئے اکشے شندے کا انکاونٹرکیا۔ آیئے دیکھتے ہیں غیر اردو اخبارات نےاس پر کیا کچھ لکھا ہے۔ 
مقصد ماسٹر مائنڈ کو بچانا ہے
 مراٹھی اخبار ’سامنا‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’ جس وقت چیف جسٹس آف انڈیا چندر چڈ وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے ساتھ چائے پی رہے تھے، ٹھیک اسی وقت بدلاپور جنسی زیادتی کے کلیدی ملزم اکشے شندے کی پولیس مڈبھیڑ میں مرنے کی خبر آئی۔ پہلے خبر آئی کہ اکشے شندے نے پولیس کے ہاتھ سے بندوق چھین کر خودکشی کرلی تاہم تھوڑی ہی دیر بعد اسکرپٹ بدل گئی اور بتایا گیا کہ پولیس نے اپنے دفاع میں اسے ماردیا۔ آبروریزی کے ملزم کو ایسی ہی سزا ملنی چاہئے۔ قانونی چارہ جوئی، تاریخ پہ تاریخ اور فاسٹ ٹریک کے جھنجھٹ میں پھنسے بغیر عورتوں پر ظلم کرنے والوں کو سخت سزا ملنا ضروری ہے۔ بدلا پور میں دو اسکولی طالبات کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے پورے ملک کو دہلا دیا تھا۔ بدلاپور پولیس متاثرہ بچیوں کی ماؤں کی شکایت تک لینے کو تیار نہیں تھی۔ جب عوام سڑکوں پر اترے، ریل روکو آندولن کیا گیا تب کہیں جاکر `’ورشا‘ کے شندے نے آبروریزی کے شندے کیخلاف کارروائی کی۔ اس کے ساتھ ہی شندے سرکار نے مظاہرین کیخلاف بھی کارروائی کی۔ پولیس نے پہلے مظاہرین کو گھر میں گھس کر باہر نکالا اوراب اکشے شندے کو جیل سے باہر نکال کر اس کا انکاونٹر کیا۔ اگر اکشے کے ساتھ اس طرح کا فیصلہ کرنا تھا تب مظاہرین کے خلاف معاملہ کیوں درج کیا گیا؟جنہوں نے یہی مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت شندے اور فرنویس کیوں کہہ رہے تھے کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے؟اب حکومت کو چاہئے کہ بدلاپور کے تمام مظاہرین پر درج مقدمات کو فوری طور پر واپس لے۔ اگرشندے اور فرنویس یہ دکھاوا کررہے ہیں کہ انہوں نے اکشے شندے کا انکاونٹر کرکے بدلاپور کی متاثرہ بچیوں کو فوری انصاف دیا ہے۔ تو پھر تھانے ضلع کی اکشتا مہاترےکو بھی فوری انصاف دیا جائے، جو مندر میں تین پجاریوں کی ہوس کا شکار بنی تھی۔ ریاست کے وزیر داخلہ کے ضلع میں پچھلے ۶؍ ماہ کے دوران ۲۰۰؍ سے زائد بہنوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی، وہ بہنیں بھی ایسے ہی انصاف کی توقع رکھتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ انکاؤنٹر ہمیشہ کی طرح جعلی ہے۔ وزیر داخلہ ماسٹر مائنڈ کو بچانا چاہتے ہیں۔ ‘‘
شک کی سوئی پولیس کی جانب ہی گھومتی ہے
 مراٹھی اخبار ’پربھات‘ نے ۲۵؍ ستمبر کو اداریہ لکھا ہے کہ’’ پچھلے ماہ بدلاپور میں ایک اسکول میں دو نابالغ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ملزم اکشے شندے کا پولیس نے انکاؤنٹر کردیا۔ اگرچہ یہ معاملہ ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہےلیکن اس مڈبھیڑ نے کئی نئے سوالات بھی جنم دیئے ہیں۔ جب بھی پولیس حراست میں کوئی مشتبہ ملزم پولیس پر گولی چلانے کی کوشش کرتا ہے اس طرح کے انکاؤنٹر میں مارا جاتا ہے۔ اس سے ہمیشہ شک کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اس واقعہ کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی ماحول بنا ہے۔ پچھلے ماہ جب یہ واقعہ پیش آیا تھا تو بدلاپور کے شہریوں نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے ریل سروس کو پوری طرح سے ٹھپ کردیا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزم کو سر عام پھانسی دی جائے۔ اس وقت لوگوں کا ری ایکشن فطری تھالیکن کیا اب پولیس نے اکشے شندے کا انکاؤنٹر کرکے بالواسطہ طور پر اسی مطالبے کو پورا کیا ہے؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے:اروند کیجریوال نےآتشی سنگھ کو وزیر اعلیٰ بنا کر بی جے پی کی سیاست پر پانی پھیردیا

دیکھا جائے تو انکاؤنٹر کے واقعات ہندوستان اور مہاراشٹر میں نئے نہیں ہیں۔ ماضی میں کئی مجرم پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش میں مارے جا چکے ہیں۔ چند سال قبل تلنگانہ آبروریزی کیس کے ملزمین بھی اسی طرح انکاؤنٹر میں مارے گئے تھے۔ یوپی میں ۸؍ پولیس والوں کو ہلاک کرنے والےگینگسٹر وکاس دوبے اور اس کے ساتھی بھی پولیس کی مڈبھیڑ میں مارے گئے تھے۔ عام طور پر جب اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو عام لوگ سوچتے ہیں جو ہوا، اچھا ہوالیکن ایسے معاملات سے پیدا ہونے والے شکوک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے اکثر معاملات میں شک کی سوئی پولیس کی جانب گھوم جاتی ہے۔ ‘‘
کلیدی ملزم کو مار کر کیس ختم کرنے کی کوشش
 ہندی اخبار ’جن ستہ‘ ۲۶؍ ستمبر کے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’اکشے شندے کے انکاؤنٹر پر بامبے ہائی کورٹ نے مہاراشٹر پولیس کے طرز عمل پر کئی سخت سوال اٹھائے ہیں۔ عدالت نے اس انکاؤنٹر پر شک ظاہر کرتے ہوئے اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ مہاراشٹر پولیس پر اُٹھ رہے سوال ان تمام ریاستوں کی پولیس پر بھی صادق آتے ہیں جو انکاؤنٹر کے نام پر ملزمین کو مار دیتی ہیں اور پھر اپنی پیٹھ بھی تھپتھپاتی ہیں۔ شر پسندوں اور پولیس کے درمیان تصادم کوئی غیر معمولی بات نہیں ہےلیکن اس حوالے سے کچھ اصول وضوابط ہیں۔ جب بھی پولیس کے سامنے ایسی کوئی صورتحال پیش آتی ہے اور اپنے دفاع میں اسے گولی چلانی پڑتی ہے تو انہیں کمر کے نیچے نشانہ لگانے کی تربیت دی جاتی ہےلیکن پچھلے چند برسوں کے دوران ہونے والی مڈبھیڑ میں ان اصولوں و ضوابط پر کسی طرح کا عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس یا تو اپنی کوئی خامی چھپانا چاہتی ہے یا پھر انہیں عدالتوں پر اعتماد نہیں، وہ خود فیصلے لینے اور سزا دینے پر یقین کرنے لگی ہے۔ 
عدالت نے پولیس کی کہانی کو خارج کردیا
 انگریزی اخبار’لوک مت ٹائمز‘ اپنے اداریے میں لکھتاہے کہ’’بامبے ہائی کورٹ نے بدلا پور جنسی زیادتی کے ملزم کے مبینہ انکاؤنٹر کے دوران مارے جانے پر مہاراشٹر پولیس سے کئی سوال پوچھے ہیں۔ 
  ہائی کورٹ کے مطابق مناسب قانونی عمل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کی جانب سے فوری انصاف کا انتظام ناقابل قبول ہے۔ مقتول اکشے کے والد کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے پولیس کی تھیوری پر شدید شکوک کا اظہار کیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ جب اکشے کو تلوجہ جیل سے تھانے لے جایا جارہا تھا تب اس نے ایک پولیس اہلکار سے ریوالور چھین لیا اور اس پر گولی چلا دی۔ پولیس کی جوابی فائرنگ میں وہ مارا گیا۔ ہائی کورٹ نے پولیس کی کہانی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ اسے انکاؤنٹر نہیں کہا جاسکتا۔ عدالت نے اس واقعہ کی جانچ سی آئی ڈی کے ذریعہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سرکار کو متنبہ کیا کہ اگر جانچ صحیح طریقے سے نہیں کی گئی تو مناسب احکامات جاری کئے جائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK