منی پور کے تعلق سے مودی حکومت کب سنجیدہ ہوگی، وہاں تشدد کی وارداتوں پر کب قابو پایا جاسکے گا اور لوگ امن و چین کی سانس کب لیں گے؟
EPAPER
Updated: November 24, 2024, 4:40 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
منی پور کے تعلق سے مودی حکومت کب سنجیدہ ہوگی، وہاں تشدد کی وارداتوں پر کب قابو پایا جاسکے گا اور لوگ امن و چین کی سانس کب لیں گے؟
پچھلے ڈیڑھ سال سے منی پور نسلی اور مذہبی تعصب کا محور بن چکا ہے۔ مودی حکومت منی پور میں حالات پر قابو پانے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ ایک بار پھر وہاں سے آنےوالی نسلی تشدد کی خوفناک اور لرزہ خیز تصویریں ملک کی رسوائی کا سبب بن رہی ہیں۔ گزشتہ مئی سے منی پور میں انسانیت کا قتل ہورہا ہے اورخواتین کی عزت تار تار کی جارہی ہے لیکن مرکزی حکومت خاموشی سے تماشا دیکھ رہی ہے۔ ۶۰ ہزار سے زائد سینٹرل سیکوریٹی فورس کے اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود تشدد کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں منی پور میں تشدد کی جو نئی لہر اُبھری ہے اس پر دیگر زبانوں کے اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔
منی پور کیوں ’سیف‘ نہیں ؟
مراٹھی اخبار’سامنا‘ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ’’ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ جھار کھنڈ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کی مہم میں مصروف ہیں اور منی پور میں ایک بار پھر تشدد بھڑک اٹھا ہے۔ وہاں کا جیری بام ضلع تشدد کا مرکز بنا ہے۔ گزشتہ سنیچر کو وہاں سے اغوا ہونے والے ایک ہی خاندان کی تین خواتین اور تین بچوں کی لاشیں ملنے سے ماحول کشیدہ ہوگیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد عوام کا غصہ اتنا بڑھا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ اور وزیر صحت روپم رنجن کی رہائش گاہ پر حملہ کردیا نیز تین اراکین اسمبلی کے گھروں کو بھی نذر آتش کردیا۔ منی پور پچھلے ڈیڑھ سال سے تشدد کی زد پر ہے۔ وزیراعظم مودی اور ان کی حکومت نہیں چاہتی کہ منی پور میں تشدد کایہ سلسلہ ختم ہو۔ کچھ دیر کیلئے وہاں امن قائم ہوجاتا ہے پھر کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے کہ وہاں کی کوکی اور میتی دونوں برادریاں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوجاتی ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو حملہ آوروں نے ایک قبائلی خاتون کے ساتھ زیادتی کی اور اسے زندہ جلا دیا۔ حملہ آوروں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ۱۷؍ گھروں کو بھی آگ کے حوالے کردیا۔ تشدد کی اس تازہ لہر کی وجہ سے مرکزی حکومت کو’افسپا ایکٹ‘ کے نفاذ کی نوبت آن پڑی ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں میں تشدد کو قابو میں کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرنے والی مرکزی حکومت کو دوبارہ ’ افسپا‘ کیوں نافذ کرنا پڑرہا ہے؟ اس کا جواب سرکار کے پاس نہیں ہے۔ منی پور تشدد میں اب تک ۲۵۰؍ سے زیادہ معصوم جانیں جا چکی ہیں۔ ۷؍ سے ۱۷؍ نومبر تک صرف دس دنوں میں ۱۷؍ افراد کی جان جاچکی ہے۔ وزیراعظم مودی ’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘ کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں لیکن منی پور کو ’سیف‘ نہیں کرپارہے ہیں۔
تشدد کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے
ہندی اخبار’جن ستہ‘ نے ۱۹؍ نومبر کو اداریہ لکھا ہے کہ ’’اس سے بڑھ کر ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ منی پور میں تشدد کو بھڑکے ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر آج بھی وہاں انارکی ہے اور حکومت بے بس نظر آرہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تشدد کے نئے نئے واقعات مرکزی اور ریاستی حکومت کو چیلنج کررہے ہیں۔ چند روز قبل ایک بار پھر سنگین اور پر تشدد واقعات کا نیا دور شروع ہوا۔ ایک خاتون کو قتل کرکے اسے زندہ جلا دیا گیا، اس کے بعد ایک کیمپ سے۶؍ افراد لاپتہ ہوگئے، بعد میں ان کی لاشیں ملنے کی خبر آئی۔ حکومت کی ناکامی کے خلاف مقامی لوگوں میں غصہ بھڑک اٹھا ہے اور اس طرح تشدد کا دائرہ مزید پھیلتا جارہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگوں نے اب اراکین اسمبلی اور وزیروں کے گھروں کو آگ لگانا شروع کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کو اپنے پورے سیکوریٹی سسٹم کو تعینات کرنے کے بعد پرتشدد واقعات پر قابو پانے میں کتنا وقت لگنا چاہئے؟ پچھلے سال مئی کے مہینے میں میتی کمیونٹی کو قبائلی درجہ دینے کے بعد کوکی برادری میں سخت ناراضگی تھی جس کے بعد دونوں برادریوں کے درمیان پرتشدد تنازع شروع ہوا۔ اس میں اب تک ۲۲۵؍ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ اور مرکزی حکومت کی جانب سے امن کو برقرار رکھنے کیلئے کئی سطحوں پر کوششیں کی گئیں لیکن اب حالات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ تشدد پر قابو پانا تو دور، وزیروں اور اراکین اسمبلی کے گھروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پانی سر سے اونچا ہونے کے باوجود حکومت ایسا تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ منی پور میں سب کچھ نارمل ہے۔ ‘‘
منی پور کی تباہی کے ذمہ دار بیرین سنگھ ہیں
مراٹھی اخبار ’مہاراشٹر ٹائمز‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ تشدد شروع ہونے کے ڈیڑھ سال بعد بھی منی پور کے حالات قابو میں نہیں آنے کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ پر عائد ہوتی ہے۔ اس حساس ریاست کو اس طرح جلتے رکھنے کیلئے وہی ذمہ دار ہیں لہٰذا مرکزی حکومت کو انہیں گھر بھیج دینا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ مرکز اور ریاست میں بی جے پی برسر اقتدار ہے، جو منی پور تشدد کوایک’سازش‘ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ نتیجتاً وہاں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ، وزراء اور ایم ایل ایز کے گھروں پر حملے اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ منی پور کی صورتحال بے قابو ہوچکی ہے۔ حملے روکنے کیلئے اپنے ہی گھر میں بنکر بنانے اور اپنے دفاع کیلئے ہتھیار رکھنا، بیرین حکومت کیلئے شرمندگی کا باعث ہے۔ منی پور تشدد کی تازہ لہروں کے پیش نظر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ مہاراشٹر کی انتخابی مہم چھوڑ کر دہلی چلے گئے، یہ اچھی بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ پرتشدد واقعات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوں گے؟ جیری بام کے حالیہ واقعات کے بعد ہی سے خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ منی پور میں پھر ایک مرتبہ تشدد کا نیا سلسلہ شروع ہوگا۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ منی پور میں میتی اور کوکی قبائلیوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنے اور باہمی اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہےلیکن میتی برادری کی من مانی کو لگام دینے کے بجائے سرکار اسے کھلی چھوٹ دے رہی ہے جو کوکی قبائلیوں کو قطعی منظور نہیں ہے۔ ‘‘
بی جے پی کو نیند سے بیدار ہوجانا چاہئے
انگریزی اخبار ’لوک مت ٹائمز‘ ` نے۲۰؍ نومبر کو اداریہ لکھا ہے کہ ’’پچھلے ڈیڑھ سال سےمنی پور کے متاثرین قتل، عصمت دری، اغوا، آتشزنی، لوٹ مار کی واردات دیکھ رہے ہیں۔ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ہنوز منی پور میں حالات جوں کا توں برقرار ہیں۔ تنازعات سے گھری ریاست بی جے پی اور بیرین کی بے بسی اور بےحسی کا مسلسل مشاہدہ کر رہی ہے۔
حکمراں اتحاد کے خلاف عوامی غصہ عروج پر پہنچنے کے ساتھ این پی پی، جس کے ۶۰؍ رکنی اسمبلی میں ۷؍ اراکین ہیں، نے ریاستی حکومت سے حمایت واپس لے لی ہے۔ این پی پی نے بجا طور پر دعویٰ کیا ہے کہ بیرین سنگھ کی زیر قیادت حکومت بحران کو حل کرنے اور معمولات کو بحال کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ این پی پی کے چیف اور میگھالیہ کے وزیر اعلیٰ کونراڈ سنگما نے کہا کہ مودی حکومت نے صحیح وقت پر فیصلے نہیں کئے، جس کی وجہ سے حالات بدتر ہوگئے۔ این پی پی کی حمایت واپس لینے سے سرکار کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ بیرین سرکار کے پاس واضح اکثریت ہے لیکن بی جےپی کو اب نیند سے بیدار ہوجانا چاہئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وزیر داخلہ امیت شاہ کی موجودگی میں تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ سرکار کی نااہلی کا کھلا ثبوت نہیں تو کیا ہے؟‘‘