• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کولکاتا جیسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟

Updated: August 19, 2024, 5:28 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

اس کی ایک بڑی وجہ مجرموں کے ساتھ ’اپنوں‘ اور’غیروں‘ والا رویہ ہے۔ ’اپنے مجرموں‘ کی مدد اور اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کی جاتی ہےلیکن مجرم اگر ’غیر‘ ہے تو ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

کولکاتا کے ’آرجی کر‘ کالج میں جو کچھ ہوا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ مجرم نے درندگی، حیوانیت اور سفاکیت کی تمام حدیں پار کردی ہیں ۔ اس کیلئے جس قدر بھی سخت سزائیں تجویز کی جائیں ، وہ کم ہوں گی۔ اسی طرح مجرم کا بالواسطہ یا بلا واسطہ ساتھ دینے والے دیگر مجرمین کا انجام بھی عبرت ناک ہونا چاہئے تاکہ ایسا گھناؤنا جرم کرنے یا اس طرح کے جرائم پر آنکھیں بند رکھنے اور مجرم کا ساتھ دینے والوں کو بھی سبق ملے۔ 
 لیکن اسی کے ساتھ ایک سوال بھی ہے۔ کیا آر جی کر کالج کے مجرم کو قرار واقعی سزا دے دینے کے بعد اس طرح کے جرائم پر روک لگ جائے گی؟ کیا سماج دشمن عناصر اس سے کوئی سبق لیں گے؟ کیا اس کے بعد اس نوعیت کے جرائم کی شرح میں کمی آجائے گی؟ 

یہ بھی پڑھئے:بی جے پی کی اُلٹی گنتی شروع

شاید نہیں ....کیونکہ آج کی تاریخ میں سماج کا ایک بڑا طبقہ کسی جرم کی سنگینی کا اندازہ اس جرم کی نوعیت سے نہیں لگاتا بلکہ یہ دیکھتا ہے کہ مجرم کون ہے؟ مجرم ’اپنا‘ ہے تو زبان بند رکھتا ہے، آنکھیں پھیر لیتا ہے اور حالات ’معقول‘ ہوں تو ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاس کی حمایت تک کرتا ہے۔ پہلے یہ رویہ مذہبی بنیاد پر ہوتا تھالیکن اب اس کا دائرہ بڑھ گیا ہے۔ اب یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ واقعہ کس ریاست میں پیش آیا ہے؟ اور اس ریاست کے برسراقتدار طبقہ کا سیاسی نظریہ کیا ہے؟ 
مجرم، مجرم ہوتا ہے، اس کا کوئی مذہب اور کوئی سیاسی نظریہ نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ آج مجرم پر تنقید اس کا مذہب اوراس کا سیاسی نظریہ دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں جرائم پر قابو بھلا کس طرح پایا جاسکتا ہے؟
 ۹؍ اگست کو پیش آنے والے ’آرجی کر‘ کالج کا واقعہ بہت سنگین ہے اور ملک کو شرمسار کرنے والا ہے، اسلئے اس کے خلاف ملک گیر احتجاج بہت ضروری ہے .... لیکن ۱۱؍ اگست کو بہار کے مظفر پور میں جو واقعہ پیش آیا، اس کی سنگینی بھی کم نہیں ہے۔ وہاں ۱۴؍ سال کی ایک بچی کا اس کے والدین کے سامنے اغوا ہو جاتا ہے اوراس کی لاش دوسرے دن گاؤں کے ایک تالاب سے برآمد ہوتی ہے۔ اس معاملے میں بھی مجرمین نے حیوانیت اورسفاکیت کی ساری حدیں پار کردی ہیں ۔ اس معصوم بچی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اسے سوچ کر ہی روح کانپ اُٹھتی ہے، اسے بیان کیا جاسکتا ہے، نہ ہی اس کی سنگینی کو ضبط تحریر میں لایاجاسکتا ہے.....لیکن اس پر میڈیا میں کوئی ’بحث‘ ہے، نہ ہی کوئی ملک گیر احتجاج ہے۔ کیا صرف اسلئے کہ وہ دلت کی بیٹی تھی یا اسلئے کہ اُس ریاست میں بی جے پی اتحاد کی حکومت ہے؟
  ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ’آرجی کر‘ کالج کی وجہ سے یہ معاملہ دب گیا۔ کیونکہ اس واقعہ سے قبل ۳۰؍ جولائی کو اتراکھنڈ کے نینی تال میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جہاں ایک اسپتال سے گھر واپس ہورہی ایک نرس کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے اور پھر گلا گھونٹ کر اسے مار دیا جاتا ہے۔ اس کی لاش ایک ہفتے بعد ۸؍ اگست کو ملتی ہے، لیکن میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس موضوع پربھی کوئی بات نہیں ہوتی۔ کیا اسلئے کہ وہاں بی جے پی کی حکومت ہے؟

یہ بھی پڑھئے:ذات پر مبنی مردم شماری : بی جے پی، کانگریس کے ’چکرویوہ‘ میں پھنستی جارہی ہے

اترپردیش میں جہاں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے، وہاں اس طرح کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں ۔ یوپی میں ہونے والے جرائم کو بھی میڈیا میں جگہ نہیں مل پاتی۔ کیا اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہاں اقتدار پر بی جے پی قابض ہے؟
  بی جے پی کا نام اسلئے لیا جارہا ہے کہ کولکاتا معاملے کو بی جے پی ایک نیا رُخ دینے کی کوشش کررہی ہے۔ اس معاملے کو جرم کی طرح نہ دیکھ کر، وہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کیلئے ماحول سازی کررہی ہے۔ اس معاملے میں ممتا حکومت کی ناکامی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ ناکامی بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح بہار کی نتیش سرکار اور اتراکھنڈ کی دھامی سرکار کی ہے۔ 
 ہونا تو یہ چاہئے کہ اس ملک گیر احتجاج میں ’آرجی کر‘ کالج کے ساتھ ہی ’مظفرپور‘ اور ’نینی تال‘ کے واقعات کو بھی شامل کرلیا جاتا، ان کے خلاف بھی احتجاج کیا جاتا، کینڈل مارچ نکالے جاتے اور ان معاملات کے متاثرین کیلئے انصاف اور مجرمین کیلئے سخت سزاؤں کا مطالبہ کیا جاتا..... لیکن بی جے پی اوراس کی حامی میڈیا سے اس طرح کی توقع نہیں کی جاسکتی جس کیلئے اپوزیشن کی حکمرانی والی ریاستوں میں ہونے والے واقعات ہی جرم قرار پاتے ہیں ، جس کے ایک وزیراعلیٰ ایک معاملے میں ماخوذ ۱۷؍ ملزمین میں سے صرف ۲؍ کے نام بتاتے ہیں اور جس پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو منی پور میں حالات نارمل محسوس ہوتے ہیں ۔ 
 لیکن بات صرف بی جے پی کی نہیں ہے بلکہ پورے سماج کی ہے، اسلئے اس ’جرم‘کی ذمہ داری پورے سماج پر عائد ہوتی ہے۔ یہ وہی سماج ہے جو بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کو قبول کرلیتا ہے، ان مجرمین کی گلپوشی پر خاموشی اختیار کرلیتا ہے اورہاتھرس میں اجتماعی آبروریزی کے بعد دوشیزہ کے قاتلوں کی پشت پناہی کرنےوالوں کو ایک بار پھر اقتدار سونپ دیتا ہے۔ معاف کیجئے! جس سماج کا یہ رویہ ہو، اس سماج میں ایک دو مجرم کو سزا دے دینے سے سماج دشمن عناصر کی حوصلہ شکنی نہیں ہوسکتی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK