وہ، اللہ کے بندوں پر چار جانب سے حملہ آور ہوتا ہے، اس کے باوجود بندوں کے پاس دو جانب سے اُس کو ناکام کردینے کا موقع رہتا ہے۔ یہ دو جانب کون سی ہیں؟ علماء نے اس سلسلے میں جو نشاندہی کی ہے وہ ہمیشہ ذہن نشین رکھنے لائق ہے۔ زیر نظر مضمون میں اس بارے میں بھی پڑھئے اور یہ بھی ملاحظہ کیجئے کہ ابلیس کیسے حملہ آور ہوتا ہے۔
ٹیکنالوجی رحمت بھی ہے زحمت بھی۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنا جائزہ لیں کہیں اس کے ذریعہ شیطان بہکا تو نہیں رہا ہے؟ تصویر : آئی این این
ہر انسان جس طرح چہرے سے دوسرے انسانوں سے مختلف نظرآتا ہے بس ایسے ہی ہر انسان کی داخلی فکر اور سوچ بھی الگ الگ ہوتی ہے اور ابلیس بھی اسی کے مطابق ہر انسان کے لئے الگ الگ جال تیارکرتا ہے۔ جب حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا توابلیس نے انکار کردیا چنانچہ ابلیس کو دھتکار دیا گیا۔ اسی وقت ابلیس نے انسانوں کو بہکانے کا عندیہ ظاہر کر دیاتھا۔ آدم ؑ جنت میں رہ رہے تھے، ابلیس نے ان کو بہکانا شروع کردیا اور کہا کہ اگر آپ فلاں درخت کا پھل کھالیں تو یہاں سے کبھی نہ نکالے جائینگے۔ یہی ایک پھل کھانے کا شاخسانہ تھا کہ حضرت آدمؑ بھی جنت سے نکال دئیے گئے۔
ابلیس کی مکاری اور چالبازی کا یہ صرف نقطۂ آغاز تھا، اس کی شعبدہ بازی تو ابھی باقی تھی۔ اس کو اپنے گمراہ کرنے کے ہتھکنڈوں پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو چیلنج کرکے آیا تھا کہ یہ جو نئی مخلوق تو نے پیدا کی ہے اور ان کے صُلب (پشت کے مہرے) سے جو اولاد پیدا ہوگی، مَیں ان میں سے کسی کو بھی چین سے نہ بیٹھنے نہ دوں گا۔ قرآن مجید کی سورہ البقرۃ، الحجر، الاعراف اور الکہف جیسی سورتوں میں ابلیس کا اللہ عزوجل سے یہ کہنا کہ وہ آدمؑ کی اولاد کو ہر طرح سے گمراہ کرنے کی مکمل کوشش کرے گا، اور ان آیات کا ایک غائرانہ مطالعہ بتلاتا ہے کہ اکثریت اس کے جال میں پھنس جائے گی اور بہت تھوڑے مخلص بندے ہوں گے جو اس کی چالبازی کی پہنچ سے پَرے رہیں گے اوروہاں تک اس کی پہنچ نہ ہوپائے گی۔
ابلیس نے اللہ عزوجل سے انسانوں کو گمراہ کرنے کا جو وعدہ کیا تھاوہ بڑا ہی دل دہلادینے والا ہے۔ اس لئے کہ ایک جگہ اس نے کہا تھا کہ میں ان سب کو گمراہ کردوں گا، لیکن اللہ عزوجل نے اس سے کہا کہ میرے مخلص بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا۔ پھر ایک جگہ قرآن میں آیا ہے کہ اس نے کہا میں ان کو بہکاؤں گا، ان کے آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی، دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی۔ اس سے مراد یہ تھی کہ وہ ہر سمت، ہرجانب اور ہر طرح سے ان کو بہکائے گا۔
یہ بھی پڑھئے: مدارسِ اسلامیہ کی حفاظت کیلئے لائحہ ٔعمل تیار کرنا ضروری ہے
علماءنے ابلیس کی اس دھمکی کے سلسلے میں بڑی ہی پیار ی بات لکھی ہے کہ ابلیس نے چار سمت تو بتلادئیے کہ میں ان سمتوں سے انسانوں کو بہکاؤں گا لیکن دوسمت وہ بھول گیا: ایک اوپر اور دوسرے نیچے۔ اس لئے اب ابلیس کے ہتھکنڈوں سے بچنا ہے تو اوپر دیکھو کہ آسمانوں میں اللہ ہے تو بچ جاؤ گے، یا نیچے دیکھو کہ زمین ہے، مٹی ہے جس میں مرنے کے بعد لوٹ کر جانا ہے۔ بس یہی احساس انسان کو ابلیس کی گمراہی سے بچاسکتا ہے اس لئے کہ گمراہ کرنے کیلئے ابلیس کے پاس جو راستے ہیں وہ اتنے ہیں کہ شاید ہی دنیا کا کوئی سوپر کمپیوٹر کبھی ان کا احاطہ کرپائے۔ علامہ عبدالرحمٰن جوزیؒ کی کتاب تلبیس ابلیس کامطالعہ ہمیں دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور کردیتا ہے کہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا لیکن ابلیس کے پاس کتنے راستے ہیں جن کے ذریعہ وہ آکر ہمیں اچک سکتا ہے۔
امام جوزیؒ نے اپنی کتاب میں جہاں ایک طرف بیشمار گمراہ فرقوں کا تذکرہ کیا ہے کہ جو دین اسلام کے اساسی اصولوں سے ہٹ کر الگ راہ پر چل پڑے، وہیں ابلیس کون ہے، اس کی اولاد کتنی ہے، اس نے دیگر مذاہب والوں کو کیسے بہکایا، عالم، قاری، محدث، فقیہ اور مجاہد کیلئے ابلیس کے ذریعہ بہکائے جانے کی شکلیں کیا ہوسکتی ہیں، وغیرہ پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کی فہرست کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہےکہ ابلیس کے پاس بہکانے کے جال اتنے ہیں کہ دُنیا کا آخری ممکن عدد بھی ان کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
ابلیس کی تلبیس کے اس مطالعے کے بعد جب ہم اپنی روزمرہ کی زندگی کی طرف لوٹتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ آج کے دور میں تو اسلامی اور انسانی دونوں معاشرے گویا بری طرح سے ابلیس کی سازشوں کی زد پر ہیں۔ آج ہرکسی کو ابلیس نے ایک نئی الجھن میں ڈال رکھا ہے اور مقصد اس کا یہ ہے کہ انسان کو کسی طرح چین سے بیٹھنے نہ دے اور اپنے رب کی طرف رجوع نہ کرنے دے۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے پاس نوکری نہیں ہے، تو وہ یہ سوچ کر عبادت میں سستی کرتا ہے کہ ایک دن جب نوکری مل جائے گی، اچھی کمائی ہوجائے گی اور آج کل کے نوجوان یہ اصطلاح کافی استعمال کرتے ہیں کہ ’’لائف میں سیٹل‘‘ ہونا ہے، تو ابلیس دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ اس کے بعد جی بھر کے عبادت کرلینا۔ لیکن یہ صرف ایک ڈھکوسلہ ہے اس لئے کہ ایسا ہے تو جن لوگوں کے پاس نوکری چاکری ہے، تجارت ہے، اچھی آمدنی ہے ان کو تو سجدے سے سر اٹھانا ہی نہیں چاہئے۔ لیکن ابلیس وہاں اب نئے داؤ آزماتا ہے۔ کسی کو جوانی کے نشے میں چور رکھتا ہے، کسی کو حسن کے۔ کسی کو مال و دولت کے غرور میں مبتلا کرتا ہے، کسی کو فقر کا رونا رلاتا ہے، کسی کو امید ہی امید دلاتا ہے، کسی کو کہتا ہےتیری ساری امیدیں مرگئیں، اب تو بھی خودکشی کرلے۔ جس کی شادی نہیں ہورہی ہے اس کو الگ بے چین رکھتا ہے، جس کی شادی ہوگئی اس کا بھی دل مطمئن ہونے نہیں دیتا۔ گویا کہ ابلیس نے ایک بھنور برپا کررکھا ہے کہ جس میں انسان برابر گھومتار ہتا ہے یہاں تک کہ موت آدھمکتی ہے، یا کوئی ایسی بیماری آجاتی ہے کہ عبادت کا موقع نہیں ملتا، یا پھر ایسا بڑھاپاآجاتا ہے جواس قدر نحیف وکمزورکردیتا ہے کہ عبادتوں کی سکت باقی نہیں رہتی۔
ابلیس کے اس بھنور سے وہی لوگ محفوظ ہیں جو اس کےان ہتھکنڈوں کو قرآن وسنت کے ذریعہ سمجھ لیتے ہیں اوریہ بات ان کی گھٹی میں پڑجاتی ہے کہ یہ دنیا محض ایک دھوکے کا سامان ہے، یہ ایک وقتی شے ہے، اچھے سے یا بُرے سے گزر جائے گی۔ اللہ کی عبادت کیلئے سب سے اچھا لمحہ آج ہے اور ابھی ہے اس لئے کہ اس دنیا کے عزائم یا دنیاوی پریشانیوں کیلئےعبادت کو کل پر ٹالنا اور دنیاوی کاموں کو مقدم کرنا سراسر حماقت اور بیوقوفی اور گھاٹے کا سودا ہے۔
ابلیس انسانوں کے ذہن پر کتنا حاوی ہوگیا ہے اس کی ایک مثال ایک واقعے سے یاد آتی ہے جو چند دن قبل سوشل میڈیا پر نظروں سے گزرا: ایک مسجد کے پنکھے بار بار چوری ہورہے تھے۔ اب کی بار نیا پنکھا لگانے کے بعدذمہ داروں نے وہیں کہیں قریب میں لکھ دیا کہ چوری نہ کرو، اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ لیکن پھر بھی پنکھا چوری ہوگیا۔ پھر مسجد والوں نے سی سی ٹی وی کیمرہ لگادیا اور لکھ دیا کہ آپ سی سی ٹی وی کی زد میں ہیں، اس بار پنکھا چوری نہیں ہوا۔ یعنی سی سی ٹی وی کیمرہ دیکھ رہا ہے اور ریکارڈ کررہا ہے، اس بات کا یقین تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور ریکارڈ کررہا ہے اس کا یقین نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ بس جس لمحہ ایک مومن اسباب کے اس ڈر سے باہر اللہ تعالی کے ڈر میں، اللہ تعالیٰ کی محبت میں خود کورنگ دے، وہ ابلیس کے ہر ہتھکنڈے اور ہر چالبازی سے باذن اللہ محفوظ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔