آپؐ کی ولادت باسعادت سے لے کر فتح مکہ اور حجۃ الوداع تک کئی اہم مواقع ہیں جو اپنے آپ میں سنگ ِ میل ہیں، لیکن اسلامی تقویم کیلئے ہجرت کو بنیاد بنایا گیا۔ ذیل کی سطور میں سفر ِ ہجرت اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق ملاحظہ کیجئے:
EPAPER
Updated: July 13, 2024, 3:13 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
آپؐ کی ولادت باسعادت سے لے کر فتح مکہ اور حجۃ الوداع تک کئی اہم مواقع ہیں جو اپنے آپ میں سنگ ِ میل ہیں، لیکن اسلامی تقویم کیلئے ہجرت کو بنیاد بنایا گیا۔ ذیل کی سطور میں سفر ِ ہجرت اور اس سے حاصل ہونے والے اسباق ملاحظہ کیجئے:
اسلامی کیلنڈر کا نیا سال شروع ہوچکا ہے، اس کیلنڈرکے لئے پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت کو بنیاد بنایا گیا ہے؛ اسی لئے اس کو ہجری تقویم کہتے ہیں۔ اسلامی تقویم کی بنیاد رکھنےکا سہرا سیدناحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر ہے اور اکابر صحابہ کے مشورہ سے سیرۃ النبی ؐ کے اس اہم واقعہ کا اس کیلنڈر کیلئے انتخاب عمل میں آیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے بڑھ کر انسانیت کے لئے کیا مژدۂ جاں فزا ہوسکتا ہے؟ غزوہ ٔ بدر بعثت محمدی کے بعد باطل کے مقابلہ حق کی فتح مندی اور سربلندی کا پہلا واقعہ ہے، فتح مکہ تاریخ نبویؐ میں مسلمانوں کی سب سے بڑی فتح تھی، بلکہ فتح مبین ہے، جس نے پورے جزیرۃ العرب کی سرکش گردنوں کو اسلام کی چوکھٹ پر خم کردیا تھا، حجۃ الوداع آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفقاء کا سب سے بڑا اجتماع اور اُمت سے آپؐ کی وداعی ملاقات کا دن تھا، آپؐ کی وفات سے بڑھ کر کون سا سرمایۂ غم ہوسکتا ہے، جو اس اُمت کو ہمیشہ گھلاتا رہے گا؛ لیکن ان تمام واقعات کو چھوڑ کر صحابہ نے واقعہ ٔ ہجرت کا اس اہم مقصد کیلئے انتخاب کیا، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہجرت کے واقعہ میں اُمت کیلئے کس قدر موعظت اور تذکیر کا سامان ہے! آیئے ! آج ہم اس سبق کو تازہ کریں اور اپنی عملی زندگی میں اس سے روشنی حاصل کریں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے ہر گھر اور دَر تک اسلام کا پیغام پہنچا چکے، مکہ کے گرد وپیش کے علاقوں میں بھی اس دعوت حق کی دستک دی اور حج کے اجتماعات اور عکاظ کے میلوں کے ذریعہ عرب کے ایک ایک قبیلہ کی خوشامد فرمائی کہ وہ اس دعوت پر لبیک کہیں تو ہر طرف سے ردّ و انکار ہی کی صدا آئی، طنز و تشنیع ہی کے تیر پھینکے گئے اور مکہ و طائف کے لوگوں نے مسلمانوں کو ذہنی و جسمانی اذیت پہنچانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ نااُمیدی اور انکار کی اس گھنگھور گھٹا میں روشنی کا صرف ایک چراغ تھا، جو مدینہ کی سرزمین میں روشن ہوا تھا، جس نے کھلے طورپر اس دعوت کا استقبال کیا اور مکہ کے مظلوم و ستم رسیدہ مسلمانوں کو اپنے گھر میں پناہ دینے کی پیشکش کی؛ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت و وفا کی اس سرزمین کی دعوت کو قبول فرمایا اور نبوت کے تیرہویں سال میں مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دی۔ چند ہی ماہ میں آہستہ آہستہ اکثر مسلمان مدینہ کوچ کر گئے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کچھ مجبور مسلمان ہی تھے، جو اَب مکہ میں باقی رہ گئے تھے۔ اس سے معلوم ہواکہ ہجرت سے پہلے دعوت کا مقام ہے۔ جب کسی قوم پر دعوتِ دین کا حق ادا کردیا جائے اور ان پر حجت پوری ہوجائے تو اپنے دین کی حفاظت اور دوسری قوموں تک دین کی دعوت کی غرض سے وطن عزیز کو چھوڑنا ہجرت ہے۔ بہتر معاش کی تلاش میں اور امن و امان کی طلب میں ترک وطن ہی کا نام ہجرت نہیں، جیساکہ آج کل ’’مہاجر‘‘ کا لفظ ہر تارک وطن کیلئے بول دیا جاتا ہے، یہ جانے بغیر کہ ہر تارکِ وطن مہاجر نہیں ہوتا۔
نبوت کے چودہویں سال خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت کی اجازت ملی، آپؐ نے ہجرت کا ارادہ فرما لیا، اس ارادہ سے حضرت علیؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کی دو صاحب زادیوں حضرت اسماء ؓاور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں تھا۔ (بخاری : باب ہجرۃ النبی واصحابہ الی المدینہ، حدیث نمبر : ۳۹۵)۔
اس سے رازداری کا سبق ملتا ہے، نازک فیصلوں کے اظہار میں احتیاط اور پردہ داری ضروری ہے، افسوس کہ آج اُمت میں اس کا فقدان ہے، ہم ابھی کوئی اقدام نہیں کرتے لیکن اپنی اشتعال انگیز سرخیوں سے ذرائع ابلاغ کو پہلے ہی گرما گرم مواد فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ جرأت نہیں بلکہ بےوقوفی ہے اور آج ہم نے قومی زندگی میں یہی راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: زندگی اللہ کی امانت ہے، جان دینا اور جان لینا اللہ ہی کا حق ہے
اہل مکہ کو اندازہ ہوگیا کہ اب آپؐ بھی ہجرت کرنے والے ہیں اور اگر آپؐ بچ کے مدینہ چلے گئے، تو پھر مسلمانوں کو کچلنا ممکن نہ ہوگا؛ چنانچہ انہو ں نے مشورے کئے اورشب میں آپؐ کے قتل کا منصوبہ بناکر بارگاہ نبوت کا محاصرہ کرلیا۔ رسولؐ اﷲ کو خدا کی طرف سے اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔ آپؐ کے پاس اب بھی اہل مکہ اوراپنے جانی دشمنوں کی بہت سی امانتیں تھیں، جنہیں آپؐ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کیں اوران سے خواہش فرمائی کہ آج کی شب وہ آپؐ کی استراحت گاہ میں وہی چادر اوڑھ کر آرام کریں جو آپؐ اوڑھا کرتے تھے۔ اس کے بعد آپؐ ایک مشت خاک پھینکتے اورسورہ ٔ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے نکل آئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بستر مبارک پر محو خواب ہوئے۔
اس میں امانت و دیانت کا کتنا بڑا سبق ہے ! غلامانِ محمدؐ کو اخلاق وکردار اور دیانت واعتبار کی نسبت سے اس مقام پر ہونا چاہئے کہ اس کا جانی دشمن بھی اس کو اپنی امانتوں کیلئے سب سے محفوظ اور مامون سمجھے کہ یہی لوگوں کے قلوب کو فتح کرنے کی کلید ہے۔ پھر حضرت علی ؓ کی قربانی ملاحظہ فرمائیے کہ بقول علامہ شبلی ؒنعمانی ’’آج رسول اﷲ ﷺ کا بستر خواب قتل گاہ کی زمین ہے؛ لیکن فاتح خیبر کے لئے قتل گاہ فرش گل تھا ‘‘ یعنی حضرت علی ؓ نے یہ جاننے کے باوجود کہ یہ آرام گاہ ان کی قتل گاہ میں تبدیل ہوسکتی ہے اوریہ بسترِ خواب مرگ کا بستر بھی بن سکتا ہے، بہ سر و چشم یہ خطرہ مول لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل فرمائی۔
آپؐ ۱۳؍ ربیع الاول کو پیر کے دن، رات ہی کے وقت حضرت ابوبکر صدیقؓکے یہاں تشریف لے گئے اور وہاں سے تین میل چل کر غارِ ثور کی پناہ لی، پھر تین دن یہاں چھپے رہے، اس کے بعد مدینہ تشریف لے گئے۔ اس مختصر مدت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ اور آپ کے خانوادہ نے قربانی کے ایسے نقوش جاوداں چھوڑے ہیں کہ شاید ہی آسمان کی آنکھوں نے اس کی کوئی مثال دیکھی ہو، گھر میں جو کچھ تھا، پانچ چھ ہزار درہم، سب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ساتھ لے لیا اور گھر والوں کے لئے اﷲ اور اس کے رسولؐ کا نا م چھوڑ آئے، حضرت ابوبکر ؓکے والد حضرت ابوقحافہ بہت سن رسیدہ اور نابینا تھے، انھوں نے اپنی پوتیوں سے بے چین ہوکر کہا کہ ابوبکر صدیق ؓنے تو ہم لوگوں کی گزران کے لئے کچھ چھوڑا بھی نہ ہوگا ؟ حضرت اسماءؓ اورحضرت عائشہ ؓبہت کم عمر تھیں لیکن آخر ان کی رگوں میں خونِ صدیق رواں تھا، کچھ مٹی، پتھر وغیرہ کے ٹکڑے گھر کے ایک کونے میں جمع کر دیئے، جہاں حضرت ابوبکر ؓ درہم و دینار رکھتے تھے، ان کو چند چٹائیوں سے ڈھانک دیا اور اپنے بوڑھے نابینا دادا کولے جاکر تشفی دلائی کہ حضرت ابوبکرؓ ہم لوگوں کیلئے بہت کچھ چھوڑ کر گئے ہیں، حضرت ابوقحانہ نے واقعی اسے سچ جانا، کہنے لگے : پھر تو کوئی حرج نہیں۔ حضرت اسماء ؒکہتی ہیں کہ میں نے یہ محض اپنے بوڑھے دادا کی طمانیت کیلئے کیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ : ۳ / ۱۷۹ ) معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی بچوں کی تربیت اس انداز سے کرنی چاہئے کہ وہ دین کیلئے پیش آنے والے سرد و گرم میں والدین کا ساتھ دے سکیں۔
جب غارِ ثور میں پہنچے، تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود آگے بڑھ کر غار کو ٹٹول کر دیکھا کہ کہیں غار میں کوئی درندہ یا سانپ وغیرہ تو نہیں ہے ؟ تاکہ رسولؐ اﷲ اس سے محفوظ رہیں ؛ بلکہ بعض روایات میں ہے کہ ایک سوراخ سے سانپ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ڈس بھی لیا، ثور کو جاتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی کیفیت یہ تھی کہ کبھی آپ ؐ کے آگے آجاتے اور کبھی پیچھے، کبھی دائیں آجاتے اور کبھی بائیں، حضورؐ نے یہ کیفیت دیکھی تو سبب دریافت فرمایا: عرض کناں ہوئے کہ مجھے جس سمت سے آپؐ پر خطرہ محسوس ہوتا ہے، میں ادھر آجاتا ہوں تاکہ اگر کوئی مصیبت آئے تو میں اس مصیبت کو سہوں اور آپؐ محفوظ رہیں۔ جہاں حضورؐ اپنی نعل مبارک اُتارلیتے، وہاں حضرت ابوبکر صدیقؓ، آپؐ کو اپنے کاندھوں پر اُٹھالیتے۔ ( بہ حوالہ ٔ سابق )۔ قربان جائیے! حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے صدق و صفا اور جانثاری و محبت پر۔ یہ محبت ِ رسولؐ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی میراث ہے جو حفاظت ایمان کیلئے متاع گراں مایہ ہے اور جو فاسق و فاجر اور دین سے ناواقف و نابلد کلمہ گو کوبھی ایمان پر ثابت قدم رکھتی ہے۔
تین دنوں بعد آپؐ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ مدینہ کی سمت عام راستہ کو چھوڑ کر ایک غیر معروف راستہ سے نکلے، موقع بہ موقع گزرنے والوں سے ملاقات ہوتی، حضرت ابوبکر صدیقؓ تجارتی تعلقات کی بناء پر بڑے متعارف تھے، لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے پوچھتے کہ آپ کے ساتھ یہ کون صاحب ہیں ؟ حضرت ابوبکرؓ ایک ذو معینین جملہ کہتے : دلیل یدلنی ایک راہ بتلانے والا ہے، جو ہمیں راہ بتلارہا ہے۔ پوچھنے والے سمجھتے کہ ریگستان میں چوں کہ راہبر کی ضرورت پڑتی تھی وہی ’’ راہبر ‘‘ مراد ہے؛ لیکن حضرت ابوبکر صدیقؓ کا منشا ہوتاکہ آپؐ ہمارے روحانی رہبر ہیں۔ اسی کو حدیث میں ایمانی فراست سے تعبیر کیا گیا ہے کہ مومن کو معاملہ فہم، خطرات کے بارے میں محتاط اور امکانی اندیشوں کے بارے میں چوکنا ہونا چاہئے اور ایسی بات کہنی چاہئے کہ جو حقیقت کے مطابق بھی ہو اور کسی آزمائش کا سبب بھی نہ بنے۔
واقعۂ ہجرت میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب حضور ؐ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اشارہ کیا تھا کہ وہ ہجرت میں ان کے رفیق ہوں گے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ غایت مسرت میں بھی آنکھیں اشک بداماں ہوجاتی ہیں۔
جب آپؐ مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو مدینہ کی سرزمین آپؐ کے لئے چشم براہ تھی، مدینہ کے چپہ چپہ میں عید کا سا سماں تھا، لڑکے اور لڑکیاں خیرمقدمی نغمے گا رہے تھے، جوان اور بوڑھے، ہتھیار سجائے اور آنکھیں بچھائے راہ میں کھڑے تھے اور ہر شخص کی آرزو تھی کہ آپؐ اس کے گھر کو اپنے قیام کی سعادت بخشیں، یہاں تک کہ آپؐ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کے سامنے رکی اور آپؐ وہیں فروکش ہوئے۔ ایسا نہ تھا کہ اہل مکہ کیلئے اپنا وطن چھوڑنا کوئی خوشگوار بات تھی، صحابہؓ کو مکہ کی ایک ایک چیز یاد آتی تھی اور دل دکھاتی تھی، موسم کی ناموافقت کی وجہ سے صحابہؓ بیمار بھی پڑ رہے تھے، بعض صحابہ شدت بخار میں بھی مکہ کی پہاڑیوں یہاں تک کہ مکہ میں اُگنے والی گھاس تک کو یاد کرتے تھے، خود رسولؐ اﷲ جب مکہ سے نکلے، تو اس شہر کی پہاڑیوں پر نگاہ ِحسرت ڈالی اور فرمایا کہ ہم یہاں سے خود جانا نہیں چاہتے تھے۔
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہجرت کے اِس واقعہ کی تفصیل اپنی نئی نسل کو بتائیں تاکہ جب اُس کے افراد کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ ہجری کیلنڈر کیا ہے، کب سے شروع ہوا اور اس کا تاریخی پس منظر کیا ہے تو وہ بھونچکا نہ رہ جائیں بلکہ خود کو مطمئن کرسکیں کہ وہ اس کی مکمل تاریخ سے واقف ہیں اور اگر برادران وطن میں سے کوئی اُس سے استفسار کرتا ہے تو وہ اُسے بتانے، سمجھانے اور مطمئن کرنے کے قابل ہوں۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔