قرآن کریم کی ہدایت یہ ہے کہ اگر زوجین کے درمیان اختلاف اور دراڑ محسوس ہو تو دونوں کی طرف سے کم ازکم ایک ایک حَکَم بیٹھے اور دونوں مل کر معاملے کو افہام و تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کی کوشش کریں۔
EPAPER
Updated: August 23, 2024, 3:59 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
قرآن کریم کی ہدایت یہ ہے کہ اگر زوجین کے درمیان اختلاف اور دراڑ محسوس ہو تو دونوں کی طرف سے کم ازکم ایک ایک حَکَم بیٹھے اور دونوں مل کر معاملے کو افہام و تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کی کوشش کریں۔
گھریلو معاملات کے سبب لڑکا طلاق دینا چاہتا ہے مگردو ڈھائی ماہ کے بعد۔ لڑکی نے بہت کوشش کرلی اپنی طرف مائل کرنے کی، مگر لڑکے کا رویہ یہ ہے کہ جب دل چاہا گلے لگایا جب دل چاہا منہ پھیر لیا۔ اب لڑکی کی ہمت ٹوٹ چکی ہے لہٰذا وہ چاہتی ہے کہ اگر چند ایک ماہ ساتھ رہنا بھی ہے تو اجنبیوں کی طرح رہا جائے تاکہ اس کی عزت نفس مزید مجروح نہ ہو۔ کیا شرعاً اس میں کچھ قباحت ہے؟
عبد اللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: سوال کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ شوہر بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے مگر گھریلو معاملات کی وجہ سے دو ڈھائی ماہ کے بعد۔ بیوی کی کوشش تھی کہ شوہر کو اپنی جانب مائل کرلے تاکہ رشتہ ٹوٹنے سے بچ جائے لیکن وہ مایوس ہوچکی ہے اور اسے یقین ہو چلا ہے کہ شوہرایک نہ ایک دن اسے طلاق دیدیگا اس لئے اس سے محفوظ رہنے کیلئے اپنا بستر الگ کرلینا چاہتی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو سوال سے ظاہر ہو رہی ہے۔ معاملات کی حقیقی نوعیت کیا ہے اس کا صحیح علم اللہ رب العزت کے علاوہ ان میاں بیوی ہی کو ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم نے ایسے مواقع کیلئے ہدایت دی ہے افسوس کہ ہمارا معاشرہ اس سے غافل ہے۔ جو کم علم اور جاہل ہیں بہت ممکن ہے ان میں سے اکثر کو اس کی خبر ہی نہ ہو لیکن جو پڑھے لکھے اور جانکار ہیں عام طور سے وہ بھی اس پر عمل درآمد کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ قرآن کریم کی ہدایت یہ ہے کہ اگر زوجین کے درمیان اختلاف اور دراڑ محسوس ہو تو دونوں کی طرف سے کم ازکم ایک ایک (اور ضرورت ہو تو مزید کچھ مخلص حضرات بطور ) حَکَم بیٹھ کر اس معاملے پر غور وخوض کرکے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کریں جس کی صورت یہ ہوگی کہ بنائے اختلاف کو تلاش کریں جس کی جو شکایت ہو اسے سن کر سچ اور جھوٹ کی تحقیق کے بعد جس کی غلطی ہو اسے سمجھا بجھا کر اختلاف کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں، کہیں کوئی غلط فہمی ہو تو افہام وتفہیم کے ذریعہ اسے دور کرنے کی سعی کریں۔ قرآن کریم نے اس موقع پر واضح طور سے یہ بھی کہا ہے اگر یہ حکم حضرات اصلاح اور خیر خواہی کے جذبات کے ساتھ بیٹھیں گے تو اللہ موافقت کی صورت پیدا کردےگا، ان شاء اللہ۔
یہ بھی پڑھئے:فتاوے: بیت المال کی ذمے داری سنبھالنے والے کا امین اور دیانتدار ہونا ضروری ہے
یاد رہے کہ یہ، اللہ علیم وخیبر اور قادر مطلق کا وعدہ ہے۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے اور یہ کہ حکم حضرات اصلاح اور نیک نیتی کے جذبات رکھتے ہوں، پھر اگر عنداللہ مصلحت علاحدگی میں ہو تو یہ حضرات اس طرح علاحدگی کراسکتے ہیں کہ نہ کسی کی حق تلفی ہو نہ ہی کسی کی عزت نفس مجروح ہو۔ اس موقع پر یہ بھی ذہن میں رہے کہ علاحدگی میں مصلحت نظر آئے تو اس احتیاط کے ساتھ کہ تین طلاق سے مکمل اجتناب بہر صورت ضروری ہے۔ صورت مسئولہ میں یہ قرآنی طریقہ کار اختیار کیا جائے تو ان شاء اللہ کوئی مناسب حل ضرور نکل آئیگا البتہ یہ بنیادی شرط ہے کہ کوئی فریق اسے انا کا مسئلہ نہ بنائے ہر ایک اصلاح اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ بیٹھے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
نومولود اور نماز ِجنازہ
پانچ یا چھ مہینے کا حمل تھا، لڑکی نے ناحق ساقط کروا دیا۔ پیدا ہونے کے بعد بچے میں زندگی کے آثار تھے مگر گھر والوں نے نماز پڑھے بغیر ہی اسے دفن کردیا۔ سوال یہ ہے کہ شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ اس کا کفارہ کیا ہے؟ کیا اس کی قبر پہ نماز پڑھ سکتے ہیں ؟براہ کرم تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں، نوازش ہوگی۔
فرقان، نئی دہلی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں جبکہ حمل کو چھ ماہ ہو چکے تھے اسقاط کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں تھی، علماء نے لکھا ہے کہ چار ماہ کے بعد بچے میں جان پڑجاتی ہے لہٰذا اس کا حکم زندہ انسان کا ہوجاتا ہے اس لئے کسی بھی عذر کی صورت میں اس کے اسقاط کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ چار ماہ کے بعد اسقاط حمل قتل کے حکم میں شامل ہوتاہے اور اس صورت میں دیت بھی واجب ہوتی ہے۔ اسقاط کی صورت ہو یا قبل از وقت ولادت کی، اگر پیدا ہونے پر اس میں زندگی کے آثار پائے جائیں جیسے وہ (بچہ) رویا ہو یا اس کے جسم میں حرکت ہوئی ہو تو اس صورت میں اسے غسل دے کر کفن بھی دیا جائیگا اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائیگی لہٰذا اگر اس میں زندگی کے آثار تھے تو اس کا حق تھا کہ اسے غسل وغیرہ دےکر نماز جنازہ کے بعد دفن کیا جاتا، اب جبکہ اسے یونہی دفن کردیا گیا ہے تو ان امور کیلئے اسے قبر سے باہر تو نہیں نکالا جائے گا البتہ دفن کے بعد تین دن بعد تک ایک دو حضرات قبر پر جاکر نماز اداکر سکتے ہیں، ہجوم یا مجمع اکٹھا کرنے کی ضرورت نہیں ، بلکہ اس سے احتراز ہی بہتر ہے۔واللہ اعلم وعلمہ اُتم