لیٹرل اِنٹری اور براڈ کاسٹنگ بل پر یوٹرن ہو کہ وقف بل کو جے پی سی میں بھیجنا، یہ فیصلے ثابت کرتے ہیں کہ اپوزیشن اگر موضوعات کو ٹھیک طرح سے اٹھائے اور بی جےپی کے اتحادی ذمہ داری نبھائیں تو مودی بھلے ہی لگاتار تیسری بار وزیراعظم بن گئے ہوں، ان کی من مانی کو روکا جاسکتاہے۔ یہ جمہوریت کی فتح ہے۔
اسے جمہوریت کی فتح ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ۱۰؍ سال بعد کسی بل کو ’جے پی سی‘ میں بھیجا گیا۔ تصویر : آئی این این
مرکز میں لگاتار تیسری بار اقتدار سنبھالے وزیراعظم مودی کو ابھی ۳؍ ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے اوران کی حکومت کو ۳؍ بڑے معاملوں میں اپنے قدم پیچھے لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ وقف ترمیمی بل جسے حکومت لوک سبھا میں پاس نہیں کراسکی اور جس کیلئے گزشتہ ۱۰؍ سال کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار مشترکہ پارلیمانی کمیٹی ( جےپی سی) بنی اور بل کو اس کے حوالے کیا گیا، اسے بھی اگر یوٹرن تصور کیا جائےتو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی تیسری میعاد کے پہلے ہی ۳؍ مہینوں میں وزیراعظم مودی کو ۴؍ بڑے فیصلوں پر یوٹرن لینا پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ لیٹرل اِنٹری کا فیصلہ مودی حکومت کو محض ۷۲؍ گھنٹوں کے اندر اندر واپس لینا پڑا۔ حکومت ۲۴؍ وزارتوں میں ۴۵؍ عہدوں ( ۱۰؍ جوائنٹ سیکریٹری اور ۳۵؍ ڈائریکٹر اور ڈپٹی سیکریٹری کے عہدوں پر) یو پی ایس سی امتحان پاس کرکے آنے والے نوکرشاہوں کی جگہ باہر سے براہ راست ’’ماہرین ‘‘ کی تقرری کرنا چاہتی تھی۔ یہ تقرریاں ۱۷؍ ستمبر تک مکمل کرلی جانی تھیں۔ مگر اہل سینئر آئی پی ایس افسران کو نظرانداز کرتے ہوئے یو پی ایس سی کے ذریعہ براہ راست تقرریوں کا نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی راہل گاندھی نے پُر زور آواز بلند کی کہ اس کے ذریعہ ریزرویشن کو ختم کیا جارہاہے۔ ان کی تائید یوپی میں اکھلیش اور مایاوتی نے تو یوپی میں لالو پرساد یادو نےکی۔ ایسا نہیں لگ رہاتھا کہ حکومت اپنے قدم پیچھے لے گی۔ مودی حکومت کے وزراء اپنی سابقہ ۲؍ حکومتوں کے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کا دفاع کرنے لگے۔ حدتو یہ ہوئی کہ یہ دعویٰ بھی کیاگیا کہ لیٹرل انٹری کا آغاز منموہن سنگھ حکومت میں ہوا تھا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت اس کی تجویز آئی تھی مگر یو پی اے سرکار نے اسے قبول نہیں کیاتھا۔ بہرحال ریزرویشن اور سماجی انصاف کے معاملے نے جب زور پکڑا اورحکومت کے اپنے اتحادی جن کا ووٹ بینک سماج کے کمزور طبقات ہیں ، میں بھی بے چینی پھیلنے لگی تو وزارت افرادی قوت نے فوری طور پر فیصلہ واپس لینے کا حکم جاری کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ اشارہ دیا گیا کہ لیٹرل انٹری میں چونکہ ریزرویشن کا التزام نہیں ہے اس لئے اس پہلو پر پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھئے:جنوری کے الیکشن میں ہی شیخ حسینہ کیلئے نوشتہ ٔدیوار موجود تھا
اس سے قبل براڈ کاسٹنگ بل جو آن لائن مشمولات پر حکومت کو غیر معمولی کنٹرول فراہم کرتا تھا اور وزیراعظم مودی کی سابقہ دو میعاد کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ان کے مزاج کے عین مطابق بھی معلوم ہورہاتھاکو حکومت نے واپس لے لیا۔ اگر یہ بل جوں کا توں منظور کرلیا جاتا تو جو آزادانہ صحافت یوٹیوب بربچی ہوئی ہے، وہ بھی شاید ختم ہو جاتی۔ اس کے ذریعہ او ٹی ٹی اور ڈیجیٹل نیوز کو بھی کنٹرول کیا جانا تھا۔
اس سے قبل بجٹ پیش کرتے وقت لانگ ٹرم کیپٹل گین ٹیکس سے انڈیکسیشن کا فائدہ ختم کردینے کی تجویزکو حکومت کو واپس لینا پڑا تھا۔ ملکیت سے متعلق انڈیکسیشن کے قانون کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے کہ کوئی ملکیت آپ نے ۱۰۰؍ روپے میں خریدی اور ۳؍ سال بعد اسے ۵۰۰؍ میں فروخت کیا تو ٹیکس کی ادائیگی کیلئے آپ کا منافع ۴۰۰؍ روپے نہیں تصور کیا جائےگا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ مہنگائی میں اضافہ کے لحاظ سے۳؍ سال پہلے کے ۱۰۰؍ روپے کی قیمت اب کتنی ہے اور اس لحاظ سے آپ کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ بجٹ میں مودی حکومت عام شہری کو مہنگائی کے حوالے سے ملنے والی اس رعایت سےمحروم کرنا چاہتی تھی مگر جب آواز اٹھی تواسے قدم یہ تجویز واپس لینی پڑی۔ یہ اس کا پہلا یوٹرن تھا۔
وقف ترمیمی بل جس طمطراق سے لایاگیاتھاا ور مودی سرکار کا پارلیمنٹ میں بلوں کو منظورکرانے کا جو ریکارڈ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے بعید نہیں تھا کہ اسےبھی اُسی طرح منظور کرالیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ حکومت کو بل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تجاویز کے ساتھ حکومت ایک بار پھر اگلے اجلاس میں اس بل کو پیش کرے مگر اِس اجلاس میں اس کا اپنے قدم پیچھے لینا اور بغیر کسی احتجاج کے وقف بل کو جے پی سی کے حوالے کرنا اپنے آپ میں تاریخی ہے۔
ہمیں یہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ وہی مودی اور امیت شاہ کی حکومت ہے جو کسی کو خاطر میں نہ لانے کیلئے جانی جاتی تھی۔ آرٹیکل ۳۷۰؍ کی منسوخی، شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری اور سابقہ میعاد میں تعزیری اور فوجداری قوانین کی تبدیلی اس کی مثالیں ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ۱۱؍ مہینوں کے احتجاج اور ۷۰۰؍ سے زائد کسانوں کی موت کے بعد بھی مودی حکومت زرعی قوانین کے معاملے میں ٹس سے مس نہ ہوتی اگر اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن سر پر نہ آگئے ہوتے۔ حکومت کی اُسی قیادت کا اب ۳؍ ماہ میں ۳؍ یا پھر یہ کہہ لیں کہ ۴؍ بار یوٹرن لینے پر مجبور ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر اپوزیشن موضوعات کو ٹھیک طرح سے اٹھائے اور بی جےپی کے اتحادیوں کو اُن کی ذمہ داریوں کو نبھانے پر مجبور کرے تو حکومت کی نکیل کسی جاسکتی ہے۔ امید ہے کہ جے ڈی یو، ٹی ڈی پی اور چراغ پاسوان کی پارٹی کو بھی اپنی اہمیت اور ذمہ داری کااحساس ہوگیا اور وہ بی جےپی قیادت کی جبہ رسائی کے بجائے ملک کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت میں شامل رہ کر اسے غلط اقدامات سے روکنے کا فرض نبھائیں گی۔