ہیمنت بسوا شرما ہوں، شوبھندو ادھیکاری ہوں، گورو بھاٹیہ ہوں یا پھر کپل مشرا، ان کے بیانات نے صرف فرقہ واریت پھیلائی ہے۔
EPAPER
Updated: July 22, 2024, 1:23 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
ہیمنت بسوا شرما ہوں، شوبھندو ادھیکاری ہوں، گورو بھاٹیہ ہوں یا پھر کپل مشرا، ان کے بیانات نے صرف فرقہ واریت پھیلائی ہے۔
۲۰۱۴ء میں جب سے بی جے پی مرکز میں اقتدار میں آئی ہے اور ریاستوں میں بھی اس کا بول بالا ہوا ہے تب سے سیکولر پارٹیوں کے متعدد لیڈروں نے، جو خود کو سیکولر کہلوانا پسند کرتے تھے، اپنے ووٹرس اور اپنے وعدوں کو بھول کر بی جے پی کو گلے لگالیا ہے۔ ان میں کئی بڑے نام ہیں جن میں ہیمنت بسوا شرما، اشوک چوان، جیوترادتیہ سندھیا ، ریتا بہو گنا جوشی، آر پی این سنگھ، جتن پرساد، شوبھندو ادھیکاری، گورو بھاٹیہ اورکپل مشرا کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ سبھی لیڈران وہ ہیں جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران بی جے پی کا دامن تھاما ہے۔ ان میں سے کچھ نے بلاشبہ سیکولر پارٹیوں میں رہنے اور وہاں کے کلچر کو اپنانے کا حق کسی نہ کسی طرح ادا کیا ہے۔ ان لیڈروں نے بی جے پی میں شمولیت تو اختیار کرلی ہے لیکن زہر افشانی اور فرقہ وارانہ بیان بازی سے گریز کرتے رہے ہیں لیکن کچھ ایسے لیڈران ہیں جو کل تک سیکولر پارٹیوں میں ضرور تھے لیکن جیسے ہی وہ بی جے پی میں پہنچے، ان کے اندر کی فرقہ واریت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ ان میں ہیمنت بسوا شرما، شوبھندو ادھیکاری، گورو بھاٹیہ اور کپل مشرا کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما کیلئے متنازع بیانات اور اشتعال انگیزی نئی نہیں ہے۔ انہوں نے بی جے پی میں شمولیت کے بعد ہی سے اپنے آپ کو سب سے بڑا ’بی جے پی بھکت‘ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حالانکہ انہوں نے آسام کی کانگریس حکومت میں وزیر صحت رہتے ہوئے کئی اہم کام کئے تھے جس کی وجہ سے وہاں انہیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی تھی اور ان کے سیاسی قد میں بھی اضافہ ہوا تھا لیکن وزارت اعلیٰ کی کرسی نہ دئیے جانے سے ناراض ہوکر انہوں نے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک وہ مسلسل زہر افشانی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بیانات دیکھ کر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ کبھی کسی سیکولر پارٹی میں بھی تھے۔ آسام کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے تو ان کے بیانات زہر میں ڈوبے ہوئے تیر محسوس ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے بیانات کیوں دیتے ہیں ؟ کیا اس کی وجہ سے ان کا ووٹ بینک مضبوط ہوتا ہے یا پھر وہ اپنے آقائوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ ویسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی میں اپنے آپ کو پرانے بی جے پی والوں سے زیادہ بہتر ثابت کرنے کا دبائو ان ’سیکولر‘ لیڈروں پر رہتا ہو گا اسی وجہ سے یہ لوگ ایسے بیانات دیتے ہیں جو ان کے ماضی میں کئے گئے تمام بہتر کاموں کو ایک ایک کر کے داغدار کردیتے ہیں۔ ویسے ہمیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کانگریس کی مرکزی قیادت اوردیگر لیڈران دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوں گے کہ اس سطح کی فرقہ پرستی ان کی صفوں سے باہر نکل گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ورلڈ کپ فتح : ٹیم انڈیا نے عالمی کرکٹ پر اپنے دبدبے کو مزید مستحکم کرلیا ہے
ایسا ہی معاملہ مغربی بنگال میں اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری کا ہے جو کل تک ممتا بنرجی کے دست راست تھے لیکن بی جے پی نے انہیں نہ جانے کیسے اپنی پارٹی میں آنے کیلئے منالیا۔ وہ جب سے بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں تب سے ان کے بیانات سیاسی مخالفت سے زیادہ ذاتی دشمنی پر مبنی محسوس ہوتے ہیں۔
انہوں نے ممتا بنرجی کے ہر قدم کی مخالفت کو اپنا طرہ امتیاز بنالیا ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر ایسے بیانات دے جاتے ہیں جن سے کھلی ہوئی فرقہ واریت کی بو آتی ہے۔ سندیش کھالی کے موضوع کو انہوں نے جس طرح سے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی وہ واضح مثال ہے کہ یہ لیڈران اپنی سیاسی زمین کو پختہ کرنے کیلئےنچلی سطح تک گرسکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مودی حکومت کے دلفریب نعرے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے خلاف بیان دے کر انہوں نے خود کو بڑا فرقہ پرست ثابت کرنے کی بھی کوشش کی لیکن اس معاملے میں انہیں پارٹی نےفی الحال نچلا بٹھادیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے اس سے قبل جتنے بھی فرقہ وارانہ بیانات دئیے ہیں ان کی وجہ سے بنگال میں اقلیتوں کے لئے جینا دوبھر ہو سکتا ہے۔ شاید انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے لیکن اپنے آپ کو بڑا ’ہندو ‘ ثابت کرنے کی کوشش میں وہ انسانیت کے خلاف بیانات دینے سے بھی نہیں ہچکچارہے ہیں۔
سماج وادی پارٹی سے بی جے پی میں شامل ہوئے گورو بھاٹیہ کا معاملہ بھی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ حالانکہ کھل کر اشتعال انگیزی نہیں کرتے ہیں کیوں کہ پارٹی نے انہیں ترجمان بنا رکھا ہے لیکن جب جب بی جے پی کے فرقہ وارانہ اقدامات کے دفاع کی بات آتی ہے تو بی جے پی کے پرانے لیڈر تو دور رہے گورو بھاٹیہ سب سے آگے بڑھ کر ان کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید گورو بھاٹیہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پارٹی نے انہیں سیاسی قد عطا کیا یعنی سماج وادی پارٹی، اس کے بنیادی ووٹرس ہی اقلیتیں اور یادو ہیں۔
عام آدمی پارٹی سے بی جے پی میں شامل ہوئے کپل مشرا بھی اوپر ذکر کئے گئے لیڈروں سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ ان پر تو اپنے انتہائی اشتعال انگیز اور توہین آمیز بیانات کے ذریعے دہلی فساد کی آگ بھڑکانے کا الزام لگتا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالتوں میں اسے ثابت نہیں ہونے دیا گیا لیکن کپل مشرا کے بیانات نے فرقہ وارانہ فضا مسموم بنائے رکھنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان لیڈران کے نام گنوانا ہمارا مقصد نہیں ہے بلکہ صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ سیاسی طور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لئے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانا عام بات ہے اور اس پارٹی سے وفاداری کا مظاہرہ کرنا بھی ضروری ہے لیکن اس کے لئے سیکولر لیڈران اپنے اقدار سے سمجھوتہ نہ کریں۔ کچھ لیڈروں نے بلاشبہ ایسا نہیں کیا ہے۔