دینی مدرسوں کیخلاف ریشہ دوانیوں کا مل جل کر مشترکہ وسائل اور مؤثر قانونی پیروی کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہئے، اس مہم سے عام مسلموں کو بھی جوڑا جائے اور اُن کا تعاون بھی لیا جائے۔
EPAPER
Updated: August 16, 2024, 4:46 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
دینی مدرسوں کیخلاف ریشہ دوانیوں کا مل جل کر مشترکہ وسائل اور مؤثر قانونی پیروی کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہئے، اس مہم سے عام مسلموں کو بھی جوڑا جائے اور اُن کا تعاون بھی لیا جائے۔
دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا، بام عروج تک پہنچا اور پھر مائل بہ انحطاط ہوکر ڈوب گیا۔ ایشیاء اور یورپ میں متعدد ممالک ہیں جہاں یہ کیفیت پیش آئی او راس میں شبہ نہیں کہ یہ ہماری شامت ِ اعمال اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ عام طورپر جن ملکوں میں مسلمان ان حالات سے دوچار ہوئے، وہاں اسلامی تہذیب کا چراغ یاتو ہمیشہ کے لئے بجھ گیا، یا اس کی لوَ ایسی مدھم ہوئی کہ وہ نہ ہونے کے درجہ میں ہے۔ وہاں لوگ اسلامی تعلیمات اور اپنے مذہبی تشخصات سے ایسے محروم ہوئے کہ ان کے دلوں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا۔ انہوں نے کلی طورپر مادیت کے سامنے اپنا سر خم کردیا۔ اسپین، مغربی اور مشرقی یورپ کے بعض علاقے اور روس و چین کے مسلم اکثریتی صوبے اس کی واضح مثال ہیں۔ اسپین تو اس کی بدترین مثال ہے جو کسی زمانہ میں علم و فن اور تہذیب و تمدن کا دارالخلافہ تھا اور عالم اسلام میں اس کی حیثیت کسی تاجِ گہر بار سے کم نہیں تھی؛ لیکن جب مسلمانوں کا تخت اقتدار پاش پاش ہوا تو اسلامی ثقافت کے تمام ہی نقوش نے وہاں سے رخت ِسفر باندھا اور چند بے جان و بے روح عمارتوں کے سوا ان کی کوئی شناخت باقی نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھئے:خدا کی مدد کا مستحق بننے کی شرط کیا ہے؟
ہندوستان کا معاملہ یقیناً اس سے مختلف ہے، یہاں یوں تو اسلام ابتدائی عہد میں ہی آچکا تھا اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں ہی ہندوستان کے ساحلی علاقوں تک اسلام کی روشنی پہنچ چکی تھی؛ لیکن اگر مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو سندھ کے علاقہ پر انہوں نے کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی ہے، اس عہد کو سماجی ارتقاء اور فلاحی اعتبار سے ہندوستان کا ’’عہد ِ زریں ‘‘ کہا جاسکتا ہے مگر افسوس کہ اتنی طویل مدت میں مسلمانوں نے سیاسی اور عسکری مہم جوئی پر جتنی توجہ کی، اسلام کی دعوت و تبلیغ پر اتنی توجہ نہیں کی؛ ورنہ یقیناً اس ملک کا نقشہ بدلا ہوا ہوتا اور اﷲ کے بندے مسلمانوں کو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بناکر رکھتے، بہر حال! یہ مسلمانوں کی ایسی کوتاہی ہے کہ شاید ہی اس کا کفارہ ہوسکے اور آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں، وہ اسی کوتاہی کی مکافات ہیں ۔
تاہم یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے تخت و تاج سے محروم ہونے کے باوجود اس ملک میں اپنی شناخت کو باقی رکھا؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مذہب سے جس درجہ کی وابستگی ہے، کوئی قوم نہیں جو اپنے مذہب سے اس درجہ وابستہ ہو۔ مسجد کی آبادی اور رمضان کے اہتمام کو دیکھئے، زکوٰۃ و انفاق اور کثیر صرفہ کے باوجود حج و عمرہ کی ادائیگی کو سامنے رکھئے اور نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل میں قانون شریعت کے احترام پر نظر کیجئے تو بمقابلہ مسلمانوں کے دوسری اقوام میں (مذہب کی پاسداری کا) ایک فیصد بھی اہتمام نہیں ملے گا، کسی اور قوم میں افتاء اور قضاء کے ادارے نہیں ہیں ، جہاں لوگ اپنے معاملات، کاروبار اور نجی زندگی کے بارے میں بھی درست و نادرست اور حلال و حرام کے متعلق استفسار کرتے ہوں، یہ بہرحال بحیثیت ِقوم مسلمانوں ہی کی خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کو اسلام سے مربوط رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:ماحول غیرمعمولی طور پر اثرانداز ہوتا ہے
ہندوستان اور دوسرے ممالک کے تئیں یہ فرق کیوں ہے؟ گزشتہ ایک صدی میں جو اسلامی تحریکات اُٹھی ہیں اور تحریکی شخصیتوں نے جنم لیا ہے، زیادہ تر ان کا منبع و سرچشمہ ہندوستان ہی ہے ؛ اس لئے یہ اہم سوال ہے جو سوچنے والوں کو متوجہ کرتا ہے۔ اگر غور کیا جائے اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کا جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے دینی مدارس کا نظام! ہندوستان پر جوں ہی انگریزوں کو غلبہ حاصل ہوا اور اسلام کے خلاف سیاسی اورتبلیغی کوششیں شروع ہوئیں، تخت و تاج سے بے نیاز اور حکومت و اقتدار کی حرص سے آزاد دردمند اور بلند نگاہ علماء کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ صرف منفی کوششوں سے اس طوفان کا مقابلہ ممکن نہیں، اب اسلام کی حفاظت و بقاء کیلئے مثبت تدبیر مطلوب ہے اور اس تدبیر کو انہوں نے سرکاری مداخلت سے آزاد ایسے دینی تعلیم کے نظام کی صورت میں دریافت کیا جو غریب سے غریب مسلمانوں کے گھر میں بھی علم کی شمع جلا سکے اورہر کچے پکے گھر میں دینی تعلیم کی شعاعیں پہنچ سکیں ۔
ہمارے بزرگوں نے مدارس (مدرسوں ) کے اس نظام کو نہایت ہی معمولی اور سادہ حالت میں رکھا، معمولی عمارتیں جو نگاہوں میں چبھتی نہیں تھیں، کم تنخواہیں پانے والے مدرسین و خدام جو سیدھی سادی زندگی بسر کرتے تھے، فقیرانہ لباس میں ملبوس طلبہ جن کا سراپا ان کی سادگی اور درویشی پر گواہ ہوتا ہے، یہ ادارے مستقل اور قابل بھروسہ مالی وسائل سے محروم تھے، عام مسلمانوں سے دو دو چار چار پیسے کی مدد ہی ان کا توشۂ سفرتھا، مدارس کی یہ سادگی ایسی تھی کہ لوگ اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اور سوچتے تھے کہ خس پوش جھونپڑیوں میں رہنے والے بوریہ نشیں اور دنیا کی لذتوں سے محروم اور نابلد لوگ کرہی کیا سکتے ہیں ؟ شعراء اور نئی روشنی کے لوگ تو ان کی تحقیر سے بھی نہیں چوکتے تھے اور ان کو ’’تنگ نظر ملا ‘‘ اور ’’دو رکعت کا امام ‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ہی درویش مزاج ملاؤں نے اس ملک میں اسلام کے پودے کی حفاظت کی ہے، انہوں نے عہد بہار سے کوئی صلہ نہیں کمایا؛ لیکن عہد خزاں میں اپنے خونِ جگر سے سینچ کر اسلام کے شجر طوبیٰ کو بچایا، اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا اور مسلمانوں کا اپنے دین اور مذہب سے نہ صرف رشتہ باقی رکھا بلکہ اسے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہوئے، یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں اسلام سے وابستگی کی جڑیں جتنی گہری ہیں اور لوگوں کے مزاج میں جتنی زیادہ مذہبیت ہے، عالم اسلام میں بھی کم ہی اس کی مثالیں مل سکیں گی۔ اس عجمی نژاد ملک میں علوم اسلامی کی جیسی خدمت ہوئی ہے ویسی کئی عرب اور مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوئی۔
مسلم اقتدار کے خاتمے کے باوجود لوگوں کے دینی رجحان میں جو اضافہ ہوا ہے، اس میں بنیادی کردار مدارس ہی کا ہے، تقریباً گزشتہ ڈیڑھ صدی میں جو بھی تحریک یا جماعت اُٹھی اور اسلام کی حفاظت یا اشاعت کا جو کچھ بھی کام ہوا، اس میں ان مدارس اور مدارس سے پیدا ہونے والی شخصیتوں کا بڑا حصہ ہے۔ مدارس کی یہ اہمیت جو اس کی ظاہری خستہ سامانی اور سادگی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتی تھی، اب محسوس کی جانے لگی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:خطبہ ٔنکاح میں پڑھی جانے والی تین آیات کی حکمت
ہندوستان میں گزشتہ پچاس سال سے فرقہ پرستوں کی کوشش ہے کہ مسلمان فکری اور تہذیبی اعتبار سے اکثریت کے ساتھ ضم ہوجائیں۔ اسی مقصد کیلئے ایک زمانہ میں سیکولر جماعتیں بھی بار بار مسلمانوں کو قومی دھارا میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے ’’بھارتی کرن‘‘ کا نعرہ لگاتی تھیں۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ اب مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے آزاد ہوجائیں، اس پر ہرگز اصرار نہ کریں اور دوسری قوموں کی طرح گنی چنی مذہبی رسوم کی ادائیگی پر اکتفاء کرلیں۔
ان نامسعود کوششوں کی ناکامی کا سہرا دینی مدارس کے سر جاتا ہے، اس حقیقت کو اربابِ اقتدار نے بھی محسوس کرلیا لہٰذا دینی مدارس فرقہ پرست طاقتوں کا نشانہ بننے لگے، کبھی ان مدارس کو آئی ایس آئی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے اور کبھی ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ کسی طبقہ میں دہشت گردی پیدا ہونے کے عام طورپر تین اسباب ہوتے ہیں ، ایک یہ کہ ان کو ایسی تعلیم دی جائے جو دوسروں سے نفرت پر اُبھارتی ہو، دوسرے تعلیمی نصاب میں ایسی باتیں شامل نہ ہوں لیکن تربیت ان ہی خطوط پر کی جاتی ہو، تیسرے تعلیم و تربیت کے نظام میں تو ایسے محرکات نہ ہوں لیکن آدمی جس ماحول میں رہتا ہو ان میں جرائم اور دہشت گردی کا ماحول پایا جاتا ہو۔ دینی مدارس ایسی ہر چیز سے پاک ہیں۔ یہاں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ شروع سے اخیر تک انسانیت اور انسانی محبت پر مبنی ہیں، ان کا چوبیس گھنٹے کا تربیتی نظام ایثار اور تواضع کی عملی تصویر ہے، ان کے ماحول میں جرائم پیشہ عناصر کا گزر نہیں ؛ اس لئے مدارس پر عمومی انداز سے دہشت گردی کا الزام لگانا سفید جھوٹ سے کم نہیں۔
ہندوستان میں دہشت گردی کی کتنی وارداتیں ہوچکی ہیں، گاندھی جی کا قتل ہوا، پھر اندراگاندھی کا قتل ہوا، راجیوگاندھی قتل کئے گئے، بابری مسجد شہید کی گئی جس کو سابق صدر کے آر نارائنن نے گاندھی جی کے قتل کے بعد سب سے تکلیف دہ واقعہ قرار دیا تھا، لرزہ خیز فسادات ہوئے، ۱۹۸۴ء میں علانیہ سکھوں کا قتل عام ہوا، گجرات فسادات کے دوران غارتگری کا ایسا کھیل کھیلا گیا کہ جس کے تصور سے بھی جبین حیا عرق آلود ہوتی ہے، معلوم کیجئے یہ دہشت گردانہ واقعات کن لوگوں کے ہاتھوں پیش آئے، دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے ہاتھوں ؟ یامسلمانوں کے ہاتھوں ؟ یہ محض مسلمانوں کو اُلجھانےاور مدرسوں کے تئیں غلط فہمیاں پھیلانے کا ایک حربہ اور بالواسطہ طریقہ پر مسلمانوں کو ان کی شناخت سے محروم کرنے کے طویل المدتی پروگرام کا حصہ ہے، ضرورت ہے کہ مسلمان پورے شعور سے کام لیں ، اس پروپیگنڈہ کا مقابلہ کریں اور اپنے ان دینی قلعوں کی حفاظت میں پہلے سے بڑھ کر فعال کردار ادا کریں ۔ اس وقت پھر مدارس پر فرقہ پرست طاقتوں کی یلغار جاری ہے، اس بار شر پسند عناصر کی بیان بازی کے ساتھ ساتھ میڈیا کی طاقت اور حکومت کا اشارہ بھی شامل ہے اور سرکاری بورڈ سے ملحق یا غیر ملحق، چھوٹے بڑے تمام ادارے اس کی زد پر ہیں، ملت کی شہ رگ پر یہ حملہ ناقابل برداشت ہے، اِن حالات میں مدارس کو مل جل کر مشترکہ وسائل کے ذریعہ قانونی پیروی کرنی چاہئے، عام مسلمانوں کو بھی اس میں تعاون کرنا چاہئے اور اپنے نظام میں اگر کہیں کوئی خامی ہے تو اس کو بھی دور کرنا چاہئے کہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت اور ہمارا دینی فرض ہے۔