• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: قبضے کی جگہ اور مسجد،تجارت کے لئے لون،عقیقے کا وقت

Updated: August 09, 2024, 4:11 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) قبضے کی جگہ اور مسجد (۲) تجارت کے لئے لون (۳) عقیقے کا وقت۔

Aqeeqah is a masnoon act that is recommended to be performed on the seventh day of birth. Photo: INN
عقیقہ ایک مسنون عمل ہے جو شرعاً پیدائش کے ساتویں دن کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ تصویر : آئی این این

قبضے کی جگہ اور مسجد 
 شہر کی مساجد کے تعلق سے ایک سوال تھا کہ اگر مساجد سرکاری جگہوں پہ بغیر اجازت بنی ہوں تو ان میں نماز ہونے یا نہ ہونے کا کیا مسئلہ ہے؟ اسی طرح اگر کسی نے شخصی زمین یا سوسائٹی کی زمین پہ قبضہ کرکے مسجد بنادی تو اب اس میں نماز کا کیا مسئلہ رہے گا؟ ہوجائیگی یا نہیں ؟ عبدالرؤوف، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ ۔ ھوالموفق: مسجد بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جو شخص یا اشخاص مسجد بنانا چاہتے ہیں وہ اپنی مملوکہ زمین کو مسجد کے لئے وقف کریں، دوسرے کی زمین پر بنائی جائے تو وہ شرعی مسجد نہ کہلائےگی۔ نماز ہونے نہ ہونے کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر زمین کے مالک کو یہاں نماز پڑھنے پرکوئی اعتراض نہیں ہے تو نماز ہوجائے گی اور جب تک اسے اعتراض نہ ہو نماز کے متعلق یہی حکم ہوگا لیکن وہ جب چاہے اپنی زمین خالی کرا سکتا ہے۔ 
  ایسے حالات میں ایک صورت تو یہ ہے کہ زمین اس سے خرید لی جائے یا اسے اس پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہ زمین کو وقف کردے تاہم اگر وہ کسی طرح رضامند نہ ہو اور فروخت بھی نہ کرے تو اس صورت میں ایک ہی حل ہے کہ مسجد والے یہ جگہ چھوڑکر کسی اور مناسب جگہ پر مسجد تعمیر کرنے کیلئے جدوجہد کریں، یہاں قوم کا پیسہ ضائع نہ کریں۔ سرکاری زمین میں بعض حالات میں کچھ گنجايش ہوتی ہے لہٰذا قانون میں گنجائش ہو تو زمین الاٹ کرانے کی کوشش کی جائے، سوسائٹی کی زمین سوسائٹی قوانین کی رو سے جن کا حق بنتا ہے انہیں رضامند کیا جائے یا انہیں کچھ معاوضہ دے کر ان کی رضامندی حاصل کی جائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

یہ بھی پڑھئے:عصر حاضر کے انسان کی مایوسی اور اسلامی تعلیمات

تجارت کے لئے لون 
 ایک شخص تجارت کرتا ہے اور وہ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے بینک سے لون لینا چاہتا ہے، قرض بڑا ہے قرض حسنہ کے تمام راستے مسدود ہیں، کیا اس کے لئے بینک سے قرض لے کر اپنی تجارت کو بڑھانا جائز ہے؟ کچھ گنجائش اس کے اندر ہے؟ سیف ملک، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ ۔ ھوالموفق: اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے، اس کی حرمت قرآن وحدیث کی صریح نصوص سے ثابت ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’اللہ نے بیع کو حلال اور ربوا یعنی سود کو حرام ٹھہرادیاہے‘‘ نیز احادیث میں روایات کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے جس سے سود کی حرمت اور اسلامی نظام معیشت میں اس کی ممانعت روزروشن کی طرح عیاں ہے۔ ایک مشہور روایت کے مطابق سود کا لینا، دینا اور ان معاملات میں کسی طرح کا تعاون ملعون اعمال ہیں ۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لئے اس سے احتراز لازم ہے۔ بینک کی بنیاد ہی سودی لین دین پر مبنی ہے اس لئے بینک سے لون لینے میں سود دینا ہی پڑےگا۔ سودلینا تو کسی وقت کسی کی مجبوری نہیں اس وجہ سے کوئی مسلمان سودی قرض کا کاروبار کرے اسلام میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ البتہ بعض وقت انسان حالات کا شکار ہوکر اتنا مجبور ہوجاتا ہے کہ قرض بھی نہ ملے تو زندگی دشوار ہوجائے تو علماء نے ایسی اضطراری صورت حال میں پریشان حالی کا شکار بندے کو سودی قرض لینے کی گنجائش تحریر کی ہے ۔ لیکن جو شخص پہلے سے کاروبار کر رہا ہے صرف کاروبار کو وسعت دینے کے لئے لون لینا چاہتا ہے ظاہر ہے وہ اس درجے کا مجبور نہ ہوگا کہ اس کے لئے بینک سے لون لینے کی گنجائش ہوسکتی ہو، اس لئے کاروبار بڑھانے کے لئے کوئی جائز صورت اختیار کرے مثلاً کہیں سے غیر سودی قرض حاصل کرنے کی کوشش کرے یا کسی کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کرے ۔ حلال کی طلب ہوگی تو اللہ کوئی صورت بھی پیدا کردے گا۔ سودی قرض سے حتی الامکان بچے تاہم اگر پھر بھی کوئی خود کو حددرجہ مجبور محسوس کرتا ہے تو مقامی علماء سے رہنمائی طلب کرے جن کے لئے اس کے حالات سے واقفیت دشوار نہ ہو۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
عقیقے کا وقت 
اگر کسی بچی کی پیدائش منگل کی رات میں ۱۱؍ بجے ہوئی ہے تو اس کا عقیقہ کس وقت کیا جائے گا؟ اگلے ہفتے کے بدھ کی صبح میں کر سکتے ہیں کہ اگلے ہفتے منگل کی صبح میں کرنا پڑے گا، اگر پیر کے روز عقیقہ ہونا چاہئے تھا تو چونکہ پیر کا روز ختم ہو گیا تو اب اگلے ہفتے پیر کے روز کرنا بہتر ہے یا اس ہفتے منگل یا بدھ کو کرسکتے ہیں ؟ فہیم الدین، جالنہ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: عقیقہ بذات خود ایک مسنون اور بقول بعض مستحب عمل ہے۔ ویسے تو وقت کی تعیین کے بغیر حسب سہولت کبھی بھی عقیقہ کیاجا سکتا ہے لیکن شرعاً بہتر طریقہ یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے۔ شرعی نقطۂ نگاہ سے غروب آفتاب کے بعد ہی سے اگلا دن شروع ہو جاتا ہے اس لئے اگر پیر کا دن گزرنے کے بعد کی رات میں ولادت ہوئی ہے تو اگلا پیر کا دن ساتواں دن ہوگا لہٰذا مستحب یہ ہوگا کہ جو آنے والا پیر ہے عقیقہ اس دن کیا جائے۔ اللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK