’انڈیا ‘ا تحاد نے بڑی حد تک معاملےکو سلجھا لیا ہے، بس اعلان کی تاخیر ہے، ایک خاص حکمت عملی کے تحت ۲۲؍ جنوری کے گزر جانے کاانتظار ہے۔
EPAPER
Updated: January 21, 2024, 9:34 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
’انڈیا ‘ا تحاد نے بڑی حد تک معاملےکو سلجھا لیا ہے، بس اعلان کی تاخیر ہے، ایک خاص حکمت عملی کے تحت ۲۲؍ جنوری کے گزر جانے کاانتظار ہے۔
حالانکہ ابھی تک لوک سبھا کیلئے انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن گمان غالب ہے کہ ایودھیاکی سرگرمیوں سے فرصت پاتے ہی مودی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اس راہ پر آگے بڑھنے کا اشارہ مل سکتا ہے۔ بی جے پی قطعی نہیں چاہے گی کہ انتخابات میں اتنی تاخیر ہوجائے کہ اپنے حامیوں کے ذہن پر اس نے مندر کا جو خمار پیدا کیا ہے، اس کا اثر زائل ہو جائے۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو اپوزیشن کیلئے سنبھلنے اور بی جے پی سے مقابلہ کیلئے خود کو تیار کرنے کا وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اپوزیشن نے اس سلسلے میں اچھی پیش رفت ضرور کی ہے لیکن رفتار قدرے سست ہے۔ ۲۸؍ جماعتوں پر مشتمل ’انڈیا‘ اتحاد کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر وہ بی جے پی کے مقابلے ایک مشترکہ امیدوار میدان میں اُتارے تاکہ بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم کو روک سکے۔ مین اسٹریم میڈیا قطعی نہیں چاہتا کہ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہو ، باوجود اس کے وہ اس سلسلے میںہونے والی تاخیر پر پانی پی پی کر اپوزیشن کو کوستا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ کبھی نتیش کے حوالے سے شگوفہ چھوڑا جاتا ہے کہ وہ ایک بار پھر این ڈی اے میں جاسکتے ہیں تو کبھی ممتا کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ تنہا الیکشن لڑیں گی تو کبھی اترپردیش سے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں بی جے پی، کانگریس، بی ایس پی اور سماجوادی آر ایل ڈی اتحاد کے درمیان چوطرفہ مقابلہ ہوگا۔ کچھ اسی طرح کے دعوے دوسری ریاستوں میں بھی کئے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا ایسا کہنا دُرست ہے؟ کیا واقعتاً ’انڈیا‘ اتحاد میں اتنی ہی نااتفاقی ہے جتنا کہ میڈیا بتا رہا ہے؟ کیا اس میں سچائی ہے کہ اپوزیشن کی پارٹیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہیں؟ اوراس دعوے میں کتنا دم ہے کہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے بی جے پی کو اپوزیشن کی طرف سے ’واک اوور‘ مل گیا ہے؟
ایساکچھ بھی نہیں ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ بی جے پی ایک جانب جہاں صرف مندر کے بھروسے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے، وہیں اپوزیشن کی جماعتیں اسے کئی محاذ پر گھیرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں ا ور اس سلسلے میں تیزی کے ساتھ پیش رفت بھی کررہی ہیں۔ امیدہے کہ جب تک بی جےپی ’ایودھیا مشن‘ سے باہر نکلے گی، اپوزیشن کی جماعتیں اسے ملک بھر میں گھیرنے کے اپنے منصوبے کو حتمی شکل دے چکی ہوں گی۔ آئیے ! ریاستوں کی سطح پر اس کا سرسری جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اترپردیش: معاملہ بڑی حد تک حل ہے
یہاں سے لوک سبھا کی سب سے زیادہ ۸۰؍ سیٹیں ہونے کی وجہ سے اکثر کہا جاتا ہے کہ دہلی کا راستہ یوپی سے ہوکر جاتا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا میں بی جے پی کو یہاں پر ۶۲؍ اور اس کی اتحاد ی جماعت اپنا دل کو ۲؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ سماجوادی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے مل کر ۱۵؍سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ کانگریس کے حصے میں صرف ایک سیٹ ہی آسکی تھی۔ لیکن ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن کے درمیان ۵؍ سال کا وقفہ ہوتا ہے اور اس درمیان پل کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے، عوام کی سوچ بدل چکی ہوتی ہے اور سیاسی اتحاد کے ساتھ ہی انتخابی مساوات میں بھی تبدیلیاں آچکی ہوتی ہیں۔ اگر گزشتہ انتخابات کو ہی پیمانہ مان لیا جائے تو پھر الیکشن کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہو اور پھر ’حکومت مخالف رجحان‘ کی بات کیوں جاتی ہے؟ ایسا تو نہیںقطعی نہیں ہے کہ بی جے پی ’اینٹی اِن کم بینسی‘ کے اثرات سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اس مرتبہ یہاں سہ رُخی مقابلے کی امید ہے جس میں ایک طرف این ڈی اے( بی جے پی اور اپنا دل) ہو گی تو دوسری طرف انڈیا(سماجوادی، کانگریس ، آر ایل ڈی اور بھیم آرمی) ہو گی جبکہ بی ایس پی تنہا الیکشن لڑنے پر بضد ہے۔ انڈیا اتحاد میں حالانکہ سیٹوں کی حتمی تعداد کااعلان نہیں ہوا ہے لیکن چاروں ہی جماعتوں میں بڑی حد تک اتفاق ہوچکا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں آر ایل ڈی کو ۷؍ سیٹیں دی جاچکی ہیں جبکہ بھیم آرمی کے صدر کیلئے نگینہ لوک سبھا سیٹ کو تقریباً طےمانا جارہا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر کانگریس ریاست میں ۲۰؍ سیٹوں کا مطالبہ کررہی ہےلیکن خیال کیا جارہا ہے کہ وہ ۱۵؍ سیٹوں پرراضی ہوجائے گی۔ اس طرح ۵۷؍ سیٹوں پرسماجوادی الیکشن لڑسکتی ہے۔۲۲؍ تاریخ تک سیٹوں کی تقسیم پر حتمی مہرلگ جانے کا پورا پورا امکان ہے۔
بہار: بس اعلان ہونے کی تاخیر
بہار کے تعلق سے ایک خوش گمانی ہے کہ یہاں پر سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ حل ہوچکا ہے۔ اعلان میں تاخیر کی وجہ میڈیا کا ابھی مندر کے سحر میں گرفتا ر ہونا ہے۔۲۲؍ جنوری کے بعدکسی بھی وقت سیٹوں کی تقسیم کااعلان ہو سکتا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہاں سے لوک سبھا کی ۴۰؍سیٹوں میں سے ۱۶۔۱۶؍ سیٹوں پر آر جے ڈی اور جے ڈی یو الیکشن لڑیں گی جبکہ کانگریس کو ۶؍ اور ۲؍ سیٹیں بایاں محاذ کی پارٹیوں کو دی جائیں گی۔
دہلی: سیٹوں کی تقسیم کا فارمولہ طے
یہاں کی تمام ۷؍سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے جبکہ اسمبلی اور کارپویشن انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمانی الیکشن میں ۵؍سیٹوں پر کانگریس اور ۲؍ سیٹوں پر عام آدمی پارٹی دوسرے نمبر پر تھی۔ اس لحاظ سے کانگریس ۵؍ سیٹوں کا دعویٰ کررہی تھی لیکن اسمبلی اور کارپوریشن میں ’آپ‘ کی اکثریت کی وجہ سے کانگریس کو محض تین سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔اس طرح ۴؍ سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کے امیدوار الیکشن لڑیں گے۔
پنجاب: اکیلے اکیلے لڑنے کااعلان
پنجاب میں کانگریس اور’آپ‘ نے اکیلے اکیلے الیکشن لڑنے کااعلان کیاہے۔ ایسا اسلئے نہیں کہ ان میں اتحاد نہیں ہوپایا بلکہ اسلئے کہ وہاں اصل مقابلہ انہی دونوں پارٹیوں کے درمیان ہے، اسلئے وہ اتحاد کرکے بی جے پی اور شرومنی اکالی دل کو کوئی موقع نہیں دینا چاہتیں۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ۴۰؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ ۸؍ سیٹیں ملی تھیں جبکہ شرومنی اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کو (بالترتیب ۲۷؍ اور ۹؍ فیصد ووٹوں کے ساتھ) ۲۔۲؍ سیٹیں اور ’آپ‘ کو ایک سیٹ ملی تھی۔ فروری ۲۰۲۲ء میں اسمبلی الیکشن ہوا تو ۴۲؍ فیصد ووٹوں کی مدد سے ’آپ‘ کو واضح اکثریت مل گئی۔ اس میں کانگریس کو ۲۳؍ فیصد اور شرومنی کو ۲۰؍ فیصد ووٹ ملے جبکہ کیپٹن امریندر سنگھ کی پارٹی سے اتحاد کرنے کے باوجود بی جے پی کو ۸؍ فیصد سے بھی کم ووٹ ملے تھے۔ مئی ۲۰۲۳ء میں ضمنی الیکشن ہوا تو ’آپ‘ تھوڑا نیچے آئی اور کانگریس تھوڑا اوپر گئی۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو ۳۴؍ فیصد اور کانگریس کو ۲۷؍ فیصد ووٹ ملے جبکہ بی جے پی اور شرومنی اکالی دل کو بالترتیب ۱۵؍ اور ۱۸؍ فیصد ووٹ ملے۔ یہی وہ اعدادو شمار ہیں جن کی وجہ سے کانگریس اور’ آپ‘ اتحاد کے بغیر میدان میں اُترنا چاہتی ہیں۔ وہ بی جے پی اور اکالی دل کو کوئی جگہ نہیں دینا چاہتیں لیکن اگر عین وقت پر دونوں نے اتحاد کرلیا تو پھر کانگریس اور ’آپ‘ بھی اتحاد کے ساتھ ہی میدان میں اتریں گی۔ اُس وقت کیا صورت ہوگی، اس کا بھی فارمولہ تقریباً طے ہے۔
کیرالا: اتحاد کی ضرورت ہی نہیں
کیرالا ایک ایسی ریاست ہے جہاں پر برسوں سے ۲؍ اتحادی گروپ الیکشن لڑتے ہیں۔ ایک گروپ کی قیادت کانگریس کرتی ہے، دوسرے گروپ کی سی پی ایم۔ یہاں پر بی جے پی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی لئے دونوں ہی گروپ نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ اس مرتبہ بھی اتحاد کرکے بی جے پی کو کوئی موقع نہیں دینا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں کانگریس کو تنہا ۱۵؍سیٹیں اور اتحاد کے طور پر ۱۷؍سیٹیں ملی تھیں جبکہ بایاں محاذ کو ۳؍ سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ جہاں تک ووٹ فیصد کی بات ہے، کانگریس اتحاد کو ۴۷؍ فیصد اور لیفٹ اتحاد کو ۳۶؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ این ڈی اے کو ۱۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔ دو سال بعد اسمبلی الیکشن ہوا تو نتائج برعکس نکلے۔ اس میں کانگریس اتحاد کو ۳۹؍ فیصد ، لیفٹ اتحا د کو ۴۵؍ فیصد اور این ڈی اے کو ۱۲؍ فیصد ووٹ ملے تھے۔
یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس اور بایاں محاذ کی جماعتوں نے کیرالا میں اتحاد کرکے بی جے پی کو ’اسپیس‘ نہیں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
مغربی بنگال: یہاں ٹیڑھی کھیر ہے
انڈیا اتحاد کیلئے صرف بنگال ہی ایک ایسی ٹیڑھی کھیر ہے جہاں اونٹ فی الحال کسی کروٹ بیٹھتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ کانگریس اور ٹی ایم سی میں سمجھوتہ ہوبھی سکتا ہے لیکن بایاں محاذ کی وجہ سے معاملہ بگڑ رہا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ ٹی ایم سی کانگریس کیلئے وہ دونوں سیٹیں جہاں کانگریس جیتی ہے، چھوڑنا چاہتی ہے، باقی تمام جگہوں پر خود لڑنا چاہتی ہے۔۲۰۱۹ء کے بعد سے کانگریس کی پوزیشن میں خاصی تبدیلی آئی ہے،اسلئے وہ مزید سیٹوں کا مطالبہ کررہی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ کانگریس ۴؍ یا ۵؍ سیٹوں پرمان جائے۔ اگر ایسا ہوا تو کانگریس اور ٹی ایم سی مل کر الیکشن لڑیں گی جبکہ بایاں محاذ یہاں پر اکیلے ہی مقابلے میں اترے گا۔ موجودہ صورتحال میں بایاں محاذ کے ساتھ آنے سے زیادہ فائدے کا امکان بھی نہیں ہے کیونکہ اُس صورت میں اس کے ووٹر ممتا بنرجی کی مخالفت میں بی جے پی کی طرف گھوم سکتے ہیں، جیسا کہ ۲۰۱۹ء میں ہوا تھا۔ ایک دو دن میں یہاں کی صور تحال واضح ہوجائے گی۔
تمل ناڈو اور مہاراشٹر
تمل ناڈو میں فی الحال کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیرالا کی طرح وہاں بھی ۲؍ محاذ ہیں۔ ایک ڈی ایم کے اور دوسری انا ڈی ایم کے۔ گزشتہ الیکشن میں ڈی ایم کے ساتھ کانگریس اور انا ڈی ایم کے ساتھ بی جے پی تھی لیکن اس مرتبہ بی جے پی الگ ہے جبکہ کانگریس اور ڈی ایم کے کا اتحاد نہ صرف برقرار ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔جہاں تک مہاراشٹر کی بات ہے، یہاں معاملہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اتحاد ی جماعتیں اندر ہی اندر کسی ٹھوس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ کانگریس اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا ۲۰۔۲۰؍ سیٹوں پر الیکشن لڑسکتی ہیں جبکہ این سی پی کو ۶؍ سیٹیں اور پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی اور راجو شیٹی کی سوابھیمانی پکش کو ایک ایک سیٹیں مل سکتی ہیں۔
جموں کشمیر میں ممکنہ اتحاد
جموں کشمیر میں بھی معاملہ بڑی حدتک سلجھا ہوا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جموں کی ۲؍ اور لداخ کی ایک سیٹ پرکانگریس الیکشن لڑے گی جبکہ کشمیر کی ۲؍سیٹوں پر نیشنل کانفرنس اور ایک سیٹ پی ڈی پی کے حصے میں جائے گی۔۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کو ۳۔۳؍ سیٹیں ملی تھیں۔کانگریس کے حصے میں کوئی سیٹ نہیں آئی تھی لیکن اسے ۲۸؍ فیصد سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور اس کے امیدوار تین سیٹوں پر دوسری پوزیشن پر تھے۔
دوسری ریاستوں میں بھی صورتحال بہتر
جھارکھنڈ میں بھی پہلے ہی کانگریس اور آر جے ڈی کے درمیان اتحاد ہے۔ اگر اس میں جے ڈی یو شامل ہوتی ہے تو ایک دو سیٹ ادھر ادھر ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسی ریاستوں میں اتحاد کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ گجرات اور گوا میں شاید ’آپ‘کو ایک ایک سیٹ دی جاسکتی ہے۔خیال رہے کہ ملک بھر میں ۱۹۰؍ سے زائد لوک سبھا کی ایسی سیٹیں ہیں جہاں پر کانگریس کا بی جے پی سے براہ راست مقابلہ ہے۔ ان تمام جگہوں پر بی جے پی حاوی ہے لیکن اس مرتبہ کانگریس پورے دم خم کے ساتھ یہاں میدان میں اُتر رہی ہے۔اب یہ تووقت ہی بتائے گا کہ نتائج کیا ہوں گے؟