ای وی ایم سے نجات دلانے اور بیلٹ پیپر کے ذریعہ انتخابات کروانے کی اپیل کو مسترد کرکے سپریم کورٹ نےعوام میں بے چینی پیدا کردی ہے۔
EPAPER
Updated: December 09, 2024, 4:57 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
ای وی ایم سے نجات دلانے اور بیلٹ پیپر کے ذریعہ انتخابات کروانے کی اپیل کو مسترد کرکے سپریم کورٹ نےعوام میں بے چینی پیدا کردی ہے۔
حال ہی میں اختتام پذیر مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کےدوران ای وی ایم سے مبینہ چھیڑ چھاڑ کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے اگلے انتخابات بیلٹ پیپر کے ذریعہ کروانے جانے کی درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کردی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے انصاف پسند عوام کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج سے نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکمراں طبقہ بھی حیران ہے۔ اس صورتحال میں ای وی ایم پر شک وشبہات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ای وی ایم کے خلاف عوامی سطح پر تحریک چلاتے ہوئے ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں دیگر زبانوں کے اخبارات نے ووٹنگ مشینوں کے بارے میں کیا کچھ لکھا ہے؟
ای وی ایم ہے تو سب ممکن ہے
مراٹھی اخبار’سامنا‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے نتائج ظاہر ہوئے چار دن ہو چکے ہیں تاہم ای وی ایم کے کردار کولے کر بحث ومباحثہ کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ بالخصوص مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج میں ای وی ایم کی ’شراکت‘ کو لے کر تنازع، بحث اور الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ اب امریکی بزنس مین اور ٹیسلا اور اسپیس ایکس جیسی دنیا بھر میں مشہور کمپنیوں کے سربراہ ایلون مسک بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں۔ وہ ہندوستان کے ای وی ایم سسٹم سے بہت حیران ہیں۔ مسک نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ `ہندوستان میں ای وی ایم سسٹم نے ایک ہی دن میں ۶۴؍ کروڑ ووٹوں کی گنتی کرڈالی جبکہ امریکہ میں صدارتی عہدے کیلئے ووٹوں کی گنتی ۱۸؍ دنوں کے بعد بھی جاری ہے۔ مسک نے یہ بھی کہا کہ وہ ہندوستانی ای وی ایم کی گنتی کی رفتار سے بھی اچنبھے میں پڑ گئے ہیں۔ ایلن مسک نے چھ ماہ قبل ہی ای وی ایم پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا کردیا تھا۔ اس وقت مسک نے واضح طور پر اعتراض درج کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ووٹنگ مشینوں کو’اے آئی‘ یا انسانوں کے ذریعہ ہیک کیا جاسکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے ای وی ایم کی جگہ بیلٹ پیپر کے استعمال کا مشورہ دیا تھا۔ پچھلے دس برسوں میں ہونے والے انتخابات میں ای وی ایم نامی ’جادوگر‘ کا کمال دیکھنے کو ملا ہے۔ اندھ بھکت کہتے ہیں کہ مودی ہے تو ممکن ہےلیکن مہاراشٹر کے نتائج نے ثابت کردیا کہ ای وی ایم ہے تو سب کچھ ممکن ہے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:منی پور کے تعلق سے مودی حکومت کب سنجیدہ ہوگی؟
کہیں کچھ تو گڑبڑ ہے
مراٹھی اخبار’سنچار‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہےکہ ’’مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج پراسرار اور ناقابل یقین ہیں۔ یہ تصور سے پرے ہے کہ مہاراشٹر کے ووٹرس نے لوک سبھا انتخابات میں جن پارٹیوں کو زمین پر لایا تھا، ان کو اسمبلی انتخابات میں آسمان پرپہنچا دیں گے۔ رائے دہندگان کو شک ہے کہ انتخابات کا نتیجہ مرکز کے حکمرانوں نے پہلے ہی طے کرلیا ہوگا۔ جب یہاں کوئی مودی لہر نہیں تھی تب آخر مہایوتی کو بھاری اکثریت کیسے مل سکتی ہے؟مراٹھا ریزرویشن معاملے میں منوج جرنگے پاٹل نے مراٹھا بھائیوں میں بی جے پی کے خلاف آگ بھڑکا دی تھی اس کے باوجود بی جے پی نے ۱۳۲؍ سیٹیوں پر کامیابی کیسے حاصل کرلی؟شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی پارٹی اور انتخابی نشان کو چھیننے والے اجیت پوار اور ایکناتھ شندے کے تئیں مراٹھی لوگوں میں ناراضگی ہونے کے باوجود ان کی پارٹیوں کو کامیابی ملنے پر کسی کو بھروسہ نہیں ہے۔ ای وی ایم پر نہ صرف اپوزیشن پارٹیوں بلکہ عوام کو بھی شک ہے۔ شرد پوار نے ای وی ایم سسٹم پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے کیونکہ کوئی ثبوت نہیں ہے لیکن انہوں نے جو رائے ظاہر کی ہے وہ یقیناً سوچنے والی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات اور چھوٹی ریاستوں کے انتخابات میں ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی ہےمگر بڑی ریاستوں کو جیتنے کیلئے سازشیں یقیناً کی جاتی ہیں۔ کئی جگہوں پر ووٹنگ کا فیصد اور گنتی کے دوران اعداد وشمار کے فرق سے واضح ہوتا ہے کہ کہیں کچھ تو گڑبڑ ہے۔ ‘‘
ووٹرس کو ورغلانے والوں پرپابندی ضروری ہے
ہندی اخبار ’لوک مت سماچار‘ `نے ۲۸؍ نومبر کو اداریہ لکھا ہے کہ’’ الیکشن میں جس صوبے میں اپوزیشن پارٹیاں ہار جاتی ہیں، وہاں ای وی ایم میں خرابی کا شور مچانے لگتی ہیں۔ منگل کو سپریم کورٹ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے الیکشن کرائے جانے کے بجائے بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹنگ کروانے کی درخواست مسترد کردی۔ کے اے پال نامی شخص نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے ملک میں بیلٹ پیپر سے انتخابات کروانے کی درخواست کی تھی۔ اپنی درخواست میں پال نے کچھ ایسے مسائل کا بھی ذکر کیا تھا جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے۔ اپنی درخواست میں انہوں نے کہا تھاکہ رائے دہندگان کو پیسے یا کوئی اور لالچ دینے والے امیدوار کو پانچ سال کیلئے الیکشن لڑنے سے محروم کردینا چاہئے۔ ای وی ایم کے خلاف بحث کرتے ہوئے عرضی گزار نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ۱۵۰؍ ممالک کا سفر کیا ہے۔ ان ممالک میں بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کروائے جاتے ہیں۔ انہوں نے عالمی شہرت یافتہ بزنس مین ایلون مسک کے اس تبصرہ کا بھی ذکر کیا کہ ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کی جڑیں کافی مضبوط ہیں کیونکہ ووٹرس خواہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں یا کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ ہوں وہ سیاسی طور پر انتہائی باخبر ہوتے ہیں اور سوچ سمجھ کر ووٹ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی جماعتیں ذات، مذہب، مسلک اور فرقہ وارانہ کا کارڈ کھیل کر رائے دہندگان کو جذباتی طور پر ورغلانے کا کام کرتی ہیں، اسلئے اس سلسلے پر روک لگانا ضروری ہے۔ ‘‘
الیکشن ہارنے کے بعد ہی واویلا کیوں ؟
انگریزی اخبار ’دی ہندوستان ٹائمز‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’جب کانگریس الیکشن ہارجاتی ہے تب وہ ای وی ایم پر سوال اٹھاتی ہے۔ ہریانہ میں ہار کے بعد بھی ای وی ایم کی شفافیت پر سوال کئے گئے تھے۔
مہاراشٹر الیکشن ہارنے کے بعد کانگریس نے ای وی ایم کے خلاف جارحانہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ این سی پی نے بھی ای وی ایم پر کانگریس کی حمایت کی ہے۔ کانگریس کے صدر ملکا رجن کھرگے نے آئین اپنانے کی ۷۵ ویں سالگرہ کے موقع پر بھارت جوڑو یاترا کی طرح ملک بھرمیں ای وی ایم کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پس منظر میں منگل کو انتخابی عمل اور ای وی ایم کی شفافیت پر شک وشبہات کا اظہار کرنے والی ایک عرضی پر سپریم کورٹ کے ججوں نے نشاندہی کی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے تب ای وی ایم پر سوال کھڑے کرتی ہے حالانکہ جیتنے پر وہ کوئی ری ایکشن نہیں دیتی۔ اس سال اپریل میں بھی عدالت عظمیٰ نے ای وی ایم کے استعمال کو چیلنج کرنے والی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس مطالبہ کو غیر مناسب قرار دیا تھا۔ ‘‘