ووٹ دینے والوں کی طویل قطاروں کے علاوہ انتخاب کا پُرامن ہونا بھی جموں کشمیر انتخاب کی اہم بات ہے۔
EPAPER
Updated: September 27, 2024, 1:47 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
ووٹ دینے والوں کی طویل قطاروں کے علاوہ انتخاب کا پُرامن ہونا بھی جموں کشمیر انتخاب کی اہم بات ہے۔
۱۹۵۱ء سے ۱۹۶۷ء تک ملک بھر میں پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات ہوتے رہے مگر بعد میں عبوری یا وسط مدتی انتخابات ہونے کے سبب ایسا نہیں ہوسکا۔ کووند سمیتی نے اپنی رپورٹ میں جو مرکزی کابینہ نے منظور کر لی ہے۔ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخاب کرانے کے ساتھ ۱۸؍ آئینی ترمیمات کی بھی سفارش کی ہے۔ ان سفارشات کے مطابق سنگل ووٹر لسٹ اور ووٹر آئی ڈی پر کچھ ترمیم کے لئے کئی ریاستوں کی منظوری کی ضرورت پیش آئے گی۔ کچھ سیاسی پارٹیوں نے اس کا استقبال کیا ہے اور کچھ نے مخالفت کی ہے۔ رپورٹ میں مجموعی طور پر کہا گیا ہے کہ پہلے مرحلے میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں اور دوسرے مرحلے یا پہلے مرحلے کے انتخابات کے ۱۰۰؍ دن کے اندر پنچایتوں اور بلدیہ کے انتخابات کرائے جائیں ۔ اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت قانون پاس کرے گی اور پھر اسی دور اقتدار میں نافذ بھی کرے گی مگر ایسا کرنا شاید آسان نہ ہو۔ اسی دوران جموں کشمیر میں پہلے مرحلے کا انتخاب ۱۸؍ ستمبر کو مکمل ہوچکا ہے اور ۲۵؍ ستمبر و یکم اکتوبر کو دوسرے اور تیسرے مرحلے کا انتخاب بھی ہوگا۔ نتیجہ جو بھی ہو مگر جموں کشمیر میں انتخابات کا پُر امن طریقے سے ہوجانا بذات خود بڑی کامیابی ہے۔ اخبارات میں جو خبریں شائع ہوئیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمے کے بعد جو انتخاب ہورہا ہے اس میں جموں کشمیر کے ہر حصے کے لوگ جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرکت کر رہے ہیں ۔ گزشتہ دس برس اس خطے کے لئے اہم اس لئے رہے ہیں کہ جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ ۳۷۰؍ تو ختم کی جا چکی ہے اس خطے کو ریاست کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔ انتخابات کے بعد کیا ہوگا؟ اس کی کوئی واضح شکل ووٹ دینے والوں کے ذہنوں میں نہیں ہے مگر وہ ووٹ دینے کے عمل کا حصہ بن کر جمہوریت کو مضبوط تر بنا رہے ہیں ، البتہ روزگار اور جمہوری حق کی بازیابی کے سلسلے میں یہاں کے لوگوں کے ذہنوں میں کچھ خدشات اور امیدیں بھی ہیں ۔ ایک جمہوری ملک کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ خدشات کو دور اور امیدوں کو پورا کرے۔ اب سے پہلے جو انتخابات ہوتے تھے اس میں انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فرمان جاری ہوا کرتا تھا مگر اس بار ایسا نہیں ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے لوگ بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں شرکت کر رہے ہیں ۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اثرات میں بھی کمی کے ساتھ عام لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اعتماد کی لاج رکھنا ضروری ہے۔
کوئی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات کے بعد کیا نتائج آئیں گے یا کیسی حکومت بنے گی مگر یہ تو طے ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے اراکین منتخب کئے جا رہے ہیں تو وہ قانون بھی بنائیں گے۔ ان قوانین کا اس شرط کے ساتھ استقبال ضروری ہے کہ وہ آئین کے مطابق ہوں ۔ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے جموں کشمیر کے عوام جو کچھ چاہیں ان کو ملنا چاہئے۔ رہی بات دفعہ ۳۷۰؍ کی بحالی کی تو اس سلسلے میں کسی سیاسی پارٹی کے دعوے اور وعدے سے ہمیں غرض نہیں ، ہمارا مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ دفعہ ۳۷۰؍ ہٹائے جانے سے یہاں کے حالات پر کیا فرق پڑا ہے اور اگر کچھ فرق پڑا ہے تو وہ عوام کے لئے سودمند ہے یا مضر؟
ووٹ دینے والوں کی طویل قطاروں کے علاوہ انتخاب کا پُرامن ہونا بھی جموں کشمیر انتخاب کی اہم بات ہے۔ یہ مضمون اس وقت لکھا جا رہا ہے جب انتخاب کا پہلا مرحلہ ختم ہوچکا ہے دوسرا مرحلہ قریب تر ہے مگر کہیں سے تشدد اور خونریزی کی کوئی خبر نہیں آرہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جموں کشمیر میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو مقامی لوگوں کا ساتھ نہیں مل رہا ہے۔ تشدد کے جو واقعات ہوئے ہیں ان میں ملک سے باہر کے لوگ پکڑے یا مارے گئے ہیں ۔ مگر ایسی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں یا بیانات سامنے آرہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مذہب اور مسلک کے اختلافات کو بھی اپنے فائدے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ کسی طرح بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک ہو یا جموں کشمیر ہر طبقے، فرقے اور حصے کی ترقی ہونا ضروری ہے اور اسی کی بات ہونا چاہئے۔ ۸؍ اکتوبر کو ایسے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں جو مرکزی حکومت کی خواہشوں اور کوششوں کے عین مطابق ہوں اور ایسے بھی جو کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی خواہشات کے مطابق۔ ہمیں دیکھنا صرف یہ ہے کہ جو بھی حکومت برسراقتدار آتی ہے اس کو آئین کے دائرے میں کام کرنے اور عوام کی امیدوں کو پورا کرنے دیا جاتا ہے یا نہیں ۔ بیشک ریاست جموں کشمیر میں ۳۷۰؍ کو ختم کرنے کا کام بی جے پی نے کیا ہے مگر اس دفعہ کو بے روح کرنے کا کام تو خود کانگریس نے کیا تھا۔ ممکن ہے ریاست میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کا اتحاد زیادہ دنوں قائم نہ رہنے دیا جائے مگر ایسا تو ماضی میں یعنی اس وقت بھی کیا جا رہا تھا جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی۔
یہ بھی پڑھئے: بہار کاآئندہ اسمبلی انتخاب اور مسلمان
بہرحال ۸؍ اکتوبر کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر ابھی سے تبصرہ نہیں کیا جاسکتا البتہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخاب کرانے کے سلسلے میں یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا ایسا کوئی قانون پاس ہونا آسان ہے۔ شاید نہیں ۔ لوک سبھا میں اس کو پاس کرانے کے لئے ۳۶۲؍ اور راجیہ سبھا میں پاس کرانے کے لئے ۱۶۳؍ اراکین کی تائید ضروری ہے۔ حکمراں محاذ دونوں ایوانوں میں اگر کسی طرح مسودہ قانون پاس بھی کروا لیتی ہے تو اس کو کم از کم ۱۵؍ اسمبلیوں میں پاس کرانا ضروری ہوگا جو ناکوں چنے چبانے جیسا ہے۔ یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ لا کمیشن نے ۲۰۱۸ء میں مرکزی حکومت کو ۲۰۲۴ء سے پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کا روڈ میپ دیا تھا مگر عملاً اب تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا وَن نیشن وَن الیکشن ہمیشہ صدارتی طرز حکومت کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے دائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کو فائدہ پہنچتا ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ۷۵؍ سال کی عمر کو پہنچنے پر وزیراعظم اپنے عہدے سے دستبردار ہونے پر مجبور کئے جائیں گے البتہ وہ صدر جمہوریہ بن سکتے ہیں اور ’’وَن نیشن وَن الیکشن‘‘ جہاں کشمیر میں سنگھ کے پرانے نعرے ’’ایک ودھان ایک پردھان‘‘ کی بازگشت ہے وہیں موجودہ وزیراعظم کو ایک نئے قسم کا صدر جمہوریہ بنائے جانے کا ایک طریقہ بھی ہے۔ قبل از وقت نتیجہ اخذ کرنا مقصود نہیں مگر جب کسی موضوع کا تجزیہ کیا جائے گا اور بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ اس مضمون میں بھی کوئی نتیجہ نہیں اخذ کیا جا رہا ہے بلکہ ’’وَن نیشن وَن الیکشن‘‘ اور جموں کشمیر انتخاب کے مضمرات پر بات ہورہی ہے۔