• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنے کی مستی کہاں سے آتی ہے؟

Updated: July 14, 2024, 5:29 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

پونے میں ایک ’بڑے‘ باپ کی بگڑی اولاد کے ذریعہ ’ہٹ اینڈ رَن‘ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد گزشتہ دنوں ممبئی میں بھی اسی طرح کا ایک حادثہ پیش آیا۔ اس حادثے کےملزم کے والد کا تعلق ریاست کی حکمراں جماعت سے ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس پر غیر اُردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے؟

RTO officers inspecting the crashed BMW car at Worli Police Station. Photo: INN
ورلی پولیس اسٹیشن میں حادثے والی ’بی ایم ڈبلیو‘ کار کا معائنہ کرتے ہوئے آر ٹی او کے افسران۔ تصویر : آئی این این

’ہٹ اینڈ رن‘ کے معاملات کیوں ہوتے ہیں ؟
مراٹھی روزمانہ لوک ستہ اپنے ۹؍ جولائی کے شمارے میں اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’ورلی میں اتوار کو علی الصباح دوپہیہ گاڑی پر سوار ایک جوڑے کو تیز رفتار لگژری کار نے ٹکر مار دی۔ اس درد ناک حادثے کے بعد انتہائی لاپروائی سے گاڑی چلانے کا معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ پونے کے کلیانی نگر میں ایک تیز رفتار لگژری کار کے ذریعہ۲؍ انجینئروں کی جان لینے کے واقعہ کو بمشکل ڈیڑھ ماہ ہی گزرے تھے کہ ممبئی میں ہٹ اینڈ رن کا معاملہ پیش آگیا۔ ایسے حادثوں میں بس عام آدمی کی جان چلی جاتی ہے اور مزید کچھ نہیں ہوتا ہے۔ جیت کے جشن کیلئے سڑک بلاک کرنے سے لےکر بلا جھجک سگنل توڑنے اور نو انٹری میں گاڑی دوڑانے پر باز پرس کرنے والے ٹریفک اہلکاروں سے حجت کرنا، یہ سب اب معمول بن چکا ہے۔ ماضی کے واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کرنا کا رویہ دن بہ دن پختہ ہوتا جارہا ہے۔ پونے کے واقعہ کا ملزم ایک با اثر بلڈر کا بیٹا تھا جبکہ ممبئی حادثہ کا ملزم شیوسینا(شندے) کے ڈپٹی لیڈر کا بیٹا ہے۔ پونے میں گاڑی چلانے والا نابالغ لڑکاتھا اس فرق کے علاوہ رات کو پارٹی کرنا، ڈرائیور ہونے کے باوجود بذات خود ڈرائیونگ کرنا، حادثہ کے بعد فرار ہوجانا، سب کچھ ایک جیسا ہی ہے۔ ممبئی بی ایم ڈبلیو کار حادثہ کا سب سے درد ناک پہلو یہ ہے کہ ملزم نے خاتون کو نیچے گرانے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سو میٹر تک کار سے گھسیٹا تھا۔ ٹکر کے بعد خاتون نیم بے ہوش ہوگئی تھی۔ ملزم نے اسے اسپتال لے جانے کے بجائے دوبارہ اس کے جسم پر کار چلا دی۔ اگر خاتون کا بر وقت علاج ہوجاتا تو وہ شاید زندہ ہوتی۔ حادثے کا شکار کی بذات خود مدد کرنی چاہئے لیکن ایسا ہونا تو دور وہ متاثرہ افراد کو زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ رویہ کم وبیش ہر جگہ موجود ہے۔ ‘‘
عام آدمی کے زندہ رہنے کی جدوجہد مشکل ہوگئی ہے
  مراٹھی روزنامہ ’سکال‘ نے اپنے ۹؍ جولائی کے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’شہر کاری کی لہر میں عام آدمی کے زندہ رہنے کی جدوجہد بنیادی طور پر مشکل ہوتی جارہی ہے۔ پھر بھی یہ لوگ اپنے لئے چھوٹی سی جگہ بنا کر اس میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جب ان پر وحشیانہ حملہ ہوتا ہے تب ان کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ جب قانون کی بالا دستی کو پامال کرنے والے، اخلاقیات سے عاری اور بے رحم انسانوں کی جانب سے غریبوں پر ظلم ہوتا ہے تب سوال اٹھنا لازمی ہے کہ آخر غریب انسان اپنی زندگی کیسے گزارے؟ ورلی میں ہونے والے دل سوز حادثے نے اس تشویش کو مزید گہرا کردیا ہے۔ ممبئی، پونے، ناگپور اور امبے گاؤں سمیت کئی مقامات پر ہٹ اینڈ رن کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ پونے میں پورشے کار حادثہ اور اتوار کو ممبئی میں ہونے والے حادثے میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی حادثوں میں ملزمین ہائی پروفائل شخصیات کی بگڑی ہوئی اولادیں ہیں۔ ان کی کاریں بھی مہنگی اور دونوں پر الزام ہے کہ وہ پارٹی کرکے لوٹ رہے تھےیعنی شراب پی کر گاڑی چلا رہے تھے۔ امیر گھرانے میں پیدا ہوئے کی وجہ سے انہیں وہ تمام آسائشیں بآسانی مل جاتی ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہوتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے والدین نے مہنگی کاریں خرید کر دلا دیں لیکن انہیں ذمہ داری کا احساس دلانا بھول گئے۔ پونے میں پیش آنے والا واقعہ تو عجیب نوعیت کا تھا۔ ہمارے ہاتھوں کوئی جرم سرزد ہوا ہے، ہماری وجہ سے کسی کی جان چلی گئی، اس کا خاندان تباہ و برباد ہوگیا۔ اس کی قطعی فکر انہیں نہیں تھی۔ ممبئی میں بھی پیش آنے والے حادثے نے اسی سوچ کو ایک بار پھر دُہرایا ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: بھوشی ڈیم سانحہ: موت کو دعوت دینے والی تفریح، جان لیواثابت ہوئی

’پونے‘ میں سختی ہوئی ہوتی تو ’ورلی‘ پیش نہ آتا 
  ہندی روزنامہ ’نوبھارت ٹائمز اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’ اتوار کی صبح وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر کے بیٹے کی بی ایم ڈبلیو کار نے جس طرح ایک دوپہیہ گاڑی کو ٹکر ماری ہے، اس پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ نے فوری طور پر اعلان کیا کہ اس معاملے میں کسی طرح کی کوتاہی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پھر بھی اس معاملے میں بہت سی باتیں قابل توجہ ہیں۔ ممبئی کے اس ہٹ اینڈ رن کیس نے تقریباً ۲ ماہ قبل ہوئے پونے کے کار حادثے کی یاد تازہ کردی ہے۔ نشے میں دھت ۱۷ سالہ لڑکے نے اپنی پورشے کار سے۲؍ افراد کو کچل دیا تھا۔ پولیس نے نابالغ ملزم کو بطور سزا ۳۰۰؍ الفاظ پر مشتمل ایک مضمون لکھنے کی تلقین کی تھی۔ مضمون لکھنے کی سزا نے کافی سرخیاں بٹوری تھیں۔ کہا گیا کہ قانونی نظام معروف بلڈر کے بیٹے کے ساتھ ویسی سختی نہیں دکھا سکا جیسی کہ دکھانی چاہئے تھی۔ اسی وجہ سے ورلی حادثے کے بعد بھی لوگوں کو تشویش ہے کہ کہیں یہاں بھی اسی طرح کی کوتاہی نہ برتی جائے۔ ‘‘
بیشترملزمین اثرو رسوخ کے سبب آزاد گھومتے ہیں 
 مشہور انگریزی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اس موضوع پر لکھا ہے کہ ’’پونے کے خوفناک پورشے کار حادثے کے بعد شیوسینا کے ایک سینئر لیڈر کے نشے میں دھت بیٹے کی بی ایم ڈبلیو کار نے ایک خاتون کی جان لے لی۔ پونے پولیس کے بر عکس ممبئی پولیس نے انتہائی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاریاں کیں۔ اب پولیس کے سامنے وی آئی پی بیٹے کی تحقیقات میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔ ا ن دونوں حادثوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ طاقتور اور امیر خاندانوں کے نوجوان دولت کے زعم میں اس طرح گاڑیاں چلاتے ہیں جو عام لوگوں کیلئے مہلک اور جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ پونے کے علاوہ مزید تین ایسے حادثے رونما ہوئے جن میں بنگلور میں ہوئے ہٹ اینڈ رن کیس کو چھوڑ کر سبھی میں ملزمین اثرو رسوخ کے سبب آزاد گھوم رہے ہیں۔ موٹر وہیکلز(ترمیمی )ایکٹ ۲۰۱۹ ءنے نشے میں گاڑی چلانے کے جرمانے میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ نئے متعارف کرائے گئے بی این ایس سیکشن ۱۰۶؍ نے لاپروائی سے گاڑی چلانے کی سزا کو بڑھا دیا ہےلیکن سوال یہ ہے کہ ان قوانین کے موثر نفاذ کو کون یقینی بنائے گا؟اکثر دیکھا گیا ہے کہ ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار ہی رشوت لے کر شرابی ڈرائیوروں کو بھاگنے کی اجازت دیتے ہیں اور کسی سنگین حادثے کی صورت میں پورا نظام بااثر افراد کو بچانے کی کوشش کرتا ہےجیسا کہ پونے میںہونے والے حادثے سے واضح ہوا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK