کچھ دنوں قبل ایک خبر آئی تھی۔ ایک آدمی نے اپنی ماں کا گلا دبا کر اسے ہلاک کردیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ماں جو بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی غلطیوں کو نظرانداز کرتی رہی اور اس کے جرائم کی پردہ پوشی کرتی رہی تھی، ایک دن ایسی کوئی بات ہوئی کہ وہ خود اس کی زد پر آگئی۔
مدھیہ پردیش میں شہزاد علی کا وہ بنگلہ جسے ’بلڈوزر راج‘ نے مسمار کردیا۔ تصویر : آئی این این
کچھ دنوں قبل ایک خبر آئی تھی۔ ایک آدمی نے اپنی ماں کا گلا دبا کر اسے ہلاک کردیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ ماں جو بچپن سے لے کر جوانی تک اس کی غلطیوں کو نظرانداز کرتی رہی اور اس کے جرائم کی پردہ پوشی کرتی رہی تھی، ایک دن ایسی کوئی بات ہوئی کہ وہ خود اس کی زد پر آگئی۔ اُس دن اس نےاسے ڈانٹنے کی جرأت اور حد میں رہنے کی نصیحت کربیٹھی تھی۔ وہ بھول بیٹھی تھی کہ اس کا بیٹا نصیحت پر عمل کرنے اور ڈانٹ سننے کے دائرے سے کب کا باہر نکل چکا تھا۔ بیٹے کو غصہ آیا، اس نے ماں کا گلا دبا کر ڈانٹنے اور نصیحت کرنے والی آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کردیا۔
اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہے بلکہ یہ قانون ِ فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ انجام ہر اُس ماں، ہر اُس سرپرست، ہر اُس سماج اور ہر اُس ادارے کا ہوتا ہے جو ’اپنوں ‘ کی غلطیوں کو نظر انداز اور اس کے جرائم کی پردہ پوشی کرتا ہے۔
ملک میں اِن دنوں جس طرح کے حالات ہیں اور جس طرح سے فرقہ پرست طاقتیں سیاسی اور مذہبی طورپر اپنے مخالفین کو نشانہ بنارہی ہیں اور اس پر جس طرح سے عدالتوں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے، اس میں اسی طرح کے عناصر کے سر اُبھارنے کا خدشہ ہے جو کل ’اپنوں ‘ ہی کا گلا دبائیں گے۔ اگر ان کی سرپرستی اسی طرح جاری رہی تو کل کو یہی عناصر بھسما سر بنیں گے۔
کل کی بات کل.... آج کی صورت حال یہ ہے کہ انتقامی کارروائیوں کے تحت اگر کہیں بلڈوزر چلتا ہے تو کوئی عمارت بعد میں گرتی ہے، قانون و عدالت کا بھرم پہلے ٹوٹتا ہے۔ سول سوسائٹی سے لے کر ایک عام شہری تک عدالت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا ملک میں قانون کی پاسداری کی جارہی ہے؟کیا سپریم کورٹ ملک میں ’سپریم‘ کی حیثیت میں ہے؟ اور کیا ملک میں قانون و عدالت کی حکمرانی ہے؟
یہ بھی پڑھئے:کولکاتا جیسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟
یہ سوال اسلئےپوچھا جارہا ہے کہ ہمارے جسٹس حضرات اپنے مشاہدوں میں یا کسی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے جو باتیں کہتے ہیں یا جن خدشات کا اظہار کرتے ہیں، انہی باتوں کو اُس وقت نظرانداز کردیتے ہیں جب ان سے اس پر کسی ایکشن کی توقع کی جاتی ہے۔ اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور آسام میں اِس وقت جس طرح کی سیاسی کارروائیاں کی جا رہی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس پر سول سوئٹی کی جانب سے آواز بھی بلند کی جارہی ہے لیکن افسوس کہ عدالتیں نوٹس نہیں لے رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے چھترپور میں مقامی لیڈر شہزاد علی کے بنگلے پر بلڈوزر چلا دیاگیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی مکان کی تعمیر کے وقت انہوں نے کچھ ضابطوں کو نظراندازکردیا تھا .... لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اصل وجہ یہ تھی کہ انہوں نے حضور اکرم ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ پولیس کاالزام ہے کہ انہوں نے اس مجمع کی قیادت کی تھی جس نے پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا تھا۔ اگر یہ دونوں الزام درست ہوں تو بھی، کیا مکان پر اس طرح بلڈوزر چلادینا درست ہے؟
قانون کے نام بی جے پی اور اس کی حکومتیں جس طرح سے قانون شکنی کررہی ہیں، اس پر قانون کی حفاظت کرنے والے ادارے کا اس طرح خاموش رہنا تشویش کی بات ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ، ہیمنت بسوا شرما، موہن لال یادو اور بی جے پی کے دیگر لیڈروں کے بیانات کو سنیں تو ایسالگتا ہے کہ آج ظالم بننے کو باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔
گزشتہ دنوں بھاشا سنگھ، کولن گونزالویز، ہرش مندر، منوج جھا، وجاہت حبیب اللہ اور یشووردھن آزاد جیسی شخصیات نے ’بلڈوزر راج‘ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے عدالت سے اپیل کی تھی کہ وہ اس جانب توجہ دے ورنہ ملک میں قانون کی حکمرانی پر سوال اٹھنے لگے گا۔ اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنرل سیکریٹری اگنیس کیلامارڈ نے بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ’’ ہندوستانی حکام کی جانب سے مسلمانوں کی عمارتوں کو غیر قانونی طریقے سے زمین دوز کرنے کا ایک سلسلہ جاری ہے جسے’بلڈوزر جسٹس‘ کے نام سے فروغ دیا جارہا ہے، ظالمانہ اور خوفناک ہے۔ اس طرح کی کارروائی مکمل طور سے غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔ ‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ باتیں جو سول سوسائٹی کو معلوم ہیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کو پتہ ہیں، ہماری عدالتیں اس سے لاعلم ہیں ؟ ہماری عدالت کو شہریوں کے حقوق کی حفاظت کا ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس از خود مقدمات کی سماعت (سوموٹو) کا اختیار ہوتا ہے جس کے تحت ملک کے کسی بھی کونے میں ہونے والی کسی بھی ناانصافی کے خلاف وہ از خود نوٹس لے سکتا ہے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ اگر ظلم و جارحیت کی سرپرستی کو اسی طرح نظرانداز کیا جاتا رہا اور ان عناصر کے جرائم کی اسی طرح پردہ پوشی ہوتی رہی تو ایک دن ان کے ہاتھ قانون کی گردن تک بھی پہنچ جائیں گے۔