بی جےپی تفتیشی ایجنسیوں کے استعمال اورفنڈنگ روکنے کے حربے آزما کر اپوزیشن کوگھیرتو سکتی ہے لیکن اسے یہ احساس نہیں ہےکہ کہیں نہ کہیں وہ خود ڈری ہوئی ہے اور اسے اندیشہ ہےکہ عوام کا فیصلہ اس کی امیدوں کے برعکس آنے کے قوی امکانات ہیں۔
EPAPER
Updated: April 15, 2024, 1:20 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
بی جےپی تفتیشی ایجنسیوں کے استعمال اورفنڈنگ روکنے کے حربے آزما کر اپوزیشن کوگھیرتو سکتی ہے لیکن اسے یہ احساس نہیں ہےکہ کہیں نہ کہیں وہ خود ڈری ہوئی ہے اور اسے اندیشہ ہےکہ عوام کا فیصلہ اس کی امیدوں کے برعکس آنے کے قوی امکانات ہیں۔
حکومت یہ ثابت کرنے کی لاکھ کوشش کرے کہ اپوزیشن کے خلاف ملک میں جو قانونی، آئینی اور عدالتی اقدامات کا ماحول بنایاجارہا ہے، اس میں ایجنسیاں آزادانہ کام کررہی ہیں اوراس میں حکومت کا کوئی عمل دخل یادباؤ نہیں ہے لیکن اصل صورتحا ل اس کے برعکس ہے۔ راجناتھ سنگھ نے اروندکیجریوال اورہیمنت سورین کی گرفتاری کے تعلق سے ابھی ۲؍ دن قبل ہی کہا تھا کہ ایجنسیوں اور عدالتوں پرحکومت کا کوئی دباؤ نہیں ہے، وہ اپنا کام کررہی ہیں جبکہ اپوزیشن پارٹیاں اپنی’ غلطیوں اور کمزوریوں ‘ پرپر دہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں۔ مرکزی وزیر دفاع کا یہ بیان یوں تواظہارلا تعلقی کا معلوم ہوتا ہے لیکن لب ولہجہ بتاتا ہےکہ یہ معاملے سے اتنا لاتعلق بھی نہیں ہے۔ اگرچنگاری ہے تو دھواں اٹھے گا ہی، بغیر چنگاری کے دھواں اٹھنا مادی قوانین کے خلاف ہے۔ مذکورہ دونوں لیڈروں کی گرفتاری پران دنوں وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور اب وزیر دفاع راجناتھ سنگھ رد عمل ظاہرکرچکے ہیں اور تینوں نےیکساں لب ولہجے میں اپنا موقف رکھتے ہوئےیہی اشارہ دیا کہ بدعنوانوں کو سزا مل کر رہے گی۔ یعنی ان لیڈروں نے ایجنسیوں کی کارروائی کی طرف ہی اشارہ کیا ہےاور یہ لہجہ کہ بدعنوانوں کوسزا مل کررہے گی، بتاتا ہےکہ حکومت سزا دینے کیلئے بیٹھی ہے، اس میں یہ پہلو بھی چھپا ہوا ہے کہ ایجنسیاں حکومت کے اشارےپر ہی کام کررہی ہیں جو بدعنوانوں کو سزا دلانے کیلئے سرگرم ہیں۔ گرفتاریوں کے علاوہ بھی حکو مت اپوزیشن کوگھیرنے کیلئے کئی راستے اختیار کرر رہی ہے۔
کانگریس اور انکم ٹیکس کا معاملہ
کانگریس کو ان دنوں انکم ٹیکس محکمہ کی جانب سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس معاملے میں حالانکہ انکم ٹیکس محکمہ نے عدالت میں کہا ہے کہ کانگریس کے خلاف انتخابات تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی لیکن اس کے ذریعے پارٹی پرنفسیاتی دباؤ بنانے کی جو کوشش کی گئی ہےاس دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا مشکل ہےکہ اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ انکم ٹیکس محکمہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو ان دنوں میں ۳۵۰۰؍ کروڑ روپے کی وصولی کا نوٹس دے چکا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ اورٹیکس سے استثنیٰ کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر اس کے اکاؤنٹ بھی منجمد کرچکا ہے۔ اس پر حالانکہ محکمہ نے وضاحت دی تھی کہ ۱۳۵؍ کروڑ کی وصولی کیلئے اس کے کھاتے منجمد کئے گئے تھے۔ اس کے بعد کھاتے کھول دئیے گئے۔ یہ ساری کارروائیاں انتخابات سے ایک دومہینے قبل ہی شروع ہوئیں۔ اسی دوران الیکٹورل بونڈ سےبی جے پی کو سب سے زیادہ کم وبیش ایک ہزار کروڑ کے چندے ملنے کا معاملہ بھی سرخیوں میں رہا لیکن بی جے پی کے دفترکادروازہ کھٹکھٹانے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کا کوئی افسر نہیں پہنچا۔
یہ بھی پڑھئے: الیکٹورل بونڈ کی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کیلئے حکومت نے کئی حربے آزمائے
عام آدمی پارٹی اور ای ڈی
دہلی میں بی جےپی کے خلاف سب سے بڑی طاقت عام آدمی پارٹی کو بی جے پی چاروں طرف سے گھیر چکی ہے۔ اس پارٹی نے ۱۲؍ سال کے عرصے میں ہی مرکز کے سامنے وہ چیلنج کھڑا کردیا ہے کہ اب تک کسی چھوٹی پارٹی سے حکومت کو درپیش ایسے سخت چیلنج کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ پوری پارٹی کو شراب گھوٹالے میں مجرم بنادیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ تک کو گرفتار کرلیاحالانکہ انہوں نے ہر بار ای ڈی کے سمن کو غیر قانونی بتایا تھا۔ اسی دوران یوپی میں ٹیچر بھرتی گھوٹالے کی گونج سنائی دی اورپیپرلیک کے بڑے معاملات پیش آئے لیکن کسی تفتیشی ایجنسی کے افسر نے وہاں حکومت کے دفتر میں گھسنے کی کوشش نہیں کی۔ اعدادوشمار کے مطابق یوپی میں ٹیچروں کی ۶۸۰۰؍ اسامیاں خالی ہیں لیکن اہل امیدواروں کی تقرری نہیں کی جارہی ہے۔ نہ اس کا سبب حکومت بتا رہی ہے، نہ مظاہرہ کرنے والے امیدواروں کواعتماد میں لینے کی کوشش کررہی ہے۔ تفتیشی ایجنسیوں کی سارا فوکس کانگریس، آپ اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں پر ہے۔
اپوزیشن کو توڑنے کی کوشش
اپوزیشن کو کمزور کرنے کا بی جےپی کا یہ بھی آزمودہ حربہ رہا ہے اور اس پر وہ مسلسل کام کرتی رہتی ہے۔ مہاراشٹر کی سیاست کو بی جےپی پوری طرح منتشرکرچکی ہے۔ انتخابات سے پہلے کرناٹک اور ہماچل پردیش میں ہلچل کی خبریں مل سکتی ہیں۔ کرناٹک میں حالانکہ وزیر اعلیٰ سدا رمیا نے کہا ہےکہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن بی جےپی کے پاس پیسوں کی طاقت سےاپوزیشن کوخریدنے، توڑنے اور دبانے کے سارے منصوبے ہیں۔ ہماچل پردیش میں کانگریس کے ۱۱؍ اراکین بی جےپی کے خیمےمیں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان میں وہ ۶؍ اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں جنہو ں نے راجیہ سبھا میں کراس ووٹنگ کی تھی۔ انہیں اسپیکرنے نا ا ہل قراردیا ہے اور اس فیصلےپر سپریم کورٹ نے اسٹے لگادیا ہے۔ یہ ساری ہلچل انتخابات سے عین قبل ہورہی ہےجس سے یہ کہنے میں پس وپیش نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت ہروہ طریقہ اپنا نے پر آمادہ ہے جو اس کے حق میں ماحول ساز گار کرے اور اپوزیشن کومتزلزل کرے۔
فرقہ وارانہ کارڈ
یہ اپوزیشن کو گھیرنے کا حکومت کابالواسطہ طریقہ ہے۔ برسراقتدار پارٹی نے اپنے لیڈروں کو ایک مخصوص فرقےکے خلاف زہر افشانی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اورجوکارروائی ہوتی ہے وہ برائے نام ہوتی ہے۔ ایک سرسری تنا سب تلاش کیاجائے تومعلوم ہوگا کہ ۱۰؍ فیصد زہرافشانی کے معاملات پرپارٹی کی جانب سے ایک فیصد(نپورشرما اور رمیش بدھوڑیا کے خلاف ) کارروائی ہوتی ہے۔ یہ کارروائی بھی اب ہونے لگی ہےجبکہ انتخابات قریب آرہے ہیں۔ ہندوتوا واچ کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ء میں کی گئیں ۸۰؍ فیصد تقریریں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی اور نفرت پرمبنی تھیں اور یہ تقریریں ان ریاستوں میں کی گئیں جہاں بی جے پی کی حکومت تھی۔ ان میں حاضرین کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر ابھارا گیا اوراپنے تحفظ کیلئے ہتھیار رکھنے کی اپیل کی گئی۔ یہ بی جے پی کا اپوزیشن کو گھیرنے سے زیادہ بڑا خطرناک حربہ ہے۔ اپوزیشن کا اعلان اقلیتوں، دلتوں، پسماندہ اور قبائلیوں سب کو ساتھ لے کرچلنے کا ہے لیکن بی جے پی لیڈروں کےذریعے جب علی الاعلان فرقہ وارانہ کارڈ کھیلا جارہا ہے تو ایسے میں اپوزیشن کواکثریت مخالف رجحان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور یہی بی جےپی چاہتی ہے۔ یہ حربے او ر اقدامات بی جے پی اقتدار میں ہوتے ہوئے آسانی سے کررہی ہے لیکن اسے یہ احساس نہیں ہےکہ یہ اس کے خوف کی علامت بھی بن چکے ہیں۔ عوام سے اب کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے سیاسی استعمال پر اب کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے۔ بی جےپی کو ا ندیشہ ہےکہ اس کے اقدامات برعکس نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔