• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

یہ خوش آئند ہےکہ اُردوجدید ٹیکنالوجی سےتیزی کےساتھ ہم آہنگ ہورہی ہے،’ اُردو کتاب میلہ‘ اس کا ثبوت

Updated: January 14, 2024, 2:58 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

شام کا وقت تھا۔ فضا پر اندھیرے کی چادر پھیلتی جارہی تھی۔ چوراہے پر جمع بھیڑ رفتہ رفتہ چھنٹنے لگی تھی۔ لوگ اپنےگھروں کی طرف جارہے تھے لیکن وہ لوگ جن کے پاس وقت تھا، سڑک کے دونوں اطراف موجود دکانوں کے سامنے بیٹھے تھے اور دنیا جہان کے موضوعات پر تبصرے کررہے تھے۔

The ongoing Urdu Book Fair in Mumbai has many things that can be called welcome, so for those who have not been able to attend the Book Fair for some reason, today, January 14, is the last chance. Photo: INN
ممبئی میں جاری اردوکتاب میلے میں ایسا بہت کچھ ہے، جنہیں خوش آئند کہا جاسکتا ہے، اسلئے کتاب میلے میں کسی وجہ سے جو لوگ اب تک نہ جا سکے ہوں، ان کیلئے آج یعنی ۱۴؍ جنوری آخری موقع ہے۔ تصویر : آئی این این

شام کا وقت تھا۔ فضا پر اندھیرے کی چادر پھیلتی جارہی تھی۔ چوراہے پر جمع بھیڑ رفتہ رفتہ چھنٹنے لگی تھی۔ لوگ اپنےگھروں کی طرف جارہے تھے لیکن وہ لوگ جن کے پاس وقت تھا، سڑک کے دونوں اطراف موجود دکانوں کے سامنے بیٹھے تھے اور دنیا جہان کے موضوعات پر تبصرے کررہے تھے۔ ایسے میں ایک صاحب جو شیروانی زیب تن کئے سڑک پر خراماں خراماں چلے جارہے تھے، لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ وضع قطع مہذب تھی لیکن چال میں تھوڑی سی لڑکھڑاہٹ بھی تھی۔ انہیں دیکھ کر لوگ طرح طرح کی باتیں  کررہے تھے۔ 
 ایک صاحب نے کہا: پہنے ہیں شیروانی اور چل رہے ہیں پیدل۔
 کسی نے طنز کیا: بے روزگار ہوگا شاید۔
 کسی نے اس طنز کی تائید کی: تہذیب تو وراثت میں ملی ہوئی لگتی ہے لیکن جیب خالی ہوگی۔ 
 کسی نے فقرہ کسا: آؤٹ ڈیٹیڈ لگ رہا ہے۔ زمانے کے تقاضوں سے واقف نہیں ہوگا،اسلئےزمانے سے ہم آہنگ نہیں ہوپا رہا ہے۔
 کسی نے الزام لگایا: چال بتا رہی ہے کہ اس نے ’پی‘ رکھی ہے۔
 ایسے میں کچھ لوگ اس کی حمایت میں بھی سامنے آئے۔
 کسی نے کہا: دور کا مسافر ہوگا۔ تکان سے چور معلوم ہوتا ہے۔
 کسی نے کہا: بے چارہ کمزور لگ رہا ہے، ممکن ہے بیمار ہو۔
 کسی نے کہا:ہوسکتا ہے کہ بھوک سے اس کی حالت خراب ہو۔
 بہرحال کچھ لوگ آگے بڑھےاور انہیں آداب کیا۔
 لوگوں سے ملتے ہی ان کا چہرہ کھل اٹھا،محبت کا جواب گرمجوشی سے دیا۔ 
 لوگوں نے کہا: آپ اجنبی معلوم ہوتے ہیں ؟
 انہوں نے کہا:قطعی نہیں ، میں یہاں کیلئے اجنبی نہیں ہوں ... یہ اور بات ہے گردش زمانہ نے مجھے اجنبی کردیا ہے۔
 لوگوں نے پوچھا: آپ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں ؟
 انہوں نے کہا: میں اُردو ہوں اور اپنے محسنوں کی تلاش میں نکلا ہوں۔
  یہ ایک تمثیل ہے لیکن حقیقت سے قریب تر ہے۔ اپنے محسنوں کی تلاش میں ’اُردو‘ اِن دنوں ممبئی آئی ہوئی ہے جہاں آج یعنی ۱۴؍ جنوری اس کے قیام کا آخری دن ہے۔ اسے ہم نے ’اردو کتاب میلے‘ کا نام دیا ہے۔ اردو میلے کی یہاں آمد پر بھی وہی باتیں ہوئیں جن کا ذکرتمثیلی کہانی میں ہے۔ طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں ۔ کچھ طنز توکچھ تنقید اور کچھ الزامات کا سہارا لےرہے ہیں ، آؤٹ ڈیٹیڈ اورقدامت پرست کہہ رہے ہیں لیکن جو محسن ہیں وہ اُٹھ کر سامنے آرہے ہیں، احوال دریافت کر رہے ہیں ، اس کے مسائل کو جاننے ، سمجھنے اوراسے حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
غلطیاں کہاں نہیں ہوتیں اور خامیاں کہاں نہیں رہ جاتیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ بنیادی مقصد کو ہی ذہن سے محو کردیا جائے۔ اردوکتاب میلے کا بنیادی مقصد اردو کتابوں تک اردو والوں کی رسائی اور اردو کتابوں کی ترویج و اشاعت ہے۔

یہ بھی پڑھئے: مسلمانوں کو اپنی شبیہ بہتر بنانےاورتعلیمی ومعاشی محاذ پرحقیقی معنوں میں کام کرنے کی ضرورت ہے

اس لحاظ سے ممبئی کتاب میلے نے ایک بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں اُردو والوں کا وہاں پہنچنا، کتابیں اُلٹ پلٹ کر دیکھنا اور ان میں سے کچھ کتابیں خریدناایک اچھی اور قابل قدر پیش رفت ہے۔ ایک محتاط رپورٹ کے مطابق ۸؍ دنوں کے کتاب میلے میں تقریباً ۵۰؍ لاکھ روپوں کی کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ اگر ایک کتاب کی قیمت اوسطاً ۵۰؍ روپے مان لیں تو اس کا مطلب ہے کہ کتاب میلے میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں فروخت ہوئی ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہاں کتاب میلے میں جتنی بھی کتابیں خریدی گئی ہیں ، وہ ضرورت کے تحت نہیں بلکہ ایک جذبے کے تحت خریدی گئی ہیں ، جن سے یقیناً بعد میں ضرورتیں بھی پوری ہوں گی لیکن یہ طے ہے کہ اگر کتاب میلے کا انعقاد نہیں ہواہوتا تو یہ ایک لاکھ کتابیں اردو والوں تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ان ایک لاکھ کتابوں میں سے اگر صرف ۱۰؍ ہزار کتابیں ہی پڑھ لی گئیں اور ان میں سے صرف ایک ہزار ہی نے اس پر کچھ عمل کرلیا ... تو کیا اسے ایک بڑی کامیابی کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا؟
 ایک لاکھ کتابوں کا اہل اُردو تک پہنچنا ، بڑی بات ہے۔ اس ایک مہم سے زبان کے ساتھ ہی زبان سے جڑے کئی شعبوں کی جڑیں بھی مضبوط ہوئی ہیں ۔ وہ مصنفین، ناشرین اورکتب فروش جو اُردو کی کتابوں سے ایک فاصلہ بنانے لگے تھے، اس طرح کی مہموں سے اب قریب آئیں گے، اردو میں کتابیں لکھیں گے، شائع کریں گے اور انہیں فروخت کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی کتاب میلے میں کئی ایسے پروگرام پیش کئے گئے جنہیں اردو تہذیب و ثقافت کا بہترین عکس کہا جاسکتا ہے۔ 
 کتاب میلے میں ایک اور اچھی پیش رفت نظر آئی۔ اُردو جس پر اپنوں ہی کی جانب سے آؤٹ ڈیٹیڈ اور قدامت پرست ہونے کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں ، وہ تیزی کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوتی ہوئی دکھائی دی۔ کتاب میلے میں صرف اردو کی کتابیں ہی نہیں ہیں بلکہ اردو کی ترویج و اشاعت میں ممدو معاون ثابت ہونی والی ٹیکنالوجی کے اسٹال بھی نظر آئے ۔ اسی طرح اردو کو تعلیم سے جوڑنے والی کتابیں بھی خاصی تعداد میں دکھائی دیں۔ 
ایک سرسری سی کوشش میں ہم نے یہاں پر ’اِن پیج اردو۴‘ ... ’منظر ٹائپ سیٹنگ ٹول‘....’ڈاکٹر کلام جونیئرسائنٹسٹ اگزام‘ ... ’پاسبان تعلیم‘..... ’ترقی تعلیم‘.... یوپی ایس ایس امتحانات کی تیاری کرانے والی ’ثمر اکیڈمی‘... طلبہ کی رہنمائی کرنے والی تنظیم ’کاوش‘.... تعلیمی نصاب ڈیزائن کرنے اور ڈیجیٹل لائبریری میں نمایاں کردار ادا کرنے والا ادارہ ’انڈین سینٹر فار اسلامک فائنانس‘، اردو اور عربی میں خوبصورت فریم.... اور ایپ کی صورت میں بچوں کا رسالہ ’گل بوٹے‘ کے علاوہ کتاب میلے میں ۹؍ دنوں میں اُردو زبان سکھانے کا ایک خاص کورس بھی چلایا گیا۔
 اس کے علاوہ بھی کتاب میلے میں ایسا بہت کچھ ہے، جسے خوش آئند کہا جاسکتا ہے۔ جاری کتاب میلے میں کسی وجہ سے جو لوگ اب تک نہ جا سکے ہوں، ان کیلئے آج آخری موقع ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK