راحت دینےکے بجائے طویل مدتی سرمایہ کاری پر ٹیکس عائد کردینے سےسرمایہ کاروں کا بڑا طبقہ متاثر ہوگا۔
EPAPER
Updated: August 04, 2024, 6:01 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
راحت دینےکے بجائے طویل مدتی سرمایہ کاری پر ٹیکس عائد کردینے سےسرمایہ کاروں کا بڑا طبقہ متاثر ہوگا۔
مرکزی حکومت نے بجٹ سفارشات پیش کر دی ہیں جن پرپارلیمنٹ میں بحث جاری ہے۔ قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے بھی اس پر خطاب کیا ہے اور ان کے خطاب کا کافی چرچا ہے۔ راہل گاندھی نے جس چکرویوہ کی مثال پیش کی ہے اور جس انداز میں انہوں نے ذات کی مردم شماری کی بات کی ہے اس نے حکومت کیلئے نئی پریشانی پیدا کردی ہے۔ ویسے تو ملک کی معاشی صورتحال سے سبھی واقف ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو بجٹ سے بہت امیدیں رہتی ہیں۔ بجٹ سفارشات پیش کرتے ہوئے حکومت کے لئے بڑا مسئلہ رہتا ہے کہ ایک جانب تو ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کا دباؤ ہوتا ہے اور دوسری جانب عوام کی امیدیں پورا کرنے کا دباؤ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ وہ عوام کی نظر میں غیر مقبول ہو اور یہیں سے اس کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ حکومت کی کیا معاشی ترجیحات ہونی چا ہئیں اس کو طے کرنے کے لئے عام طور پر بجٹ سفارشات ہی ہوتی ہیں۔ گزشتہ دس سال سے حکومت عوام کے سامنے جو معاشی صورتحال پیش کر رہی تھی اس سے عوام کو یہ امید بندھ گئی تھی کہ حکومت اور ملک دونوں ہی معاشی طور پرمستحکم ہیں اور حکومت ان کی کوئی بھی خواہش پوری کر سکتی ہےجبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور اسی وجہ سے لاکھ چاہتے ہوئے بھی وہ عوام کو راحت نہیں دے سکی۔ زراعت، تعلیم اور دفاع جیسے شعبے بھی اس کی بجٹ سفارشات میں ترجیح پر نہیں رہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کی معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہے۔ حکومت کو جہاں کسانوں کو قانونی ایم ایس پی کا بجٹ میں اعلان کرنا چاہئے تھا وہیں روزگار کے لئے بھی ٹھوس اعلانات کرنے کی ضرورت تھی لیکن معاشی صورتحال نے اس کی اجازت نہیں دی۔ حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبہ میں کسی نئی سفارش کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے آنے والے برسوں میں یہ شعبے بھی کافی متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:دوسری پارٹیوں کے ’سیکولر‘ لیڈر بی جے پی میں جاتے ہی فرقہ پرست کیوں ہوجاتے ہیں؟
اس بجٹ کے مجموعی تاثر کی بات کی جائے توملک کے کسی بھی شعبے نے اس کا استقبال کیا ہے اور نہ معمولی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ روزگار پیدا کرنے کے چند اعلانات کے علاوہ بجٹ کے تعلق سے جو بات سب سے زیادہ دہرائی گئی وہ انکم ٹیکس دہندگان کو راحت کی بابت تھی۔ یہ ہر چند کہ راحت ہے لیکن مہنگائی کے بوجھ تلے دبے متوسط طبقے کے لئے یہ بہت معمولی راحت ہے لیکن اس راحت کا بھی بجٹ کی دوسرے پیراگراف میں ہی قلع قمع کردیا گیا جب وزیر مالیات نے ’لانگ ٹرم کیپٹل گین ‘ ٹیکس کا اعلان کردیا۔ اس ضمن میں انہوں نے معمولی راحت دیتے ہوئے ایک لاکھ ۲۵؍ ہزار روپے کی رقم کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا لیکن اس کے بعد کی رقم پر ٹیکس عائد کردیا۔ یہ اس طرح سے سرمایہ کاری کو متاثر کرسکتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے سرمایہ کار جو شیئر مارکیٹ کے ساتھ ساتھ پراپرٹی میں انویسٹ کرتے ہیں انہیں اب اپنے منافع پر ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ اس میں وزیر مالیات نے’ مہنگائی کے اثر‘ کو قیمت میں شامل کرنے کی رعایت بھی ختم کردی۔ حالانکہ انہوں نے یہ ٹیکس ۲۰؍ فیصد سے کم کرکے ۱۲ء۵؍ فیصد کردیا ہے لیکن سیکڑوں ماہرین اور ٹیکس کلکٹرس نے اس قدم کو زیادہ ٹیکس وصولی قرار دیا ہےکیوں کہ اس میں سے مہنگائی کا اثر نکال دیا گیا ہے جس سے لامحالہ ایک سرمایہ کار کو زائد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ اس ٹیکس کے اعلان نے چھوٹے چھوٹے سرمایہ کاروں کو ابھی جھٹکوں سے دوچار ہی کیا تھا کہ وزیر مالیات نے انہیں بجلی کا جھٹکا دیتے ہوئے شیئر مارکیٹ میں سرمایہ کاری پر ہونے والے منافع پر بھی ٹیکس عائد کردیا۔ اس میں یہ شق بھی عائد کردی گئی ہے کہ اگر منافع ہوا تو سرکار ٹیکس لے گی اور نقصان ہوا تو وہ سرمایہ کار کا ہو گا۔ اس میں حکومت کی جانب سے کوئی راحت نہیں دی جائے گی۔ ان دونوں اقدامات سے ملک کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے سرمایہ کار سخت نالاں ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس تعلق سے بنائے گئے ویڈیوز اور ریلز کا دنوں سیلاب آیا ہوا ہے جس میں واضح طور پر بتایا جارہا ہے کہ مودی حکومت کے ان دونوں اقدامات نے انہیں سخت مشکل میں مبتلا کردیا ہے۔
سرکار کے اس بجٹ سے ناراضگی نتیش کمار اور چندا بابو نائیڈو کے علاوہ ملک کے تقریباً ہر طبقے کو ہے کیوں کہ ہر کوئی یہ امید کر رہا تھا کہ انہیں کوئی نہ کوئی راحت دی جائے گی لیکن وزیر مالیات نرملا سیتا رمن، جنہوں نے ریکارڈ ساتواں بجٹ پیش کیا ہے، نے سبھی کو مایوس کیا ہے۔ بجٹ کی مذمت میں جہاں پارلیمنٹ میں مختلف پارٹیوں کے لیڈران مسلسل سرکار کو نشانہ بنارہے ہیں اور اپنے اپنے اعتراضات پیش کررہے ہیں وہیں سوشل میڈیا پرایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہا ہے جس میں بتایا جارہا ہے کہ ایک فارچیونر کار خریدنے پر ٹیکس اس کی قیمت کے تقریباً برابر ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ویڈیو کے مطابق فارچیونر کے سب سے سستے ماڈل کی قیمت ۳۳؍ لاکھ روپے جبکہ سب سے مہنگے ماڈل کی قیمت ۵۵؍ لاکھ روپے کے آس پاس ہے۔ اگر آپ سستا والا ماڈل خریدتے ہیں تواس کی اصل قیمت میں سے آپ تقریباً ۱۸؍ لاکھ روپے ٹیکس ادا کررہے ہو اور اگر ۵۵؍ لاکھ روپے والا ماڈل خرید رہے ہو تو ٹیکس کی رقم ۳۲؍ لاکھ روپے کے قریب ہو جائے گی۔ یعنی سستے والے ماڈل کی قیمت کے تقریباً برابر۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں لوگ کس پیمانے پر ٹیکس ادا کررہے ہیں اور جہاں تک بات ہے اس کے مقابلے میں سہولتوں کی تو اس بارے میں ہمیں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔