• Wed, 05 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: وراثت کا مسئلہ، مدرسے کا پیسہ مسجد میں استعمال کرنا،امام سے قرأت میں غلطی

Updated: May 25, 2024, 3:00 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) وراثت کا مسئلہ  (۲) مدرسے کا پیسہ مسجد میں استعمال کرنا (۳)امام سے قرأت میں غلطی (۴) امام کا جہت تبدیل کرنا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وراثت کا مسئلہ 
 میرے ۵؍ ماموں اور ۳؍خالائیں ہیں۔ نانا نانی انتقال کر گئے اور ۴؍ ماموں بھی انتقال کر چکے ہیں۔ ان میں ۲؍ماموں کنوارے، ایک ماموں کو اولاد نہیں تھی اور ایک ماموں نے ایک لڑکی گود لی ہوئی تھی۔ کیا مرحومین کی بیوی کا نانا کی جائیداد میں کوئی حصہ ہوگا؟ یہ بات بھی ہے کہ ایک ماموں نانا کی ملکیت میں سے کسی کو کوئی حصہ دینا نہیں چاہتے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ فہیم احمد، بھوپال 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق : آپ کے جن ماموؤں کا نانا کے بعد انتقال ہوا ہوگا وہ سب اپنے باپ کے شرعی وارث ہوں گے۔ ان میں سے دو تو کنوارے رہے اس لئے ان کی بیویاں یقیناً نہ رہی ہوں گی، جو لاولد تھا اور جس نے کوئی لڑکی گود لے رکھی ہے، اگر ان کی بیویاں ہوں تو اپنے شوہروں کے حصے میں سہام شرعیہ کے بقدر حقدار ہوں گی۔ جو ماموں کسی کو کوئی حصہ نہیں دینا چاہتا وہ ظالم ہے، دوسروں کو محروم رکھنے کا اسے کوئی حق نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
مدرسے کا پیسہ مسجد میں استعمال کرنا 
  ایک مسجد میں مدرسہ بھی چلتا ہے۔ دونوں کے اکاؤنٹ الگ الگ ہیں۔ فی الحال مسجد کا کام کرانا ہے مگر مسجد کے اکاؤنٹ میں پیسے نہیں ہیں جبکہ مدرسے کے اکاؤنٹ میں ہیں۔ کیا مدرسے کے اکاؤنٹ سے مسجد کا کام کرا سکتے ہیں ؟ ولی خان، میرٹھ
باسمہ تعالیٰ۔ ہوالموفق: مسجد کے ساتھ مدرسہ بھـی ہے لیکن دونوں کے اکاؤنٹ الگ الگ ہیں اسی سے واضح ہے کہ آمدنی وقف کی ہو یا چندے کی دونوں میں مشترک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مدرسے کے اکاؤنٹ میں زکوٰۃ کی رقوم کا ہونا بھی اغلب ہے جن کا مسجد میں استعمال کسی طرح بھی درست نہیں۔ لہٰذا، اول تو یہ کوشش کی جائے کہ مسجد کے لئے ہنگامی چندہ کرلیا جائے، بدرجہ مجبوری مدرسہ کے اکاؤنٹ سے وقتی طور پر قرض لے کر بعد میں اسے مدرسے کو واپس کردیا جائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم

یہ بھی پڑھئے: چھوٹی اولادیں والدین کی محبت کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں!

امام سے قرأت میں غلطی 
 امام صاحب نے جمعہ کی نماز میں قرأت کرتے ہوئے سورۃ المنافقون کی آیت وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ میں تاء پہ زبر کی جگہ پیش پڑھ دیا۔ آیت کا ترجمہ ہے :’’اور جب تم ان کو دیکھو گے تو ان کے جسم تم کو بھلے لگیں گے “ جبکہ امام صاحب کے پیش پڑھنے سے آیت کا ترجمہ ہوگیا ’’ اور جب میں ان کو دیکھوں گا “ سوال یہ ہے کہ حرکت کی تبدیلی سے معنی تبدیل ہوگئے تو نماز ہوئی یا فاسد ہوگئی ؟ اگر فاسد ہوئی تو اعادے کا کیا مسئلہ ہے، الگ الگ اعادے کی صورت میں جمعہ پڑھیں گے یا ظہر؟ عبد اللہ، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ کی رو سے تاء میں زبر کی جگہ پیش پڑھنے کی صورت میں یقیناً معنى فاسد ہوجائیں گے لہٰذا نماز کے فساد کا حکم ظاہر ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اعلان کر کے سب کو بتا دیا جائے لیکن فتنے کا اندیشہ ہو تو پھر اعلان سے احتراز کیا جائے، اعادہ انفرادی ہو یا باجماعت ہر صورت میں چار رکعت ظہر پڑھنی ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
امام کا جہت تبدیل کرنا 
 فجر اور عصر کی نماز میں جو تسبیح پڑھی جاتی ہے اس میں امام صاحب مقتدیوں کی طرف رخ کر کے کیوں تسبیح پڑھتے ہیں ؟
صادق امین، جھارکھنڈ 
باسمہ تعالیٰ۔ ہوالموفق: فجر عصر کے علاوہ نمازوں میں ہر نماز کے بعد سنن ونوافل بھی منقول ہیں اس لئے مختصر دعا کے بعد سب لوگ سنن ونوافل میں مشغول ہوجاتےہیں۔ عصراور فجر کے بعد کوئی سنت اور نفل نہیں اس لئے تسبیحات وغیرہ میں مشغولیت کے لئے بیٹھنے کی تین صورتیں علماء نے بتائی ہیں : نمازیوں کی طرف رخ ہو، دائیں رخ پر بیٹھیں یا بائیں رخ پر، مقصد سب کا یہ ہے کہ بے نمازیوں کی طرف پشت نہ ہو۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK