اوّل تو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں ہونےوالا الیکشن خود ہی سوالیہ نشان تھا اور اس میں بھی صرف۴۰؍ فیصد پولنگ یہ پیغام دے رہی تھی کہ عوام ساتھ نہیں ہیں۔
EPAPER
Updated: August 12, 2024, 5:59 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
اوّل تو اپوزیشن کی غیر موجودگی میں ہونےوالا الیکشن خود ہی سوالیہ نشان تھا اور اس میں بھی صرف۴۰؍ فیصد پولنگ یہ پیغام دے رہی تھی کہ عوام ساتھ نہیں ہیں۔
جمہوریت کےکندھوں پر سوار ہوکر آمریت کیسے دبے پاؤں دراندازی کرتی ہے، کچھ عرصہ کیلئے کیسے کامیاب بھی ہوتی ہے اور پھر بالآخر کس طرح اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہے، اس کی ساری تفصیل شیخ حسینہ واجد کے عروج وزوال کی کہانی میں موجود ہے۔ مسلسل ۱۶؍ سال تک ملک پر بلا شرکت غیرے کسی آمرکی طرح حکمرانی کرنے والی شیخ حسینہ کےرُسوا ہوکر بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیشی مصنف عرفات کبیر جو انوسٹمنٹ بینکر بھی ہیں، نےیاد دلایا ہے کہ ’’ستم ظریفی یہ ہے کہ شیخ حسینہ نے نوجوانوں کی ہی حمایت کی لہر کے سہارے ۲۰۰۸ء میں عوامی لیگ کی قیادت کرتے ہوئے الیکشن میں یکطرفہ کامیابی حاصل کی تھی۔ ‘‘ یعنی جن نوجوانوں نے شیخ حسینہ کو اقتدار تک پہنچایا، ان ہی نے انہیں پوری دنیا کے سامنے ایسا رُسوا کیا کہ اب زمین ان کیلئے تنگ نظر آرہی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ نوجوانوں نے بنگلہ دیش پر اس کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ تک حکمرانی کرنےوالی اِس خاتون کو اتنی بھی مہلت نہیں دی کہ وہ ملک سے فرار ہوتے وقت اپنی ضرورت کی چیزیں ہی لے لیتیں ؟
یہ بھی پڑھئے:آندھرا اور بہار پر نظر کرم یا حکومت بچانےکیلئے رشوت؟
اس کا جواب خود شیخ حسینہ کے طرز عمل میں موجود ہے۔ عرفات کبیر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’اپنی حکومت کی پہلی مدت میں شیخ حسینہ نے نوجوانوں کی حمایت اوران کے جذبات کا فائدہ (اپوزیشن کے) اُن لیڈروں کو ٹھکانے لگانے کیلئے اٹھایا جنہیں وہ ۱۹۷۱ء کی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا مجرم سمجھتی تھیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے اپوزیشن لیڈروں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع کیا مگر ان کو بخش دیا جن پر اُسی طرح کے الزامات تو تھے مگر وہ عوامی لیگ (شیخ حسینہ کی پارٹی) کا حصہ تھے۔ ۲۰۱۳ء میں انہوں نے مدارس کے طلبہ کے دھرنے کو بنیاد پرست اسلام پسندوں کا دھرنا قراردیتے ہوئے، اس پر انتہائی ظالمانہ پولیس ایکشن کا حکم دیا۔ نتیجے میں درجنوں افراد شہید ہوئے۔ بنگلہ دیش کے عوام کیلئےخطرہ کی گھنٹی اسی وقت بج گئی تھی مگر انہوں نےچمکیلے انفرااسٹرکچر اور مزید ملازمتوں کی لالچ میں اسے نظر انداز کیا۔ ‘‘ ۲۰۰۸ء میں صاف وشفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کے نتیجے میں بھرپور عوامی حمایت سے اقتدار میں آنے والی شیخ حسینہ اُس وقت تک ملک میں جمہوریت کی علمبردار اوراس کی محافظ کے طور پر دیکھی جاتی تھیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے شیخ حسینہ کے سیاسی سفر پر ایک اجمالی نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ۱۹۷۵ء کی فوجی بغاوت میں شیخ حسینہ نے اپنے والد اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن، ماں اور ۳؍ بھائیوں کو کھودیا۔ وہ اوران کی بہن اس لئے بچ گئیں کہ وہ بیرون ملک کے دورہ پر تھیں۔
۶؍ سال کی جلاوطنی کےبعد ۱۹۸۱ء میں وہ وطن لوٹیں تو یہاں انہوں نے سابق صدر ضیاء الرحمٰن کی بیوہ خالدہ ضیاء (جو آج ان کی سب سے بڑی سیاسی حریف ہیں )سے ہاتھ ملا کر ملک میں جمہوریت کی حفاظت کی لڑائی لڑی اور حسین ارشاد کی فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا۔ نتیجے میں ۱۹۹۱ء میں خالدہ ضیاء ملک کی پہلی اور مسلم دنیا کی دوسری خاتون وزیراعظم بنیں ۔ شیخ حسینہ نے بعد میں خالدہ ضیاء سے علاحدگی اختیار کرلی اور ۱۹۹۶ء میں الیکشن جیتنے کے بعد پہلی بار ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ پانچ سال بعد پھر خالدہ ضیاء الیکشن جیت گئیں اور شیخ حسینہ اقتدار سے بے دخل ہوگئیں مگر ملک میں پھر ایک بار فوجی بغاوت ہوگئی اور دونوں بیگمات کو ۲۰۰۷ء میں بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج دیاگیا۔ الزامات خارج ہونے کے بعد ایک سال بعد دونوں کی رہائی ہوئی اور ملک میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو شیخ حسینہ کو عوام اور ملک کے نوجوانوں کی غیر معمولی حمایت حاصل ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حسینہ کو الیکشن میں یکطرفہ کامیابی ملی اور اس کے بعد کبھی جمہوریت کی حفاظت کرنےوالی اس خاتون کا طرز عمل آمرانہ ہونے لگا۔ بڑے پیمانے پر اپوزیشن لیڈرو ں کی گرفتاری، سماجی کارکنا ن کو سلاخوں کو پیچھے ڈال دینے کی روش اور حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والے ہر شخص پر’’رضاکار‘‘کا لیبل چسپاں کردینا شیخ حسینہ حکومت کے معمولات کا حصہ بنتے چلے گئے۔
عرفات کبیر بتاتے ہیں کہ عوامی ہمدردیوں کے حصول اور ان کے جذبات کے استحصال کیلئے ریلیوں اور تقاریر میں اپنے خاندان کی قربانیوں کا ذکر شیخ حسینہ کا معمول بن گیا وہ فوجی بغاوت میں اپنے خاندان کے تمام لوگوں کے مارے جانے کا ذکر کرتے ہوئے یہ دہائی بھی دیتیں کہ ان کیلئے بنگلہ دیش کے عوام کے علاوہ اور کون ہے جس کی وہ خدمت کریں ۔ اس طرح عوام کے جذبات کے استحصال میں وہ بڑی حدتک کامیاب بھی رہیں ۔ اس کی آڑ میں انہوں نے یکے بعد دیگرے اپوزیشن لیڈروں کو کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ دراز کیا اور اداروں پر اپنی پکڑ اس قدر مضبوط کرلی کہ ملک میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کی امید بھی ختم ہوگئی۔ اپوزیشن کی عدم شمولیت کے باوجود ملک میں انتخابات منعقد کرائے گئے جس میں پولنگ فیصد گھٹ کر ۴۰؍ رہ گیا جو سابقہ الیکشن میں ۸۰؍ فیصد تھا۔ شیخ حسینہ کی پارٹی نے بھلے ہی جنوری کے الیکشن میں یکطرفہ کامیابی حاصل کی مگر ووٹنگ فیصد میں شیخ حسینہ کیلئے نوشتہ ٔ دیوار موجود تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ۲۰۰۸ء میں ان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے، ملک کی شرح نمو بھی بہتر ہوئی ہے مگر جمہوریت کی قیمت پر اسے کب تک برداشت کیا جاسکتاتھا۔ شیخ حسینہ نے گزشتہ ۱۵؍ برسوں میں کسی کی نہ سننے کا مزاج اپنا، اپنی شبیہ کسی ناقابل تسخیر لیڈر کی بنائی تھی جو غلطی کرہی نہیں سکتی اور جمہوریت جس پر ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی مخالف خالدہ ضیاء کو تو جیل میں ڈالا ہی، نوبیل انعام پانے والے بنگلہ دیش کی واحد شخصیت محمدیونس کو بھی نہیں بخشا۔ ان کے دور اقتدار میں بے شمار لیڈر جیل بھیجے گئے یا پھر اچانک غائب ہوگئے۔ اس کی وجہ سے ایک لاوا تھا جو اندر ہی اندر پک رہاتھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس لاوا کو بھی ہوا خود حسینہ نے ہی دیا۔ اقتدار سے بے دخلی اور ملک سے فرار کا باعث بننے والا احتجاج جب شروع ہوا تب اس کا مطالبہ شیخ حسینہ کا استعفیٰ نہیں تھا۔ طلبہ صرف ملازمتوں میں ریزرویشن کی مخالفت کرر ہے تھے کیوں کہ ۳۰؍ فیصد ملازمتیں سماج کے مخصوص طبقات کیلئے مختص تھیں جن میں ۱۹۷۱ء کی جنگ آزادی کے مجاہدین کے اولادیں بھی شامل ہیں۔ یعنی سماج میں جس کا تناسب ایک فیصد بھی نہیں تھا، اس کیلئے ۳۰؍ فیصد ملازمتیں مختص تھیں۔ طلبہ صرف اسے ختم کرنا چاہتے تھے مگر شیخ حسینہ نے ان طلبہ کیلئے بھی ’’رضاکار ‘‘ کا لفظ استعمال کرکے انہیں غدار قرار دے دیا۔ اتناہی نہیں اپنی پارٹی کے نوجوانوں کو سڑکوں پر ان کے مقابلے کیلئے اتار دیا، پولیس کو اندھادھند فائرنگ کی آزادی دے دی۔ اس کے بعد بھی انہیں اس وقت سنبھلنے کا موقع ملا جب سپریم کورٹ نے کوٹہ کے خلاف فیصلہ سنایا۔ حکومت نے حالات کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے کو قبول بھی کرلیا مگر اپنے منتقمانہ مزاج کی وجہ سے شیخ حسینہ کی حکومت نے طلبہ مظاہرین کی گرفتاریاں شروع کردیں نتیجہ یہ ہوا کہ طلبہ نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کردیا، کرفیو کے بعد بھی ایسا لگا جیسے پورا بنگلہ دیش گھروں سے باہر نکل آیا اور شیخ حسینہ کو ۴۵؍ منٹ میں استعفیٰ دے کر ملک سے فرار پر مجبورہونا پڑا۔ جنوری کے انتخابات میں پولنگ فیصد کے پیغام کو بھی اگر حسینہ نے سمجھ لیا ہوتا تو شاید ان کا یہ حشر نہ ہوتا مگر ڈکٹیٹر اگراپنے انجام کو نہ پہنچتا تو یہ بھی شاید درست نہ ہوتا۔
طلبہ کے ساتھ ظالمانہ طرز عمل شیخ حسینہ کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی
۲۵؍ سالہ ابوسید کی قربانی نے شیخ حسینہ کے اقتدار سے بے دخل ہونے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ وہ ملک میں ملازمتوں میں ۳۰؍ فیصد کوٹہ کے خلاف شروع ہونےو الی تحریک کے قائدین میں شامل تھا۔ مظاہروں کے خلاف جب پولیس ایکشن ہوا تو ایک مقام پر ابو سید بنگلہ دیش پولیس کے اہلکاروں کےسامنے ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔اس کے اور پولیس اہلکار کے درمیان محض ۱۵؍ میٹر کا فاصلہ تھا۔پولیس اہلکار کے ہاتھ میں رائفل تھی۔ ابو نے غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بازو پھیلادیئے اور پولیس کو چیلنج کیا کہ ’’چلاؤ گولی۔‘‘ انہوں نے گولی چلادی۔ا بوسید ختم ہوگیا مگر اس کاویڈیو جنگ کی آگ کی طرح پھیل گیا جس نے ملک کے کونے کونے میں طلبہ اور نوجوانوں کو حکومت کے خلاف کھڑ اکردیا۔ ( ا لجزیرہ میںجینی فر چودھری کی رپورٹ سےماخوذ)