• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عصر حاضر کے انسان کی مایوسی اور اسلامی تعلیمات

Updated: August 09, 2024, 3:26 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

اسلامی تعلیمات ہر مسلمان کے دل میں ہمیشہ امید کا دیا روشن کرنے کیلئے کافی ہیں کہ حالات چاہے کچھ ہوں امید کا دامن نہ چھوڑے اور اپنے رب سے خیر کی امید رکھے۔

The condition of man in the 21st century seems very bleak in terms of hope. It seems as if there has never been a time in history when man needed to learn the lesson of hope as much as today. Photo: INN
اکیسویں صدی کے انسان کی حالت امید کے معاملے میں بہت ہی زیادہ خستہ نظر آتی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا تاریخ میں شاید ہی انسان کو امید کا سبق پڑھنے کی اتنی ضرورت پڑی ہو جتنی کہ آج ہے۔ تصویر : آئی این این

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی فطرت میں منفی سوچ، مثبت سوچ کے مقابلے میں زیادہ کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ انسان کے اندر یہی منفی خیالات مایوسی کو جنم دیتے ہیں، اس کی پرورش کرتے ہیں اور اس کو پروان چڑھاتے ہیں یہاں تک کہ انسان قنوطیت کی ایک جیتی جاگتی مثال بن جاتا ہے۔ انسان کی یہی منفی سوچ والی عادت اس مشینی دور میں زیادہ شد ومد کے ساتھ ظاہر ہونے لگی ہے۔ قدیم دور میں خودکشی لفظ شاذ ونادرہی سنائی دیتا تھا، آج یہ ہر دن خبروں میں آتا ہے۔ ڈپریشن نام کی ایک نفسیاتی بیماری بھی اتنی عام ہوسکتی ہے، کسی زمانے میں اس کاتصور بھی محال تھا۔ اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں انسان کا رشتہ جس طرح اپنے خالق ومالک سے کمزورہوتا جارہا ہے، اس کے نتیجہ میں ناامیدی اور مایوسی سارے معاشرے میں اپنے پاؤں پسارتی ہی جارہی ہے۔ 
مثلاً اس عجیب دور میں اگر کسی کو صرف پیٹ میں ہلکا سا درد ہو اور وہ گوگل پر وجہ تلاش کرنے جائے(جیسا کہ کئی لوگوں کی عادت ہوتی ہے) تو گوگل اس کو بدہضمی سے لے کر کینسر تک سارے امراض کا خدشہ ظاہر کردیتا ہے۔ اور واہ رے انسان! سوال بھی خود پوچھتا ہےا ور ڈر بھی خود جاتا ہے۔ یہ ناامیدی اور مایوسی کی صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسے واقعات اس دورِ بلاخیز میں اب ہر دن کی عادت بن چکے ہیں۔ انسانی فطرت میں امید اور ناامیدی کے جاری اس گھمسان کے بیچ ایک فیصلہ کن رہنمائی کے لئے جب ہم اسلامی تعلیمات کی جانب پلٹتےہیں تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے کہ اسلام کی ڈکشنری میں مایوسی اور ناامیدی جیسے الفاظ کیلئے کوئی جگہ ہے ہی نہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:خطبہ ٔنکاح میں پڑھی جانے والی تین آیات کی حکمت

قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا: ’’ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ ‘‘ (الزمر:۵۳) اور ہم دیکھتے ہیں کہ حالات چاہے کتنے ہی سخت ہوں، انسان کی اندرونی خوشی اور اس کے اطمینا ن کو کوئی چیز اس سے سلب نہیں کرسکتی۔ سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں اور ویڈیو آتے رہتے ہیں کہ کسی کا ڈائیلاسس چل رہا ہے، پورے بدن میں نلیاں لگی ہیں اور وہ شخص ہاسپٹل کے پلنگ پر نماز پڑھ رہا ہے۔ اسی طرح غزہ کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے عارضی خیموں کے باہر کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو فسطائی طاقتوں کی جانب سے جاری ظلم وستم کے اندھیروں میں ایک امید کے چراغ کی مانند محسوس ہوتے ہیں اور ہمیں یہ درس دیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہر جگہ ہر حال میں بندے کو گھیرے ہوئے رہتی ہے، بندہ اس کو اگر محسوس کرلے تو ہر مشکل آسانی میں بدل جائے، ہر آنسو مسکراہٹ میں بدل جائے، ہر نقصاندہ صورت حال فائدے سے تبدیل ہوجائے۔ 
اسی لئے ہم جب سیرۃ النبی ﷺ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک طرف جہاں ایک حدیث مبارک ہم کو یہ بتلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر تمام نبیوں میں سب سے زیادہ ہمارے نبی کریم ﷺ کو ستایا گیا، تکلیف دی گئی، وہیں دوسری طرف صحابہ کرامؓ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے حضرت محمدﷺ سے زیادہ متبسم شخصیت کوئی اورنہیں دیکھی۔ پوری سیرۃ النبی ﷺ میں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ آپ ﷺ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس ہوئے ہوں۔ بلکہ آپؐ نے ہمیشہ کوشش کی کہ اللہ کی رحمت سے لو لگی رہے اور مایوسی مسلمانوں کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے۔ جنگ احزاب کے سلسلے میں ایک بات روایات میں آئی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو مشرکین کے خیمے میں جاسوسی کیلئے بھیجا۔ ان کو روانہ کرتے وقت ایک نہایت ہی اہم جملہ کہا: ’’قوم سے اس وقت تک کچھ نہ کہنا جب تک تم میرے پاس نہ پہنچ جاؤ۔ ‘‘ مسلمان چونکہ اس وقت نہایت کسمپرسی کے عالم میں تھے اور کفار ومشرکین کے متعلق کوئی حتمی خبر ابھی آئی نہ تھی، اس لئے آپﷺ نے حضرت حذیفہؓ سے کہا کہ وہاں کی خبر سیدھے میرے پاس لے آنا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ آپؐ چاہتے تھے کہ اگر مشرکین مکہ کی جانب سے کسی بڑے حملے کی خبر آئے تو اس سے مسلمانوں کے حوصلوں پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ 
یہی وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو ایک مسلمان کے دل میں ہمیشہ امید کا دیا روشن کرنے کے لئے کافی ہیں کہ حالات چاہے کچھ ہوں انسان امید کا دامن نہ چھوڑے اور اپنے رب سے اس بات کی توقع رکھے کہ جو ہوگا خیر ہوگا۔ بہت سارے لوگ اس موقع پر یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم پر مصیبت آئی ہی اتنی بڑی ہے کہ اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے۔ اس موقع پر جہاں اسلامی تعلیمات ہمیں مصیبت کے اولین مرحلے ہی سے ہی صبر کا دامن تھام لینی کی تاکید کرتی ہیں، وہیں حوصلہ بڑھانے کے لئے یہ خوشخبری بھی دیتی ہیں کہ انسان کی جتنی بڑی آزمائش ہوگی، اتنا ہی بڑا اجر اس پر(صبر کرنے پر) ملے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے:کردار کی بلندی کامیابی کا بہترین راستہ ہے

اس کو اور بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ہم یوسف علیہ السلام کے قصے میں حضرت یعقوب علیہ السلام کاایک جملہ دیکھیں کہ ’’(اے میرے بیٹو!) اللہ کی رحمت سےناامید نہ ہو۔ یقین جانو، اللہ کی رحمت سے وہی لوگ ناامید ہوتے ہیں جو کافر ہیں۔ ‘‘ (یوسف:۸۷) اگر ہم اس جملے کا سیاق دیکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ امیدوں بھرا یہ جملہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے کوئی عام حالات میں نہیں کہا تھا جب ان کے ساتھ زندگی میں سب اچھا چل رہا تھا بلکہ یہ طاقتور اس وقت کہا تھا جب ان کے ایک فرزند حضرت یوسف علیہ السلا م کو جداہوئے ایک عرصہ بیت چکا تھا اور اب ان کے دوسرے چہیتے بیٹے حضرت بنیامین بھی ان سے بچھڑ چکے تھے۔ ایسے پر آشوب حالات میں بھی حضرت یعقوب علیہ السلام کا اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونے کی تلقین کرنا اس بات کا واضح اور بین ثبوت ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی بھی طرح کے حالات میں مایوسی اور ناامیدی کی اجازت نہیں دیتا۔ 
 اسلام کی ان تعلیمات کو جاننے کے بعد ہم اکیسویں صدی کے انسان کی طرف پلٹتے ہیں تو اس کی حالت امید کے معاملے میں بہت ہی زیادہ خستہ نظر آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا تاریخ میں شاید ہی انسان کو امید کا سبق پڑھنے کی اتنی ضرورت پڑی ہو جتنی کہ آج ہے۔ دراصل آج کے دور کا مسلمان، جس کو اسلام نے امید کے اس درس کا امین بنایا تھا، خود یاس وناامیدی کے دلدل میں گھر چکا ہے تو اب سارے عالم کو امید کا یہ سبق پڑھائے کون؟ آج کے مسلمان کو یہ بات سمجھنے اور اس کا مداواکرنے کی سخت ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK