• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: اسلام میں بارات، جہیز اور منگنی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں،مشترکہ کاروبار کا ایک مسئلہ

Updated: August 02, 2024, 4:14 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) اسلام میں بارات، جہیز اور منگنی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں  (۲) مشترکہ کاروبار کا ایک مسئلہ (۳) کاروبار میں حصے داری  (۴) دوا کی کمپنی اور ڈاکٹر کا مطالبہ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اگر لڑکے والے بغیر کسی عذ ر کے لڑکی کے ساتھ منگنی توڑنا چاہیں تو کیا ان سے تاوان لینا جائز ہے؟ لڑکی والے شادی کی مکمل تیاری کر چکے ہیں اور اس پر کافی رقم بھی خرچ کر چکے ہیں۔ محمد اسلام، ممبئی
 باسمہ تعالٰی ھوالموفق: اسلام شادی بیاہ میں سادگی کا قائل ہے۔ بارات، جہیز اور منگنی وغیرہ کی رسموں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، یہ سب غیروں کے اثر سے ہم مسلمانوں میں بھی داخل ہوگیا ہے۔ لڑکے والے منگنی کیوں توڑ رہے ہیں، اسے بھی دیکھنا ہوگا۔ لڑکے کی مرضی نہیں یا لڑکے والے ہی بدعہد ہیں اور بلا وجہ انکار کررہے ہیں، ان صورتوں میں لڑکی کے حق میں بھی یہی بہتر ہے کہ وہاں اس کی شادی نہ ہو۔ مالی تاوان اور جرمانے کو علماء نے عام طور سے منع لکھا ہے البتہ اگرلڑکے والوں نے لڑکی والوں پر دباؤ ڈال کر یا ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے کچھ خرچ کرایا ہو تو اس صورت میں یہ خرچ ان سے لینے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

یہ بھی پڑھئے:قرض کی ادائیگی ضروری ہے

مشترکہ کاروبار کا ایک مسئلہ
 میں نے ایک دوست کے ساتھ مل کر کاروبارکے لئے گاڑی لی، جس میں دونوں کا حصہ برابر تھا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ہمارا جھگڑا ہو گیا؛ کیونکہ وہ گاڑی میری مرضی کے خلاف استعمال کر رہا تھا؛ اس لئے میں اس سے شراکت داری سے الگ ہو گیا اور گاڑی اس کو اس شرط پر دے دی کہ اس میں میرا جو حصہ ہے میں اس کا تم سے ۱۵؍ہزار روپے ماہانہ کرایہ وصول کیا کروں گا اور گاڑی کی مرمت اور حادثے کی صورت میں گاڑی کا کام تم کرا کر دو گے تو میرے ذمے صرف گاڑی کے انجن اور ٹائروں کا کام ہو گا۔ یعنی گاڑی کے ٹائر اور انجن کے کام پر جتنا خرچ آئے گا وہ ہم دونوں پر ہمارے حصے کے بقدر تقسیم ہو گا اور اس کے بدلے میں گاڑی سے میرا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ وہ گاڑی جیسے چاہے استعمال کرے اور اس سے جتنا چاہے کمائے وہ سب اس کا ہو گا۔ کیا اس طرح کا معاہدہ کرنا یا کرایہ وصول کرنا جائز ہے؟ 

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: طواف زیارت کا کوئی متبادل نہیں،درود پاک کے تعلق سے سوال، نماز میں ستر،کیا یہ سود ہے؟

توفیق حسین، یوپی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں آپ دونوں گاڑی کی ملکیت میں برابر کے شریک تھے اور دونوں ایک ساتھ کام بھی کرتے تھے، گاڑی فریق ثانی کے حوالے کرنے کے بعد ملکیت میں اب بھی دونوں حصے دار ہیں اور شرعاً آپ کو یہ حق ہے کہ اپنے حصے کا کرایہ طے کرلیں بشرطیکہ شرائط شرع کے مطابق ہوں لہٰذا صورت مسئولہ میں آپ نے جن شرائط کے ساتھ ماہانہ کرایہ طے کیا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
کاروبار میں حصے داری 
 میرا ایک کزن ہمارے ساتھ کام کرتا تھا۔ ہم اس کو کام کے بدلے اس کی تنخواہ، بجلی گیس کا بل، عید کی شاپنگ اسی طرح قربانی وغیرہ کے لئے اخراجات اس کو دیتے تھے۔ تقریباً تیس سال تک اس نے ہمارے ساتھ کام کیا۔ ہمارے کاروبار میں اس کا کوئی پیسہ اور انویسمنٹ شامل نہیں تھا، اب وہ ہم سے الگ ہوگیا ہے اور کاروبار میں حصہ مانگ رہا ہے۔ کیا ہمارے کاروبار میں اس کا حصہ بنتا ہے؟راہ نمائی فرمائیں۔ اس کے علاوہ ہم نے اس کو ایک گھر بھی دیا تھا جو کہ تقریباً چار کمروں پر مشتمل ہے، یہ گھر بطورِ گفٹ دیا تھا، کاروبار والد صاحب کا تھا، وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا کچھ نکلے گا تو دیں گے، ورنہ نہیں۔ 
عبداللہ شیخ، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں آپ کا کزن تیس سال تک آپ لوگوں کے ساتھ کام کرتا رہا، آپ کے بقول آپ لوگ ہر ماہ اسے تنخواہ بھی دیتے تھے، اس کے علاوہ بجلی بل، گیس کا بل، عید کی شاپنگ اور قربانی وغیرہ کے اخراجات بھی دیتے رہے ہیں نیز ایک گھر بھی اسے گفٹ کیا ہے اس صورت میں اگر واقعی اس کی تنخواہ طے تھی اور وہ بھی بخوبی یہ جانتا تھا کہ اصلاً  وہ تنخواہ دار ملازم ہے باقی آپ لوگوں کی طرف سے صلہ رحمی اور حسن سلوک ہے اس صورت میں وہ صرف مابقی تنخواہ کا مستحق ہوگا، حصہ دار نہ ہوگا۔ لیکن اگر اس کی حیثیت تنخواہ دار ملازم کی نہیں بلکہ جو ماہانہ خرچ اسے ملتا تھا آپ اسی کو تنخواہ کہہ رہے ہیں یہ صورتحال ہو تو اسے حصہ دار کی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے لیکن تفصیلی حکم بتانا دیگر تفصیلات کے جاننے پر موقوف ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
دوا کی کمپنی اور ڈاکٹر کا مطالبہ 
 ایک ڈاکٹر کمپنی سے مال خریدتا ہے اور دوائی پر رقم کے مطابق فروخت کرتا ہے، لیکن اب ڈاکٹر نے کمپنی سے مطالبہ کیا کہ آپ میرے لئے کوئی کام کریں کہ دکان میں رنگ وغیرہ کر کے دے دیں، تو کمپنی کہتی ہے کہ آپ کمپنی سے تقریباً ۶؍یا۷؍ لاکھ کی خریداری کریں تب ہم آپ کو ۲؍لاکھ یا ایک لاکھ کا کام کر کے دینگے بشرطیکہ پہلے اگر ایک دوائی کمپنی نے آپ کو ۱۲۰؍ کی دی تھی تو اب ۱۴۰؍ کی دیں گے۔ نیز اس میں یہ بات ملحوظ رہے کہ ڈاکٹر اسی دوائی پر رقم قیمت کے مطابق فروخت کریں گے۔ کیا یہ معاملہ درست ہے ؟
ارشاد علی، پونہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ڈاکٹر مریضوں کو دیکھ کر ان سے اپنی متعینہ فیس لے یا دوا دےکر اس کی قیمت وصول کرے تو یہ اس کا حق ہے، شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں لیکن صورت مسئولہ کا تعلق مریضوں کے بجائے دوا کمپنی سے ہے۔ اصولاً یہ کمیشن کے قبیل سے ہے۔ تقریبا تمام ہی علماء اس کمیشن کے عدم جواز کے قائل ہیں، پھر ڈاکٹر مطالبہ کر رہا ہے جس کا اسے کوئی استحقاق نہیں ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اس کمیشن خوری کی وجہ سے ہی علاج اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ غریب آدمی اس کا متحمل نہیں ہوپاتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر کا یہ مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK