• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

زندگی اللہ کی امانت ہے، جان دینا اور جان لینا اللہ ہی کا حق ہے

Updated: July 05, 2024, 3:34 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

انسانی جان کی حرمت کا حکم قرآن مجید میں بھی دیا گیا اور آپؐ نے خطبہ ٔحجۃ الوداع میں بھی اس تعلق سے واضح تاکید فرمائی تھی، اس کے باوجود اگر پیغمبر رحمتؐ کی اُمت مسلمانوں کے ؛ بلکہ انسانوں کے خون کی اہمیت و حرمت کو نہ سمجھ سکے اور اس کے ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین ہوں تو اس سے بڑھ کر قابل افسوس اور لائق حیرت کون سی بات ہوگی؟

Islam has taught brotherhood and given a strict promise to those who do not respect human life. Photo: INN
اسلام نے اخوت کا درس دیا ہے اور انسانی زندگی کا احترام نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید سنائی ہے۔ تصویر : آئی این این

اسلام کی نگاہ میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک اور کفر ہے، اس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہے، جو شخص کفر کی حالت میں دُنیا سے چلا جائے، اس پر جنت کے دروازے بند ہیں اور ہمیشہ کے لئے آتشیں دوزخ کی آغوش اس کی رفیق رہے گی۔ کفر کے بعد ایک ہی عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ اس کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا، اس پر اللہ کا غضب ہوتا رہے گا اور اللہ کی لعنت برستی رہے گی۔ کتنا گھبرادینے اور تڑپا دینے والا ہے یہ ارشاد ربانی: 
’’رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ (نساء:۹۳)
کتنی لرزہ براندام کردینے والی ہے یہ آیت! --- لیکن اس شخص کے لئے ہے جس کے دل میں خوفِ خداوندی کا کوئی گوشہ موجود ہو، جس کی آنکھ کبھی کبھی سہی، اللہ کے خوف سے نم ہونا جانتی ہو، جس کا دل آخرت کے تصور سے لمحہ دو لمحہ سہی، لرزنے سے آشنا ہو، جو آخرت کی وسعتوں پر یقین رکھتا ہو، جس کا جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی ہولناکیوں پر ایمان ہو اور جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہو۔ اس کے برخلاف جن لوگوں کے سینوں میں دل کے بجائے پتھر کی سِل رکھی ہوئی ہو اور جن قلوب میں محبت کی شبنم کے بجائے نفرت اور ظلم و جور کی بھٹیاں سلگ رہی ہوں ، ان کے بارے میں کیوں کر سوچا جاسکتا ہے کہ خالقِ کائنات کا یہ ارشاد ان کو تڑپا سکے گا اور خدا و ررسول کی بات ان کے دلوں پر دستک دے سکے گی۔ وہ تو اپنے ذہن و دل کو مقفل کرکے بیٹھے ہیں !
آہ ! کس قلم سے لکھا جائے اور کس زبان سے کہا جائے کہ ہمارے شہر حیدرآباد میں ابھی دو ہفتہ کے مختصر عرصہ میں ایک درجن سے زیادہ مسلمانوں کا بے دردانہ قتل ہوچکا ہے۔ کن کے ہاتھوں ؟ کیا کسی غیر مسلم کے ہاتھوں ؟ کیا کسی دشمن ِاسلام کے ذریعہ؟؟ نہیں، حیرت کے کانوں سے سنئے کہ ایک کلمہ گو نے دوسرے کلمہ گو کو ناحق قتل کیا ہے، ایک مسلمان کی تشنہ تلوار نے ایک مسلمان ہی کے لہو سے اپنی پیاس بجھائی ہے، سستے داموں خدا کا غضب خرید کیا ہے، اپنے گلے کو لعنت ِخداوندی کے طوق سے آراستہ کیا ہے اور ابدی دوزخ حاصل کی ہے۔ اس بے حسی پر آنکھیں جس قدر آنسو بہائیں ، دل جتنا تڑپے اور روئے کم ہے، ہائے ! یہ اس اُمت کا حال ہے جس کو آخر آخر دم تک اس کے نبی ﷺ نے مسلمان کے خون کی حرمت بتائی تھی اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت وآبرو سے ہاتھ رنگنے کو منع فرمایا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے:فطرت کے مطابق کائنات کی چیزوں کو استعمال کرنے میں بھلائی ہے

رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو معاف فرمادیں گے، سوائے اس کے کہ کوئی شخص شرک کی حالت میں مرے یا کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر : ۴۲۷۰) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کو قتل کیا، اللہ تعالیٰ نہ اس کی کوئی فرض نماز قبول فرمائیں گے اور نہ نفل۔ (ابو داؤد، کتاب الفتن، باب فی تعظیم قتل المؤمن، حدیث نمبر : ۴۲۷۰) اور کیوں نہ ہو کہ مومن کا قتل اللہ کے نزدیک دُنیا کے ختم ہوجانے سے بڑھ کر ہے۔ (نسائی، حدیث نمبر : ۳۹۹۰)۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورؐنے فرمایا کہ اگر تمام اہل زمین اور اہل آسمان بھی ایک مسلمان کی موت میں شریک ہوں تو اللہ ان سب کو جہنم میں اوندھے منہ ڈال دے گا۔ (ترمذی، حدیث نمبر : ۱۳۹۸) اس سے اندازہ کیجئے کہ مومن کے خون کی کیا حرمت اور عظمت ہے اور کسی مسلمان کی جان لینا کیسی لعنت اور غضب ِالٰہی کو دعوت دینا ہے! اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ مومن برابر دین کے معاملہ میں وسعت و گنجائش میں رہتا ہے، جب تک کہ کسی خون ِحرام کا مرتکب نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ: ومن یقتل مؤمنا متعمدا الخ، حدیث نمبر : ۶۸۶۲)
جیسے قتل کرنا گناہ ہے، اسی طرح قتل میں تعاون دینا بھی گناہ ہے؛ بلکہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو قتل پر اُکسایا ہو تو اس کا گناہ اصل قاتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایک بار آپؐ سے قاتل اور قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: جہنم کے ستر حصے کئے جائیں گے جس میں انہتر (۶۹) حصے قتل کا حکم دینے والے کے لئے ہونگے اور ایک حصہ خود اس قاتل کیلئے اور یہ ایک حصہ بھی اس کیلئے بہت کافی ہوگا۔ (مسند احمد، حدیث نمبر : ۲۳۰۶۶ عن مرثد بن عبد اللہؓ)
نہ صرف یہ کہ قتل پر اُکسانا اور اُبھارنا بہت بڑا گناہ ہے ؛ بلکہ مقتول کو بچانے کی کوشش نہ کرنا اور پہلو تہی سے کام لینا بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق بنادیتا ہے؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: جہاں کسی شخص کا ظلماً قتل ہو، وہاں تم کھڑے نہ ہو، وہاں موجود رہنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہوتی ہے کہ انہوں نے اسے بچایا کیوں نہیں ؟ اور جہاں کسی شخص کو ظلماً زد و کوب کیا جارہا ہو، وہاں بھی نہ ٹھہرو؛ کیونکہ حاضرین پر بھی اللہ کی لعنت ہوگی کہ انہوں نے مدافعت کیوں نہیں کی۔ (الطبرانی فی الکبیر، باب العین، حدیث نمبر : ۱۱۶۷۵، ۱۱؍۲۶۰) 
اصل یہ ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے ذہن میں انسانی خون او ر انسانی زندگی کا احترام نہیں اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ایک نفس انسانی کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے اور ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے، ترجمہ: ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ ‘‘( المائدۃ: ۳۲)
اس جرم کے شدید ہونے کی وجہ ظاہر ہے۔ زندگی اللہ کی امانت ہے، جان دینا اور جان لینا اللہ ہی کا حق ہے، قاتل گویا اللہ کا حق اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے، اس سے بڑھ کر سرکشی اورکیا ہوگی؟ پھر خود مقتول کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے، ایک تو قتل کی تکلیف سے بڑھ کر کسی اور تکلیف کا تصور نہیں کیا جاسکتا، دوسرے: قاتل اسے ایسی نعمت سے محروم کرتا ہے، جس کی واپسی ممکن نہیں اور جس کا بدل ناقابل حصول ہے۔ یہ تو خود قاتل کا معاملہ ہے، پھر غور کیجئے کہ ہرانسان کے ساتھ کتنے ہی حقوق متعلق ہیں، یقیناً معصوم بچوں اور بچیوں کی تربیت مقتول کے ذمہ تھی، جَوان بہنوں کی شادی کا وہی ذمہ دار تھا، بوڑھے ماں باپ کی کفالت اسی کے سر تھی، بیوی کا سہاگ اس کے دم سے قائم تھا، خاندان کی کتنی ہی آرزوئیں اور تمنائیں اس سے متعلق تھیں اور سماج کی کتنی ہی اُمیدیں اور توقعات اس سے وابستہ تھیں، بظاہر یہ ایک جان کا قتل ہے؛ لیکن درحقیت وہ کتنی ہی تمناؤں، حسرتوں، اُمیدوں اور آرزوؤں کا قاتل ہے، اس نے ایک بے قصور عورت کو بیوہ کیا، معصوم بچوں کو یتیم اور بے سہارا بنایا، بوڑھے ماں باپ سے اُن کا عصائے پیری چھین لیا ہے اور چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی اُمیدوں کے محل کو خاکستر کر کے رکھ دیا اِس لئے یقیناً اس نے ایک شخص کا نہیں ؛ بلکہ ایک خاندان کا ایک کنبہ کا اور انسانیت کا قتل کیا ہے۔ 
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انتقام کاقانون رکھا ہے کہ یا تو خود قاتل کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے، (البقرۃ : ۱۷۸) اگر مقتول کے اولیا، رضامند ہو جائیں تو ان کو دیت ادا کی جائے، جو سو اونٹ یا اس کی قیمت ہے، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے، مقصد اس دیت کا یہی ہے کہ ایک شخص کے قتل کی وجہ سے مقتول کے خاندان کو جو نقصان پہنچا ہے وقتی طور پر سہی، کچھ تو اس کی اشک شوئی ہو جائے اور ہنگامی مدد تو اسے مِل جائے، یہ خون بہا اس وقت بھی واجب ہے، جب کسی شخص کو دھوکہ میں قتل کر دے، (النساء: ۹۲) اور اس غلطی کی صورت میں صرف دیت ہی کافی نہیں بلکہ کفارہ بھی واجب ہےکہ مسلسل دوماہ روزے رکھے جائیں، (النساء : ۹۲) اگر جان بوجھ کر قتل کیا ہو تو اس کے لئے کوئی کفارہ متعین نہیں کیا گیا، زندگی بھر توبہ و استغفار کرتا رہے؛ کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم اور اتنا شدید گناہ ہے کہ کوئی عمل اس کا کفارہ بن نہیں سکتا، یہ کفارہ اسی لئے ہے کہ حقوق اللہ میں جو دست درازی ہوئی ہے، اسکی کچھ تلافی ہو جائے۔ 
سرکار دو عالم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: آج کون سا دن ہے؟ یہ کون سا مہینہ ہے؟ اور یہ کون سی جگہ ہے؟ پھر فرمایا کہ یہ حرام مہینہ، حرام دن اور حرام سر زمین یعنی حدودِ حرم کا علاقہ ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو اس سے بھی زیادہ قابل حرمت ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب قول النبی: رب مبلغ أوعیٰ من سامع، حدیث نمبر: ۶۷) اگر اس پیغمبر رحمتؐ کی اُمت مسلمانوں کے ؛ بلکہ انسانوں کے خون کی اہمیت و حرمت کو نہ سمجھ سکے اور اس کے ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین ہوں تو اس سے بڑھ کر بھی قابل افسوس، لائق حیرت اورتعجب انگیز کون سی بات ہوگی؟!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK